نیوایئرنائٹ۔متبادل کیاہے؟

دنیامیں اس وقت دو قسم کے کیلنڈر رائج ہیں،ہجری کیلنڈر اور عیسوی یا گریگورین کیلینڈر، مؤخرالذکر کیلینڈر ہی تمام دنیامیں،بشمول مسلم ممالک عملی طور پر نافذ بھی ہے، اگرچہ مسلمانوں کااصل کیلینڈر عیسوی نہیں بلکہ ہجری کیلینڈر ہے جس کے مطابق نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے اور اختتام ذی الحجہ کے مہینے میں ہوتاہے۔دوسری جانب عیسوی کیلینڈر کے مطابق نئے سال کا آغاز جنوری سے اور سال کا اختتام دسمبر میں ہوتاہے۔اسی کلینڈر کے مطابق سال 2017ء اپنی آخری سانسیں لے رہاہے اور 31دسمبر کی شام کا سورج اپنے ساتھ ساتھ سال کے بھی اختتام کا اعلان کردے گا،اوروہ رات نئے سال کی پہلی رات ہوگی۔ اسی کی مناسبت سے اب تقریباً دنیا کے ہر خطے میں ہیپی نیوایئر کے نام سے نئے سال کے استقبال کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ نیو ایئرنائٹ کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا ۔ برطانیہ کی رائل نیوی کے نوجوانوں کی زندگی کا زیادہ حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا، یہ لوگ سمندروں کے تھکا دینے والے سفر وں سے بے زار ہوجاتے تو جہازوں کے اندر ہی اپنی دل چسپی کا سامان پیدا کرلیتے ، رنگا رنگ تقریبات مناتے، شرابیں پیتے پلاتے ، رقص کرتے اور گرپڑ کر سوجاتے ، اپنی اور بیوی بچوں کی سالگرہیں مناتے، ویک اینڈ مناتے، ایسٹر اور کرسمس کا اہتمام کرتے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے کتے ،بلیوں تک کی سالگرہیں منانے لگتے، انہی تقریبات کاتسلسل تھا کہ ایک سال31دسمبر کو جہاز کا سارا عملہ اکٹھا ہوا ، انھوں نے جہاز کے بال روم کو سجایا، موسیقی اور شراب کا اہتمام کیا، رات دس بجے سب نے خوب شراب پی کررقص کیا اور ٹھیک بارہ بجکر ایک منٹ پر ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دی اور ایک دوسرے کو اپنے ہاتھ سے ایک ایک جام پیش کیا۔ یہ نیو ایئر نائٹ کا باقاعدہ آغاز تھا ۔

اگلے سال ستمبر اور اکتوبر ہی میں نیو ایئر نائٹ کا انتظار شروع ہوگیا ۔ دسمبر آیا تو جونیئر افسروں نے اپنے سینئر افسروں کو درخواست دی کہ ہم ایک طویل عرصے سے اپنے گھروں سے دور ہیں،لہٰذا ہم نیو ایئر نائٹ منانا چاہتے ہیں، مہربانی فرماکر ہمیں صرف ایک رات کے لیے ساحل سے خواتین کو لانے کی اجازت دی جائے ،جن کے ساتھ ہم رقص کرسکیں، اس رات قریب ترین ساحل سے فاحشہ عورتوں کا بندوبست کیاگیا، یہ نیو ایئر نائٹ دوسری راتوں سے اس اعتبار سے اچھی تھی،کہ اس میں شراب کے ساتھ شباب بھی میسر تھا ،تیسرے سال اس تقریب میں بتیاں بجھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا،وہ یوں کہ ایک سپاہی نے جہاز کے الیکٹرک سسٹم کے رکھوالے کو چند پاؤنڈ زدے کر کہا کہ جوں ہی رات کے بارہ بجیں چند سیکنڈ کے لیے بتیاں بجھادینا، جوں ہی رات کے بارہ بجے روشنیاں بجھ گئیں تو فلور پر موجود تمام لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، پھر اچانک روشنیاں جلیں اور روشنیاں گل کرانے والے آفیسر نے مائیک پر تمام لوگوں کو ہیپی نیو ایئر (Happy new year)کہا ، اگلے سال تمام لوگ روشنیاں گل ہونے کا انتظار کرتے رہے اور جوں ہی روشنیاں گل ہوئیں، تمام لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور یوں کئی سالوں میں جاکربے حیائی کے اس تہوار کی تکمیل ہوگئی۔پھرمغرب ویورپ نے اس تہوار کو اپنالیا اور آہستہ آہستہ ان کے شوق غلامی میں مسلم ممالک نے بھی اس تہوا رکو اپنے ہاں مناناشروع کردیا۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ اس “تہوار” میں کوئی خوبی اور بھلائی ابتدا سے نظر نہیں آتی۔ ہمارے ملک میں دین دار اور لبرل وسیکولر طبقات کے درمیان جو نظریاتی خلیج حائل ہے، اس کا شاخسانہ کہیے کہ یہ ایک دوسرے کی ضد میں ہر اس کام کو اختیار کرنااپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، جسے دوسرا طبقہ برا سمجھتا ہو، اس” تہوار” کے معاملے میں بھی دونوں طبقات دو علیحدہ علیحدہ انتہاؤں پر ہیں اور چوں کہ اشرافیہ میں لبرل وسیکولر طبقے کی اکثریت ہے ،اس لیے رفتہ رفتہ اس تہوار کو باقاعدہ سرکاری حیثیت بھی حاصل ہوتی جارہی ہے۔

ماناکہ مسلمانوں کا نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتاہے،یہ بھی تسلیم کہ نئے سال کے آغازکے حوالے سے اسلام کسی قسم کے اہتمام کی روایت سے خالی ہے، یہ بھی درست کہ نئے سال کا سورج ہر شخص کو اس بات کی تنبیہ کرتاہے کہ تمھاری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا، تمھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جو عمل کی مہلت عطا فرمارکھی ہے اس کا ایک سال گھٹ گیا اور تمھاری دنیامیں زندگی کے جتنے سال کاتب تقدیر نے لکھ رکھے تھے ان میں سے ایک سال تمھارے ہاتھ سے نکل گیا، یہ بھی بجاکہ ہمیں اس ایک سال کے کم ہونے اور مہلت عمل کے گھٹ جانے پراور موت کے ایک سال مزید قریب ہونے پراپنامحاسبہ کرنا چاہیے، ڈوبتے سال کو اس جذبے کے ساتھ الوداع کہنا چاہیے کہ ہم ان انفرادی واجتماعی کوتاہیوں کا ان شاء اللہ اگلے برس اعادہ نہ کریں گے جو ہم سے اس سال سرزد ہوئیں۔

یہ طرز فکر درست بلکہ سوفیصد درست ہے، عین اسلام ہے،مکمل دینی سوچ کا ترجمان ہے،لیکن اس طرز فکر نے معاشرے کے دوطبقوں کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل کردی ہے۔ ایک طرف ٹھیٹھ دینی سوچ رکھنے والاطبقہ ہے، جس کی اوپر کی سطور میں ترجمانی کی گئی تو دوسری طرف مکمل لبرل و سیکولر سوچ رکھنے والا طبقہ ہے جو مذکورہ بالا سوچ کو دقیانوسیت سے تعبیر کرتاہے، وہ اس بات کاٹھٹھا اڑاتاہے کہ ہمارا نیا سال تو محرم الحرام سے شروع ہوتاہے،کیوں کہ ہمارے ملک میں عملی طور پر اسلامی مہینے رائج ہی نہیں۔ اس قوم کی اکثریت کو اسلامی مہینوں کے درست نام تک نہیں آتے، بس چند مہنیے یاد ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ یہ قوم صفر کو منحوس سمجھتی ہے، اس لیے اسے یاد رہتا ہے کہ کون سا مہینہ صفر کا ہے، محرم کو یہ سوگ اور دکھ کا مہیناسمجھتے ہیں اس لیے انھیں محرم بھی یا درہتاہے، ربیع الاول جشن ولادت کامہیناسمجھا جاتاہے، سووہ بھی یاد ہے اور رمضان میں روزے تراویح جیسی عبادات کی جاتی ہیں ، اس لیے رمضان بھی یاد ہے…باقی اسلامی مہینوں سے کسی کو کوئی سروکار ہی نہیں، تو انھیں کیوں یا درکھا جائے! توایسے میں یہ مؤقف کہ ہم جنوری کونیا سال مانتے ہی نہیں،مضحکہ خیز ہی لگتاہے، اسی بنا پر مفتیان کرام نے بھی اسلامی تاریخ کے استعمال کو فرض کفایہ قراردیتے ہوئے انگریزی تاریخوں کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے اور بالاتفاق دفتری ضروریات کے تحت گریگورین (عیسوی) کیلندڑکااستعمال درست ہے ،تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کاجاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کاقائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔شریعت محمدیہ ۖمیں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرکا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰة کے لیے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں۔ عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔

ہم بات کررہے تھے لبرل اور سیکولرطبقے کی، تو اس کامقتدا وپیشوا مغرب ویورپ ہے، اقبال نے مغرب کی جس تقلید کو غلامی کہاتھا یہ طبقہ اس میں فخر محسوس کرتاہے،کھوج کھوج کر وہ دن یہا ں منائے جاتے ہیں جو مغرب مناتاہے ان کے پس منظر سے قطع نظر،کہ غلام کے لیے یہی سب سے بڑافخر ہے کہ وہ آقاکی تقلید کرے،اسے اس سے کیا لینا دیناکہ آقا یہ کام کیوں کرتاہے! تقلید مغرب ویورپ میں دیوانگی کا یہ عالم ہے کہ ہم نے مدر ڈے، ارتھ ڈے، ٹیچرز ڈے ہی میں نہیں ویلنٹائن ڈے،بلیک فرائیڈے اور نیوایئر نائٹ جیسی خرافات سے بھرپور پروگراموں میں بھی ان کی قدم بہ قدم اور پہلوبہ پہلوتقلید کی ہے۔ اس کی خبر مخبر صادق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی تھی کہ تم گزشتہ اقوام وامم کی بالشت بالشت یوں تقلید کروگے جس طر ح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتاہے۔

میڈیانیوایئر نائٹ منانے کے حوالے سے جو خبریں دے رہاہے، ان کاایک سرسری جائزہ لیجیے تو کہیں سے بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کسی اسلامی ملک کی خبریں ہیں…شرابوں کی قیمتوں اور مانگ میں اضافہ، فارم ہاؤسز اور نائٹ کلبز میں ایڈوانس بکنگز، ڈانسر اور خوب رو لڑکیوں اور ماڈلز کا ریٹ بڑھادینا، ساحل سمندر پر نہانے پر عاید پابندی سے بچنے کے لیے پھرتیاں،این جی اوز کی جانب سے مخلوط پارٹیز کے انعقاد کی تیاریاں، اہل ثروت افراد کے ہاں ڈانس اور مجر ا پارٹیز کی گہما گہمی اور ابھی سے کارڈز کی تقسیم… ایمان داری سے بتلائیے، کیا یہ ایک اسلامی ملک کے باسیوں کے کام لگتے ہیں؟ کیا یہ چونچلے اس قوم کو زیب دیتے ہیں جس کے ابھی پیدا ہونے والے بچے کا بال بال بھی قرض میں جکڑا ہواہے، جہاں مائیں بھوک کی وجہ سے اپنے جگر گوشوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہیں اور باپ اولاد کے گلے میں “برائے فروخت” کا بورڈ سجائے سربازار گاہکوں کا منتظر ہے کہ جہاں بھی جائیں گے ،جو بھی خریدے گا وہ دو وقت کی روٹی تو دے گاجس سے ان کے پیٹ کی آگ بجھ جائے گی اور قیمت میں جورقم ملے گی اس سے یہ بدنصیب باپ اپنا، اپنی بیوی اور شیرخوار بچوں کے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنے کا کچھ سامان کرے گا۔ جس قوم کے بچوں کی غالب اکثریت تعلیمی اخراجات کا تحمل نہ ہونے کی وجہ سے اسکولوں سے دور مزدوری کرنے پر مجبور ہے، وہاں نیوائر کے نام پر پیسے کا یوں بے دریغ ضیاع،کیا اس قوم کوزیب دیتاہے؟

اسلامی تعلیمات کیا ہیں اور اسلام کس طرح نئے سال کے استقبال کی تیاری کا حکم دیتاہے،اس بحث میں پڑے بغیر معزز والدین اپنے ضمیر سے یہ سوال تو کرلیں کہ کیا ان کی بیٹیاں اور بیٹے جس مادر پدر آزاد کلچر کا نیوایئر نائٹ کے نام پر حصہ بننے جارہے ہیں، کیا ان کی غیرت اسے گوار اکرتی ہے؟ کیا وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی نازوں سے پلی بیٹیوں پر جنسی بھیڑیوں کی ہوس ناک شہوت انگیز نگاہیں پڑیں؟ ان کی حوا کی بیٹیاں غیر مردوں کے ساتھ ناچیں، گائیں، تھرکیں؟ نہیں اوریقیناً نہیں،تو پھر اپنا کردار ادا کیجیے۔ رہنے دیجیے واعظ خشک کو، مگر غیرت کا یوں جنازہ تو نہ نکلنے دیجیے۔ ایک طرف رکھیے دینی تعلیمات کو ، لیکن عزت کو یوں نیلام تو نہ ہونے دیجیے۔ ٹھیک ہے آپ نئے سال کا استقبال کرنا چاہتے ہیں، نئے سورج کو خوش آمدید کہنااور ڈوبتے سورج کو الوداع کہنا چاہتے ہیں تو ایسا شوق سے کیجیے،سو جان سے کیجیے، لیکن حیا،غیرت اور عزت کی نیلامی اس کی قیمت ہر گز نہیں ہے۔ آپ اس رات اچھا کھانا پکائیے، دوست احباب کی گھر پر دعوت کیجیے، بچوں کوان کی صلاحیتوں کے مظاہرے کا موقع دینے کے لیے گھر پر چھوٹا موٹا پروگرام ترتیب دیجیے، حاضرین سے گزشتہ سال کی تلخیوں اور کمی کوتاہیوں پرمعافی مانگ لیجیے اور نیا سال اچھے طریقے سے گزارنے کا عہد کیجیے…اسلام اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، بلکہ نیوایئر کے نام سے مغرب ویورپ سے درآمد کی جانے والی خرافات سے نوجوان نسل کو بچانے کا یہ ایک اچھا حل بھی ہے۔

ناجائزناجائز،غلط غلط،گناہ گناہ کی تسبیح پڑھنے والے زمانے کے تقاضوں سے بے خبر واعظان خشک کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ معاشر ے کاچلن بدل چکاہے،نئی نسل صرف فتوے سے کسی کام کو چھوڑنے پر ہرگز تیار نہیں ہوتی،آپ کو ان کے ساتھ گھل مل جاناچاہیے۔ ان کی نفسیات کے مطابق ان کی راہ نمائی کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھی خود کو خلائی وآسمانی مخلوق سمجھنا چھوڑدیں۔ہر غیر شر عی رسم کا بہترین نعم البدل شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اگر فراہم کردیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ نوجوان نسل مغرب و یورپ کی اندھی تقلید کے حصار سے باہر نہ نکلے۔ اس کے لیے اہل علم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،اس موضوع پر سوچناہوگا،سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لانی ہوں گی، اگر اس ایک نکتے کوکہ،شریعت میں ہر اس رسم کی گنجائش ہے جس کی صراحتاًممانعت نہ کی گئی ہو،راہ نما بنا کر اگر قوم کے علما،مفتیان کرام و دانش اور اپنے اپنے دائرے میں محنت کریں تو ان شاء اللہ ہم قو م کو مغرب کی بے دام کی غلامی سے چھڑانے میں ضرور کام یاب ہوسکتے ہیں۔کیاہے کوئی جو کان دھرے!!

Advertisements
julia rana solicitors london

مصنف جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی میں ریسرچ سکالر ہیں

Facebook Comments

محمدجہان یعقوب
ایک دینی ادارے میں شعبہ صحافت وتفسیرکی نگرانی اور ایک تفسیر کی تالیف میں مصروف،ایک ہفت روزہ کی ادارتی ذمے داری اس پر مستزاد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نیوایئرنائٹ۔متبادل کیاہے؟

  1. اس سلسلے میں میری تجویزیہ ہے کہ مدارس دینیہ اپنے تعلیمی سال کاآغازیکم محرم سے کرے اورذی الحج میں اختتام کرے۔۔۔عوام الناس کوختم بخاری میں شرکت کرکے نئے آنے والے سال کے لیے نیک ارادوں اوردعاؤں کے مانگنے کاموقع بھی ہاتھ آجائے گا۔رمضان المبارک میں طالب علموں کواگرچہ دو رہ تفسیر کاموقع ملتاہے لیکن اسلامی ممالک میں اس قبیح رسم کے پھیلنے کی بیخ کنی کے لیے یہ قدم اٹھاناناگزیرہے۔

Leave a Reply