مولاجٹ گلیلیو اور ویسٹرن نسیم حجازیئے

مولاجٹ گلیلیو اینڈ ویسٹرن نسیم حجازیئے
حصہ دوم
۔
تحریر: لالہ صحرائی
انتساب: اپنے نسیم حجازیوں کے نام
۔

پہلی قسط میں ہم نے انگریزی ادب سے یہ واضع کر دیا تھا کہ انشاءپردازی اور سحربیانی کے بغیر ناول کا مرکزی خیال ایک سادہ سی خبر کے سوا کچھ نہیں بچتا، ایک ناول نگار جب انسان کی حمیت، شجاعت، نفسیاتی، جذباتی، سماجی، انتظامی، سیاسی و فوجی حکمت عملی اور دیگر صلاحیتیوں کا احاطہ کرتا ہے تو محبت، نفرت، جدائی، کسمپرسی، رنج و الم، عداوت اور دیگر سنسنی خیز جذباتی کیفیات کے علاوہ اس طرح کی آوازیں بھی لازمی آتی ہیں کہ:

اللہ کے مجاہدو، تم ہی زمین کے وارث ہو، مسلمانوں کے لشکر جرار نے دشمن کا ٹڈی دل لشکر روند ڈالا، فضا اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی تھی، ماں نے کہا مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے، ماؤں، بہنوں، بیویوں نے اسلام کی خاطر اپنے بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں کی بیش بہا قربانیاں دیں تب جا کر اسلام کا پرچم نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر لہرایا وغیرہ وغیرہ۔

تاریخی ادب، جنگی قصہ یا سرفروشی کی داستان ہر جگہ نسیم حجازی کی طرح ہی بیان ہوتی ہے، اب اس کی مثالیں دیکھتے جائیے:

مذہبی، سیاسی اور سماجی ماحول میں آئیرلینڈ کے کنگ رابرٹ دی بروس کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ دیکھ کے برطانیہ کے کنگ ایڈورڈ نے اس کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تاکہ اس کا مدمقابل کوئی نہ ہو حالانکہ رابرٹ کی تاجپوشی ملکہ آئیزوبیل اور پوپ مقدس کی رضامندی سے ہوئی تھی، رابرٹ اس حملہ کی تاب نہ لا سکا اور ایڈورڈ نے اس کا کنبہ بھی قید کرلیا۔

His wife, daughter and sisters were captured and imprisoned in England. Countess Isobel was locked in an iron cage at Berwick while Bruce’s brothers were hanged, drawn and beheaded.

ملکہ آئزوبیل کو لوہے کے پنجرے میں قید کر دیا، بروس کے بھائیوں میں سے کسی کو تختہ دار پر لٹکایا تو کسی کو رگید دیا اور سر قلم کر دیا گیا۔

ڈرا کے کئی مطلب ہیں، انٹرانزیٹیو ورب میں اس کا مطلب، شکنجے میں کسنا، نچوڑ دینا، رگید دینا ہے۔
a : to wrinkle or tighten up : shrink
b : to change shape by pulling or stretching

رابرٹ بروس شکست کھا کے ایک غار میں جا چھپا، وہاں اسے نے مکڑی کو دیوار پر چڑھتے ہوئے دیکھا جو بار بار گرتی تھی پھر ساتویں کوشش میں وہ اپنے جالے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تو بروس نے سوچا اگر بار بار کوشش سے ایک مکڑی کامیاب ہو سکتی ہے تو میں کیوں ہمت ہاروں؟ لہذا اس نے باہر نکل کر اپنا لشکر دوبارہ اکٹھا کیا اور ایڈورڈ پر جوابی حملہ کیا۔

Bruce attacked his Scots enemies – destroying Comyn strongholds along the Great Glen and harrowing Buchan and the north east. His men cut a bloody swathe through Galloway and the south west.

پھر کنگ بروس کے بندوں نے گیلووے سے ساؤتھ ایسٹ تک کنگ ایڈورڈ کی فوج کے کشتوں کے پشتے لگا دیئے اور خون کی ندیاں بہا دیں، ٹو کٹ اے بلوڈی سویتھ کا مطلب ہے
: to cause a lot of destruction, death, or harm in a particular place.

ایک بار مخصوص انگریزی الفاظ کے اردو مترادفات صرف اس لئے بتائے ہیں تاکہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ شائد پلے سے مطلب بیان کئے جا رہا ہے، اب میں سیدھا سیدھا ترجمہ کرتا جاؤں گا جو اردو میں وہی بنتا ہے جو نسیم حجازی لکھتا ہے۔

Thousands died as the Scots defeated Edward’s army. The river was choked with the dead as Edward II fled the field and returned to England.

کنگ ایڈورڈ جب میدان جنگ سے بھاگ کر انگلینڈ پہنچا تو اس کی فوج کے ہزاروں لوگ مارے جا چکے تھے یہاں تک کہ دریا کا پاٹ لاشوں سے اٹا پڑا تھا۔

Bannockburn was not the end of Bruce’s struggle but it was a turning point. Captured English nobles were traded for his family and King Robert I gained international recognition.

بنوکبرن کی جنگ بروس کی جدوجہد کا اختتام نہیں بلکہ یہ تو محض شروعات تھیں، پھر اس نے انگلینڈ کی اشرافیہ کو قید کر لیا اور ان کے بدلے میں اپنی بیوی، بیٹی، بہن اور ملکہ کو نہ صرف آزاد کرایا بلکہ دنیا پر اپنی بہادری کی دھاک بھی بٹھا دی۔

یہ کہانی نہ صرف آئیرلینڈ کی آفیشئیل داستان حریت ہے بلکہ “ٹرائی ٹرائی اگین” کے تناظر میں انگریزی ادب کا وہ سرمایہ افتخار ہے جو تعلیمی نصابوں میں بھی شامل رہا ہے یہاں تک کہ آئیرلینڈ کے وہ غار سیاحوں کیلئے اب بھی مونیومنٹ کا درجہ رکھتے ہیں جہاں رابرٹ چھپا تھا۔

آپ کو یقیناً کنگ رابرٹ دی بروس کیساتھ ہمدردی ہو رہی ہو گی جس نے اپنی آزادی کیلئے ایک خونخوار جنگ لڑی، ایک حساس انسان کو بروس کیساتھ ہمدردی ہونی بھی چاہئے کیونکہ وہ مظلوم تھا اس نے جو کیا وہ اپنے خاندان اور اپنی قوم کی بقا کیلئے کیا۔

اس کارنامے پر رابرٹ دی بروس کو “انٹرنیشنل ریکگنیشن” بھی ملی، اس کی جنگ کو “سٹرگل” یعنی جدوجہد کا نام بھی دیا گیا اور دنیا کو “ٹرائی ٹرائی اگین” کا مورل بھی ملا لیکن جب نسیم حجازی یہ سب کچھ بیان کرتا ہے تو آپ کو گھن آتی ہے حالانکہ نسیم حجازی ان کے آگے کچھ بھی نہیں بیچتا، رہا سوال ظالم اور مظلوم کے فرق کا تو اس کیلئے مجھے تیسری قسط لکھنی پڑے گی، آپ فرمائش کریں گے تو یہ بھی ہو جائے گا انشاءاللہ۔

اختصار میری مجبوری ہے ورنہ یہ کہانیاں بہت طویل ہیں، اب آگے دیکھتے ہیں کہ غیرمسلموں کا جنگی ادب مسلمانوں کے بارے میں کیسے بیان ہوا۔

Religious leader at the Council assured his listeners that God himself wanted them to encourage men of all ranks, rich and poor, to go and exterminate Muslims.

مذہبی لیڈر نے اپنے مذہبی اجتماع میں ایک جم غفیر کو یقین دلایا کہ یہ خدا کا حکم ہے کہ میں ہر خاص و عام کو متحرک کروں کہ جاؤ اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دو۔

He said even robbers should now become soldiers of religion. Assured that God wanted them to participate in a holy war, masses pressed forward to take the oath. They looked forward to a guaranteed place in Heaven for themselves and to an assured victory for their divinely endorsed army.

حتٰی کہ ایک ڈاکو کو بھی اس وقت مذہب کا سپاہی بننا چاہئے، خدا کا یہی حکم ہے کہ اس مقدس جنگ کا حصہ بنو، پھر اس جم غفیر نے بجان و دل حلف اٹھایا، وہ اس امید پر آگے بڑھے کہ نہ صرف ان سب کو جنت میں محل ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی بلکہ اس خدائی فوج کو فتح کی بشارت بھی دی گئی تھی۔

” The crowd chanted back Deus le vult! Deus le vult!” (“God wills it! God wills it!”)

یہ سن کر بھرے مجمع نے پرجوش نعرے لگائے، فضا انشاءاللہ، انشاءاللہ کے نعروں سے گونج رہی تھی، خدا یہی چاہتا ہے، خدا یہی چاہتا ہے۔

By reinterpreting the Truce of God as a warrant for Europeans to kill Moslems and not each other, he also sought to embarrass secular leaders for all their intra-European wars. The leader did not appoint a secular military supreme commander but only a spiritual one, from Le Puy.

مذہبی لیڈر نے، اہل یورپ کو آپس میں لڑنے کی بجائے، خدا کی منشا بتا کر مسلمانوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی دے دی اور ساتھ ہی سیکولرز کو بھی دبانے کی کوشش کی، پھر اس فوج کا سپریم کمانڈر کسی سیکولر کی بجائے لیپوئے کی ایک روحانی شخصیت کو مقرر کیا۔ وارنٹ وہ اجازت نامہ ہوتا ہے جو کسی کو بزور طاقت اپنا مقصد پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ خدا کی منشا کو وارنٹ قرار دیا گیا

Sieges were laid to a series of Muslim cities. They had little respect for their enemies and enjoyed catapulting the severed heads of fallen Moslem warriers into besieged cities. After a victory near Antioch, انطاقیہ ترکی ، they brought severed heads back to the besieged city.

Hundreds of these heads were shot into the city, and hundreds more impaled on stakes in front of the city walls. A leader called it a joyful spectacle for the people of God. When Muslims crept out of the city at night to bury their dead………. cencored

مسلمانوں کے کٹے ہوئے سروں کو نیزوں اور شہر کے دروازوں پر لٹکایا گیا، اس موقع پر ایک لیڈر نے کہا خدا کے سپاہیوں کیلئے یہ کیسا خوش کن منظر ہے، پھر جب مسلمان رات کے اندھیرے میں اپنی لاشیں دفنانے نکلے تو…

آگے میں نے سنسر کر دیا ہے کیونکہ میں نے صرف نسیم حجازی کی ادبی صنف پر اعتراض کو رفع کرنا ہے نفرت نہیں پھیلانی یہاں۔

نسیم حجازی کا سپاہی قسم کھا کر خدا کی راہ میں نکلتا ہے تو ادھر کی صورتحال بھی دیکھ لیں زرا

These extended military raids stemmed from changes hat had taken place outside Europe before the time of the holy wars, most notably the growth and expansion of Islam. Holy wars such as these bear a striking resemblance to the Moslem practice of the jihad, which by then had become a very successful Islamic institution. These holy warriors of Europ literally took vows for both callings, fulfilling their holy duties by killing God’s enemies.

جہاد کے مقابل خدا کے دشمنوں کو مارنے کیلئے ہولی۔وار کا حلف اٹھانے کے بعد اب اس مقدس فوج نے کیا کیا اس کا کارنامہ دیکھئے۔

They looted property, and robbed, tortured, raped and murdered the mainly Christian inhabitants of the country, reportedly roasting babies on spits.

Some 6,000 German tried to emulate it. However, this time an army of Turks arrived and chopped the holy warriors into pieces. Survivors were given the chance to save their lives by converting to Islam, which some did, including their leader Rainauld.…

ان فاتحین نے لوٹ مار، چھینا جھپٹی، تشدد، جنسی زیادتی اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا، وہ بھی عیسائیوں کے سمیت، یہ کوئی چھ ہزار جرمن مقدس جنگجو تھے جنہوں مال غنیمت سمیٹنے والے مرحلے کی نقل کی لیکن ترک فوج ان کے سر پہ پہنچ گئی اور مقدس جنگجووں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیئے۔

اس مقدس فوج کے تین آبجیکٹیوز تھے، یہ مخالف عیسائی فرقوں، یہودیوں اور مسلمانوں کیساتھ ایک جیسا متشدد سلوک کرتے تھے، رینالڈ کو پرنس آف یروشلم بھی کہتے ہیں، اس نے ایک بار صلاح الدین ایوبی کو شکست دی تھی، پھر کسی روٹ پر پلگرمز کے قافلے لوٹنے کیلئے ناکہ بندی کرکے بیٹھا تھا کہ ایک مسلمان جرنیل کے ہاتھوں گرفتار ہوا، کچھ عرصہ قید رہا پھر ایک سفارتی معاہدے کے تحت ایک لاکھ بیس ہزار اشرفیوں کے عوض چھوڑ دیا گیا، اب کی بار یہ صلاح الدین کے ہاتھوں شکست کھاگیا اور گرفتار ہوا پھر بھی اسے کہا گیا کہ مسلمان ہو جاؤ تو تمہیں سرداری، مال اور عزت سب کچھ دیں گے لیکن اس نے وقت مانگا اور ایک طرف جا کے اپنی عبادت کرنے لگا، جرنیل نے مترجم سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے تو اسنے بتایا کہ یہ تمہاری دعوت سے انکار اور اپنے دین پر ثابت قدمی کیلئے مناجات کر رہا ہے، جرنیل نے اسے بگ۔باس کے روبرو پیش کیا تو صلاح الدین ایوبیؒ نے ماجرا سن کے اپنے ہاتھوں رینالڈ کا سر قلم کر دیا۔

As Sir Steven Runciman, a leading historian of the period says: the Byzantines were “shocked and angered by the stupidity, the ingratitude and the dishonesty of the holy warriors”.

بازنطینی وسط ایشیائی اور عرب عیسائی تھے وہ بھی چیخ اٹھے تھے کہ مقدس وارئیرز عیسائیوں کیساتھ یہ کیسا سلوک کرنے لگے ہیں، یہی وجہ تھی کہ اندلس، اسپین، انطاقیہ، اناطولیہ اور پروشلم میں مسلمانوں کی فتوحات میں عیسائیوں کی دعوت، ایماء اور خفیہ امداد بھی شامل تھی، یہ کام اموی دور سے شروع تھا، طارق بن زیاد کو عیسائیوں نے اپنے حاکم کے مظالم کیخلاف دعوت دے کے خود بلایا تھا۔

مصر کے دو شہروں البارہ اور مراۃالنعمان کا حال دیکھئے۔

The war broke out, putting the Muslim army to flight and capturing their women, the women had been murdered in their tents, pierced through the belly by lances.

Muslims who surrendered were killed or sold into slavery. This treatment was applied to combatants and citizens alike: women, children, old, everyone.

At Albara the population was totally extirpated, and the mosque converted into a church.

At Maarat an-Numan the pattern was repeated. The slaughter continued for three days.

Both Christian and Muslim historians agreeing on the main points, the Christian account describes how the Muslim bodies were dismembered, some were cut open to find hidden treasure, while others were cut up to eat. The Muslim account mentions that over 100,000 were killed.

اب یروشلم اور بیروت کا حال بھی دیکھ لیجئے۔

When the holy warriors captured Jerusalem on the 14th July 1099, they massacred the inhabitants, Jews and Muslims alike, men, women and children. The killing continued all night and into the next day.

Muslims sought refuge in the al-Aqsa mosque under the protection of a Christian banner. In the morning holy warriors entered and massacred them all, 70,000 according to an Arab historian, including a large number of scholars.

The Temple of Solomon was so full of blood that it came up to the horse’s bridles.

خون کا لیول گھوڑوں کی زین تک آرہا تھا، یہ بھی صنعت مبالغہ کا استعمال ہے مطلب یہ ہے کہ خون کا دریا بہا دیا گیا۔

The leader described it as a just and wonderful judgement of God. Even before the killing was over they were “rejoicing and weeping for joy” to thank God for his assistance.

تاریخ دان لکھتا ہے کہ جرنیل نے اس فتح کو خدا کا عظیم عطیہ قرار دیا، فتح اور قتل و غارت کے ساتھ ہی مقدس وارئیرز فرط جذبات سے روتے ہوئے خدا کے حضور شکرانے کے طور پہ مناجات بھی کر رہے تھے۔

At the end of the butchery the floor was a lake of blood. In the whole city only a few girls and infants survived. Soon afterwards, there was a similar massacre at Beirut. Such barbarity shocked the Eastern world and left an impression of the West that has still not been forgotten in the third millennium.

یہ ایسی بربریت تھی جس سے ان شہروں کا رقبہ خونی جھیل میں بدل گیا، شہر میں چند لڑکیوں اور بچوں کے سوا کوئی نہ بچا، یہی کچھ پھر بیروت میں ہوا، یہ ظلم مشرقی دنیا کی نظر میں مغرب کیلئے ایسا برا نقش مرتب کرگیا ہے کہ اس تیسرے ملینئم تک نہیں بھلایا جا سکا، یہ واردات دوسرے ملینئم کی ہے، تیسرے ملینئیم سے مراد ہے سن 2000 کے بعد کا رواں دور۔

آپ ہمارا ماضی گندہ بتاتے ہیں جبکہ دشمن کا تاریخ دان کچھ اور کہتا ہے، سچ کہا کسی نے تعریف وہ جو دشمن کرے۔

In addition to his abilities as a military leader, Salahudin is renowned for his chivalry and merciful nature. It is known, for example, he provided medical assistance on the battlefield to the wounded of both sides, and even allowed enemies to visit their prisoners.

یروشلم اور بیروت کی فتح پر غیر مسلموں کی قتل و غارت آپ نے دیکھی، اب انہی شہروں پر صلاح الدین ایوبیؒ کی فتح کا حال بھی دیکھ لیجئے

Once the battle to retake Jerusalem was over, no one was killed or injured, and not a building was looted. The captives were permitted to ransom themselves, and those who could afford to do so ransomed their vassals as well.

Many thousands could not afford their ransom and were held to be sold as slaves. The military monks, who could have used their vast wealth to save their fellow from slavery, declined to do so.

جن لوگوں کے پاس پیسے تھے وہ دس دس دینار دے کر رہا ہو گئے، جو غریب تھے ان کے حق میں اعلان کیا گیا کہ دشمن فوج یا اس کی قوم چاہے تو اپنے بندوں کو چھڑا کر لے جائے لیکن دشمن کی ملٹری لیڈرشپ جس کے پاس اچھی خاصی دولت تھی وہ بھی انکار کر گئی

The head priest, the patriarch Heraclius, and his clerics looked after themselves. The Muslims saw Heraclius pay his ten dinars for his own ransom and leave the city bowed with the weight of the gold that he was carrying, followed by carts laden with other valuables.

ایک بڑا مذہبی لیڈر بھی دیگر رہنماؤں کی طرح صرف اپنے دس دینار دے کر چلا گیا پھر جب اس نے شہر چھوڑا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ساتھ قیمتی اشیاء سے بھرے چھکڑے تھے اور اپنی دیناروں کی بوری اس نے خود اٹھا رکھی تھی جس کے بوجھ سے اس کے کندھے جھکے جا رہے تھے لیکن اپنی قوم کیلئے اس نے ایک ٹکا نہیں خرچ کیا۔

As the prisoners who had not been ransomed were led off to a life of slavery, Saladin’s brother Malik al-Adil took pity. He asked his brother for 1,000 of them as a reward for his services, and when he was granted them he immediately gave them their liberty.

صلاح الدین کے بھائی ملک العادل نے جب دیکھا کہ اب ان بیچاروں کی رہائی کیلئے کوئی نہیں آرہا تو اس نے اپنی خدمات کے عوض ایک ہزار غلاموں کا مطالبہ کر دیا، جب ایک ہزار قیدی اسے بطور غلام دے دئے گئے تو اس نے انہیں آزاد کر دیا۔

This triggered further generosity amongst the victorious commanders, culminating in Salahudin offering gifts from his own treasury to the Christian widows and orphans.

ملک عادل سے متاثر ہو کر دیگر کمانڈروں نے بھی یہی کام کیا، پھر یہ جذبہ ترحم اپنے نقطہء عروج پر پہنچ گیا جب صلاح الدین نے بھی اپنے حصے کے مال سے دشمن کی بیواؤں اور یتیموں کی امداد شروع کردی۔

As a contemporary historian has remarked, “His mercy and kindness were in strange contrast to the deeds of the holy conquerors”.

ایک معاصر تاریخ دان نے لکھا کہ مقدس جنگجووں کے برعکس صلاح الدین کا مفتوح قوم کیساتھ حسن سلوک حیران کن حد تک اچھا تھا۔

کچھ عرصہ بعد رچرڈ شیردل اٹھا، اس نے، حیفہ۔بے اسرائیل کے، ایک قصبے کو یرغمال بنا کے تاوان کیلئے پیغام بھیجا لیکن صلاح الدین فوری طور پر ان سویلینز کو چھڑانے کا مالی بندوبست نہ کر سکا، پھر کیا ہوا، یہ کمینگی بھی دیکھ لیجئے۔

Richard went on to capture Acre in 1191. Salahudin was unable to pay for the release of the survivors quickly enough, so Richard ordered the massacre of his 2,700 captives, many of them women and children. They waited in line, each watching the one in front have their throat slit. Wives were slaughtered at the side of their husbands, children at the side of their parents.

ایک سال بعد رچرڈ دی لائن ہارٹ جب ایوبی کے سامنے آیا تو اس نے بھی انکل سام جیسا ہی پیغام دیا تھا، بائی۔گاڈ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔

ہمارا تذکرہ نگار اس کا جواب یوں لکھتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے لہراتی ہوئی تلوار کے ہلکے سے ٹچ سے خیمے کا پردہ کاٹ کر رچرڈ دی لائن ہارٹ سے کہا، یہ ہماری تلوار کی کاٹ ہے جینٹلمین، پھر اس نے ایک ہی وار سے لوہے کی سلاخ کے دو ٹکڑے کر کے کہا، اور یہ رہی ہماری قوت بازو کی مثال، یہ تمہارے پیغام کا جواب ہے، باقی رہے نتائج تو ان کا فیصلہ میدان جنگ کرے گا۔

Despite Richard’s behaviour, Saladin continued to treat him with respect when they met on the battlefield, apparently because Richard’s fighting prowess impressed him. When Richard’s horse fell, wounded in battle outside Jaffa in August 1192, Saladin sent a fresh to mounts for him. The Lionheart’s treatment by his Muslim enemy contrasted with his treatment by his own allies. On his way home later that year Richard was captured and imprisoned by a fellow, Leopold, Duke of Austria. He was eventually released on payment of 150,000 marks (£100,000), literally a king’s ransom.

میدان جنگ میں جب رچرڈ کا گھوڑا زخمی ہو کر گرگیا تو بہت اچھا موقع تھا اسے قتل کرنے کا مگر صلاح الدین نے پہلے اسے ایک بہترین گھوڑا پیش کیا اور پھر لڑائی دوبارہ شروع کی لیکن واپسی پر اس کے اپنے ہی ساتھی لیوپولڈ نے رچرڈ کو تاوان کیلئے یرغمال بنا لیا۔

اب گلیلیو کی طرف آتے ہیں، اس مولا جٹوی بھڑک کا اصل مقصد بھی اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ورنہ سانتا ماریہ کیتھولک چرچ میں جو کچھ ہوا وہ اس بھڑک کے بلکل برعکس ہے، یہ حوالہ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے انسائیکلوپیڈیا سے پیش کر رہا ہوں۔

Galileo was called four times for a hearing; the last was on June 21, 1633. The next day, 22 June, Galileo was taken to the church of Santa Maria Sopra Minerva, and ordered to kneel while his sentence was read. It was declared that he was “vehemently suspect of heresy”. Galileo was made to recite and sign a formal abjuration:

اسے حکم ہوا کہ جھک جاؤ، پھر اس کا جرم پڑھ کر سنایا گیا کہ تم “حد درجہ گستاخی کے مرتکب ہو” اب حلفیہ معافی نامہ پیش کرو، وہ بیان حلفی یہ تھا

“I have been judged vehemently suspect of heresy, that is, of having held and believed that the sun in the centre of the universe and immoveable, and that the earth is not at the center of same, and that it does move. Wishing however, to remove from the minds of your Eminences and all faithful Christians this vehement suspicion reasonably conceived against me, I abjure with a sincere heart and unfeigned faith, I curse and detest the said errors and heresies, and generally all and every error, heresy, and sect contrary to the Holy Catholic Church” (Quoted in Shea and Artigas 194).

Galileo was not imprisoned but had his sentence commuted to house arrest. He died on January 8, 1642.

گلیلیو سے منسوب ایک مشکوک جملہ ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۹۱۱ میں اینٹیک پینٹنگز کے ایک شوقین کو اسپین کی ایک پینٹنگ ملی جس پر گلیلیو زندان کی دیوار کی طرف دیکھ رہا ہے اور وہاں یہ جملہ لکھا ہوا ہے،
Eppur si muove, meaning, and yet it moves

سزا کے بیس سال بعد اور گلیلیو کی وفات کے دس سال بعد اس کے ایک شاگرد نے گلیلیو کی پہلی بائیوگرافی لکھی جس میں ایسا کوئی جملہ نہیں تھا، پھر اس واقعے کے سو سال بعد ایک کتاب لکھی گئی جس میں یہ پیرا لکھا ہوا ہے۔

The moment he was set at liberty, he looked up to the sky and down to the ground, and, stamping with his foot, in a contemplative mood, said, Eppur si muove. meaning , still it moves.

تحقیق نگار اس بات پر متفق ہیں کہ گلیلیو نے یہ کہا ہوتا تو اس کے سوانح نگار اور دیگر علمی معاصرین جو دیر تک زندہ رہے ان کے ہاں سے اس بات کی تصدیق ضرور ہوتی مگر اس کا اپنا عہد اس جملے کی تصدیق کیلئے بلکل خاموش ہے البتہ کسی سچائی کی طرف توجہ دلانے کیلئے still it moves کو بطور ضرب المثل کے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ گلیلیو کا اپنا جملہ نہیں ہے۔

دور حاضر کے محقق و تاریخدان کیرولینا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر پال کرافورڈ کا کہنا ہے کہ مغربی محققین و تاریخدانوں کا معتبر گروہ جن میں وولٹئیر، ایڈورڈ گبن، والٹر اسکاٹ اور اسٹیون رنسیمین شامل ہیں وہ اپنی مغربی قوتوں کو جو نسیم حجازی کے مسلم ہیروز کے مدمقابل رہی ہیں انہیں اس طرح دیکھتے ہیں

saw them as crude, greedy, aggressive barbarians who attacked civilized, peace-loving Muslims to improve their own lot.

تاہم کچھ غیر معروف تاریخدان ان قوتوں کو مسلمانوں کے مقابل اپنا مقدس ہیرو بھی سمجھتے ہیں جبکہ معروف ادیب ٹی۔ایس۔ایلئیٹ کا کہنا ہے کہ جو انہیں مقدس سمجھ کے پوجے وہ بھی درست نہیں اور ان کی بیہودگیوں پر معافی مانگنے کی بھی ضرورت نہیں

2011 میں پبلشڈ اپنے اس مقالے میں پال کرافورڈ مغرب اور مشرق کے درمیان حالیہ صورتحال کو ماضی کے آئینے میں دیکھ کر مزید کہتا ہے مغرب نے وہی کچھ اب سیکولر وے میں شروع کر رکھا ہے جس سے مسلمانوں میں بے چینی اور اسلامی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔

But the irony is that bin laden and those millions of Muslims who accept his message (unity of muslims against west), received that message originally from their perceived enemies: the West.

یعنی ان تحریکوں کا ذمہ دار مغرب کا رویہ ہے، پال کرافورڈ کا یہ مقالہ کتھولک ریسورس سینٹر پر موجود ہے، یہ فورم ہمیشہ اسکالرز کے پرمغز مقالات پیش کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گزارش ہے کہ آپ جرم کو جرم ضرور کہیں اور مجرم کو کٹہرے میں بھی ضرور لے جائیں مگر کسی جرم کو ہماری تہذیب، قوم اور ادب کو گندہ کرنے کا بہانہ مت بنائیں ورنہ یہ ثابت کریں کہ وہ کونسا معاشرہ ہے جہاں شراب، افیون، چرس اور بدکاری کی طرف رغبت دلانے کیلئے ادب پڑھایا جاتا یا اشتہارات چلائے جاتے ہیں، ایک بھی نہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ انہی جرائم کا ارتکاب ہر معاشرہ میں بڑے وسیع پیمانے پر ہوتا ہے، اسی طرح جس کسی نے جہاد کے نام پہ جرائم کرنے ہیں اسے نسیم حجازی کی آڑ درکار نہیں، اسے اصول نہ بنائیں ورنہ کل کو ٹن۔پارٹی بھی اپنے نشے کیلئے شاعروں اور ادیبوں کی آڑ لینے بیٹھ جائے گی۔
۔
۔

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مولاجٹ گلیلیو اور ویسٹرن نسیم حجازیئے

  1. بہترین انداز میں آپ نے یہ مقدمہ پیش کیا تاریخ سے انسیت رکھنے والوں کےلئے اس میں کافی مواد ہے

Leave a Reply