جہلا اور ہمارا رویہ۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

عربی میں “جاہل” کا معنی اَن پڑھ یا بے علم آدمی نہیں، بلکہ اس سے مراد اُجڈ اور مشتعل مزاج شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتاؤ کرے۔ اور شریعت میں اللہ کریم کے نافرمان کو بھی جاہل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک مثال: آپ کو علم و دانائی کی وجہ سے “ابوالحکم” کہلانے والا ایک تاریخی کردار شاید یاد ہو جو حق بات نہ ماننے اور اللہ کریم پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے “ابوجہل” کہلایا۔

اسلام میں “جاہل” لوگوں سے گریز کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ کریم قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ؛

وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴾ [ الفرقان 63:25 ]

” رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی (آہستگی) کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے (جاہلانہ) باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔”

سلام سے مراد یہاں فساد پر مائل جہلا سے اعراض اور ترکِ بحث و مجادلہ ہے۔ اہل ایمان کی خوبی ہے کہ وہ جہلا کی سطح پر اترتے ہوئے جہالت اختیار نہیں کرتے بلکہ اہل جہالت و اہل سفاہت کی طرف سے الجھنے کی کوشش کے جواب میں بھی اعراض و گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بحث مباحثہ و لڑائی جھگڑے میں اپنی توانائیاں اور وقت ضائع نہیں کرتے۔

چنانچہ ایک سمجھدار اور معقول آدمی کو چاہیے کہ وہ مناسب انداز میں دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرے، لیکن جب اسے محسوس ہو کہ اس کا مخاطب جان بوجھ کر بات کو سمجھنا نہیں چاہتا اور خواہ مخواہ کی بحث میں الجھنا چاہتا ہے تو وہ کسی قسم کی بد مزگی پیدا کیے بغیر خود کو ایسی صورت حال سے الگ کر لے۔

قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی جاہلوں سے اعراض کرنے کی بابت فرامین موجود ہیں؛

1۔ جیسے سورۃ نمبر 7 الاعراف کی آیت نمبر 199 میں ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا گیا؛

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (199)
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔

2۔ سورۃ نمبر 2 البقرۃ آیت نمبر 67 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جاہلوں میں سے ہونے سے پناہ مانگی۔

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٓ ٖ اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ۖ قَالُوٓا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّـٰهِ اَنْ اَكُـوْنَ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ (67)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو، انہوں نے کہا کیا آپ ہم سے ہنسی کرتے ہیں، کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ جاہلوں میں سے ہوں۔

3۔ سورۃ نمبر 11 ھود آیت نمبر 46 میں حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا؛

قَالَ يَا نُـوْحُ اِنَّهٝ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۖ اِنَّهٝ عَمَلٌ غَيْـرُ صَالِــحٍ ۖ فَلَا تَسْاَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۖ اِنِّـىٓ اَعِظُكَ اَنْ تَكُـوْنَ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ (46)
فرمایا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، کیونکہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں، سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ۔

4۔ سورۃ نمبر 6 الانعام کی آیت نمبر 35 میں اللہ کریم کا فرمان ہے کہ؛

وَاِنْ كَانَ كَبُـرَ عَلَيْكَ اِعْـرَاضُهُـمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِىَ نَفَقًا فِى الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِى السَّمَآءِ فَتَاْتِيَـهُـمْ بِاٰيَةٍ ۚ وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ لَجَمَعَهُـمْ عَلَى الْـهُدٰى ۚ فَلَا تَكُـوْنَنَّ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ (35)
اور اگر آپ پر ان کی رُوگردانی شاق گزر رہی ہے (اور آپ بہر صورت ان کے ایمان لانے کے خواہش مند ہیں) تو اگر آپ سے (یہ) ہو سکے کہ زمین میں (اترنے والی) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے والی) کوئی سیڑھی تلاش کرلیں پھر (انہیں دکھانے کے لیے) ان کے پاس کوئی (خاص) نشانی لے آئیں (وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے)، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کو ہدایت پر ضرور جمع فرما دیتا پس آپ (اپنی رحمت و شفقت کے بے پایاں جوش کے باعث ان کی بدبختی سے) بے خبر نہ ہو جائیں۔

اس ضمن میں آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ؛
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’انسان کے اسلام کی خوبی اس کا لایعنی (لغو) باتوں سے بچنا ہے۔‘‘
اس حدیث کو ترمذی اور دوسروں نے روایت کیا ہے۔ اس میں آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے مومن کی ایک اہم صفت بیان فرمائی ہے جسے اختیار کرنے سے اس کا اسلام اور ایمان کامل اور عمدہ بن جاتا ہے۔ یہ صفت ہے مومن کا فضول باتوں اور کاموں سے کنارہ کش ہونا۔ ہر اس بات اور کام کو چھوڑ دینا جو فضول، بیکار اور لاحاصل ہو۔ ایک مسلمان ان تمام باتوں اور کاموں سے اجتناب کرتا ہے جن کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ نہ نکلے، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو اور جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس طرح “جہلا ” سے اعراض کی صفت اپنا کر اپنا وقت، توانائیاں اور صلاحیتیں اپنی تعمیر شخصیت اور معاشرے کی فلاح و بہبود جیسے مثبت کاموں میں لگائی جانی چاہئیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply