تھر درد والم کا صحرا

شیخ ایاز نے جس صحرائے تھر کو ’فطرت کا میوزیم‘ لکھا تھا وہ تھر گزشتہ کئی برسوں سے انسانی و قدرتی آفات کا گھر بنا ہوا ہے۔صحرائے تھر کا شمار دنیا کے چند ایک بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے۔ اپنی ویرانی، اداسی اور خوبیوں کے سبب یہ صحرا اپنی مثال آپ ہے۔ بارشوں میں شمالی علاقہ جات کا منظر پیش کرتا ، انسانوں اور جانوروں کے لئے بہشت بریں بنا یہ صحرا قحط میں بچوں اور مور جیسے صحرا کی پہچان خوبصورت پرندے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔گزشتہ کئی سالوں سے قحط سالی کا شکار یہ صحرا اس وقت بچوں کا قبرستان بنا ہوا ہے۔فطرت کا میوزیم موت کا صحرا بنا ہوا ہے جہاں زندگی سسک رہی ہے اور سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔دم توڑتی یہ زندگی ان نومولودوں کی ہے جنہیں ماں کے پیٹ میں بھی نو ماہ قحط کا سامنا رہا اور جب دنیا میں آنکھ کھلی تو اس قابل ہی نہ تھے کہ رنگ وبو کی اس دنیا میں کچھ ساعتیں گزار سکتے۔وہ مائیں بلک رہی ہیں جن کے معصوم کبھی نام نہاد اسپتالوں میں دم توڑ رہے ہیں تو کبھی صحرا کی وسعتوں میں پھیلے گاوں میں جہاں سے وہ کسی اسپتال تک بھی پہنچ نہیں سکتے۔دردو الم کی داستانیں ہیں جو جابجا بکھری ہیں۔غم کے افسانے ہیں جو شاید کبھی لفظوں کا روپ نہ دھار سکیں کہ تھر کا ترجمان کوئی نہیں۔مائیں بے بس ہیں۔باپ بے کس ہیں اور حکمران بے حس ہیں۔رہے نام جمہوریت کا۔
۲۷ دسمبر کوبینظیرکی برسی پہ جس وقت ملک کے طول وعرض میں ’مرد حر‘اپنی قوم کوجمہوریت کے فوائدو ثمرات سے آگاہ فرما رہے تھے ٹھیک اسی وقت صحرا میں بچوں کی زندگی کے چراغ گل ہورہے تھے۔ موصوف مفاہمت کے بادشاہ گردانے جاتے ہیں۔کاش تھر میں بچوں کے سروں پہ رقص کرتی موت سے بھی کوئی مفاہمت کرتے اور بچوں کی زندگیاں بچ جاتیں۔جناب انقلاب کے نعے لگاتے دوبارہ دبئی پدھار گئے ہیں ۔کیوں نہ پدھاریں کہ سندھ میں بھٹو زندہ ہے۔بھٹو کو زندہ رکھنے کے لئے بچوں کی قربانی ضروری ہے کیا؟
سندھی کے مشہور اور موقر اخبار روزنامہ ’کاوش‘ کی خبر ہے کہ ’مرد حر‘ کی تقریر کے اگلے دن یعنی 28 دسمبر کو سول ہسپتال مٹھی میں سات معصوم جانیں زندگی کی بازی ہار کر لقمئہ اجل بن گئیں۔ عوام کے منتخب نمائندگان جمہوریت کا پرچم اٹھائے دبئی تابخاک گڑھی شاہوبس ایک ہی آس وکوشش میں ہیں کہ ایان علی کی ضمانت ہوجائے۔ڈاکٹر عاصم ’علاج‘ کے لئے بیرون ملک چلے جائیں۔باقی عوام مرے یا جئے جمہوریت پسندوں کی بلا سے۔آخر کو انتقام کا نعرہ بھی تو انہی کا ہے۔سال2016 میں غذائی قلت کا شکار 600 بچے لقمئہ اجل بنے۔ محکمۂ صحت کی جانب سے 473 بچوں کی موت کی باقاعدہ تصدیق کی گئی ہے۔ سال گزشتہ 398 بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔ ہلاکتوں کا نہ تھمنے والا یہ سلسلہ جاری ہے اور حکام بالا کا راوی چین ہی چین کی بانسری بجا رہا ہے۔
جمہوری طبعیتیں اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ تھر میں قحط ہے۔ارشاد ہوا کہ اگر قحط ہے تو صرف نومولود بچے کیوں مر رہے ہیں،بڑے کیوں نہیں مرتے؟دوسرے لفظوں میں ان طبعیتوں کا فرمان عالیشان یہ ہے کہ نومولد ہی تھے ناں،مر گئے تو کیا ہوا۔اورپیدا ہو جائیں گے۔بڑی عمر کے لوگ مریں تب تو تو کوئی بات ہے۔معصوموں کی اموات پہ واویلا کرنا سندھ حکومت اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ان طبائع کی خدمت میں عرض ہے کہ حضور اکیسویں صدی میں قحط اس چیز کا نام نہیں ہے کہ پورا تھر بھوک کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائے،بلکہ ماوں کو پیٹ بھر خوراک اور غذ اکانہ ملنا بھی قحط ہے۔پچانوے فیصد سے زیادہ آبادی کو صاف اور میٹھا پانی نہ ملنا بھی قحط ہے۔دس لاکھ سے زائد آبادی رکھنے والے صحرا میں گنتی کی چند تھکے اسپتالوں کا ہونا بھی قحط ہے،جہاں سہولیات ناپید ہیں۔اگر اسپتالوں کو ہی جدید کردیا جاتا تو اموات میں کمی ہوسکتی تھی۔ان طبائع کا اعتراض بالکل درست ہے،یہ قحط نہیں ہے بلکہ قحط تو وہ ہے جو سندھ حکومت میں ہے۔جی ہاں قحط الرجال۔آلیس منکم رجل رشید؟کیا تم ایک بھی رجل رشید نہیں۔
گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی تھر میں بارشیں بہت کم ہوئی ہیں جس کی وجہ سے مطلوبہ مقدار میں خوارک کی فراہمی نہ ہو سکی اور نہ ہی تھر کے باسی پوری طرح فصل کاشت کرسکے۔جو تھوڑی بہت فصل ہوئی اس پر بھی ظلم یہ ہے کہ فصل کی جو قیمت لگ رہی ہے اس میں اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔جنہوں نے مانگ تانگ کے بیس تیس ہزار اس آس پر اپنی زمینوں پر لگائے کہ اور نہیں تو سال بھر کی جوار ہی مل جائے گی جو زندگی کی سانسیں ٹوٹنے نہیں دے گی ان کی فصل دس پندرہ ہزار سے زائد کی نہیں بک رہی۔تھر میں حال ہی میں خودکشیوں کے رجحان میں خطرناک اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ غذائی قلت اور لوگوں کی ضروریات زندگی کا نہ پورا ہونا ہے۔ صاف پانی کی تو پہلے ہی شدید کمی ہے۔ اگر حکومت صرف تھر میں صاف پانی کی فراہمی ہی یقینی بنا دے تو صحت کے مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے ہیں لیکن تھر میں لگے RO پلانٹ بھی بند پڑے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ایسے میں تھر میں صرف موت کا کنول کھلتا ہے جو روزبروز کھل رہا ہے۔جمہوریت زندہ باد۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply