میں تو چلی چین/شہرِ ممنوعہ کے عشق کی پہلی کہانی (قسط14) -سلمیٰ اعوان

فاربڈن سٹی Forbidden city تو پروگرام میں کہیں آگے جاکر شامل تھا۔ مگر سچی بات تو یہی تھی کہ یہ سویلین گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی عورت اب اپنی خودمختاری کے راستے ڈھونڈنا شروع ہوگئی تھی۔فوجی کے سارے کاغذی منصوبوں اور پروگراموں کا تیاپانچہ کرنے پر تلی بیٹھی تھی۔

یہ شہر ممنوعہ بھی کیا ہوگا ؟پہلی بار جب اِسے سُنا تو محسوس ہوا کہ نام میں بڑی سنسنی سی ہے۔جب پڑھا تو محسوس ہوا جیسے کوئی انگلی اُٹھا کر تنبیہ کررہا ہو۔‘‘خبردار ذرا بچنا۔’’ کاغذ پر جب جب نظریں دوڑتیں ترکی کا شہرہ آفاق ڈرامہ عشق ممنوعہ یادوں میں آدوڑتا۔یاد ہے سارا پاکستان اس کے پیچھے پاگل ہوگیا تھا۔
یہ شہر ممنوعہ بھی مجھے کچھ ایسی ہی شے نظرآتی تھی۔جسے چپکے سے دیکھنے کی تمنا بار بار میرے دل میں اُبھرتی تھی۔بیٹی داماد کے بغیر۔کیسے؟اکیلے بسوں میں نئے رنگ رنگیلے تجربات کے ساتھ رُلتے کُھلتے ہوئے۔
مگر ہائے مجبوری، وائے مجبوری۔سدا کی آپ پھدری جدھر جی چاہا منہ اُٹھا کر چل دی۔یہاں بھی رہ رہ کر ہڑک سی اُٹھتی تھی۔پر بیٹی تھی کہ سونے کے نوالے کھلارہی تھی اور شیر جیسی  اکھیاں گاڑے ہوئے تھی۔پھر بھی چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے والی بات تو خون میں شکر کی طرح گھلی پڑی تھی۔

بیٹی جب سودا سلف لینے کے لیے نکلی تو پیچھے خود بھی چل پڑی۔سوچا یوں جی ہی جی میں کڑھنے سے فائدہ؟ہمتِ مرداں مددِ خدا پر تکیہ تو کروں۔آٹھ دس فرلانگ مشرق ، مغرب، شمال، جنوب سے آنکھوں ہی آنکھوں میں آتے جاتے دوستی یاری گانٹھ چکی تھی۔
اُف سارا جوش و خروش موت کی   جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ایک کمبخت سفارتی حساس علاقہ، اوپر سے آسمان کو ہاتھ لگاتی عمارتوں کا جنگل،اسپر ستم ویرانی اور سناٹا۔ہاں ایک ستم اور بھی بڑھاپے کا جہاں دل کچھ کچھ نہیں خاصا کمزور ہوگیا تھا۔ جوانی ہوتی تو میں نے اِن سب کو کیا خاطر میں لانا تھا۔

دھوپ بہت میٹھی سی حدت والی تھی۔آسمان بھی بڑا نکھرا نکھرا سا تھا۔ درختوں پر بھی چھدری چھدری سی ہریالی اور شگوفوں کی ماڑی موٹی بہار رقصاں تھی۔

چلتے ہوئے میں نے عراق کا سفارت خانہ دیکھا۔ہائے افسوس سا ہُوا۔عراق پہ لکھی ہوئی کتاب ‘‘عراق اشک بار ہیں ہم’’ہی لے آتی۔وہ تو ایک طرح داخلہ ٹکٹ تھا میرے پاس۔مصری سفیر عامر مگدی کی طرح کہ ــ‘‘مصر میرا خواب’’کیا اُسے بھیجی کہ اپنے قومی دن پر مصری سفارت خانے اسلام آباد میں اُس کی تقریب رونمائی پر ہی تُل گیا۔بہت سے غیر ملکی سفراء کی موجودگی میں اِس عاجز نمانی کو عزت دے کر ہی ٹلا۔یہاں بھی شاید اندر ہی بلا لیتے۔تھوڑی سی گپ شپ ہی ہوجاتی۔

سامنے سڑک تھی اور دھواں دھار ٹریفک جاری شاں شاں کرتی خوف زدہ کرتی تھی۔کان سائیں سائیں کرنے اور آنکھیں پتھرانے لگی تھیں۔کتنی دیر کھڑی سوچتی رہی۔پھر خود سے کہا۔
یہ پنگے بازی قطعی کوئی نتیجہ خیز نہ ہوگی سوائے لا حاصل قسم کی دردسری کے۔اوپر سے بیٹی کی پریشانی کہ ماں کہاں دفع ہوگئی ہے؟محبت سے بھری اکلوتی بیٹی اور اگر یہ بھی کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ گوڑی سہیلی ۔اس کے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔اپنے میاں سے ایک دن چونچیں لڑانے کے بعد دل شکستہ سی چھت پر نم آنکھوں اور دل گرفتہ سی صورت لیے بیٹھی تھی۔جب سامنے والی چھت پر مہربان سی ہمسائی کا چہرہ کسی صحرا میں نخلستان کی طرح نمودار ہوا۔حال احوال پوچھا تو جان گئی۔میٹھی سی مسکراہٹ لبوں پر بکھیر کر بولی۔
‘‘گھبراؤ نہیں بس تھوڑا سا وقت ہے ۔بیٹی بڑی ہوجائے گی تو تمہاری سہیلی بن جائے گی۔ ایسی پیاری گوڑی سہیلی جس سے تم دل کی ہر بات کرسکوگی۔’’
اور واقعی ایسا ہی تو تھا ۔سوچا کاہے کو اُسے ٹینشن دوں۔لوٹ آئی تھی کہانی والے بدھو کی طرح۔
پر شام میں عمران جب دفتر ی کام کے سلسلے میں اسی طرف جارہا تھا۔میں نے تھین آن من سکوائر اتارنے کو کہا۔ خیال تھا کہ ادھر اُدھر گھومیں پھریں گے۔عمران نے تجویز دی فاربڈن سٹی کو دیکھ لیں۔دراصل اس کی وسعتیں تو اتنی ہیں کہ ایک بار میں اِسے دیکھنا ممکن ہی نہیں۔دوبار میں کہیں یہ قلعہ سر ہوگا۔
اب دو باتوں پر سمجھداری کا ثبوت دیا۔ایک تو اِس تکرار میں نہیں پڑی۔
‘‘ارے میاں مجھے اِس قلعے کو سرکرکے کون سا تمغہ جیتنا ہے۔ایک بار میں جتنا دیکھا جائے گا دیکھ لیں گے بس۔’’
دوسرے مزاج کے برعکس سعادت مند اولاد کی طرح ہر گز یہ بڑھک مارنے کی چھوٹی سی کوشش بھی نہ کی کہ نکلی تو تھی آج وہاں جانے کے لیے ۔پر لوٹ آئی تم لوگوں کی پریشانی کا خیال کرکے۔
تو سوچا کہ کیا ہرج ہے؟گو شام ہے۔بڑے آئٹم کے اندر گھسنے کا وقت نہیں تو نکّی نکّی چیزیں بھی بے شمار ہیں۔ان کی تفصیلات کے لیے بھی دسیوں بار جاؤ تب بھی کم ہے۔تو بس کوٹ پہنا۔ہونٹوں کورنگا اور چل پڑے۔

شام کے خوبصورت لمحوں میں تیز ہواؤں کے جھلاروں میں آنکھوں کی پتلیاں کِسی مضطرب و بے قرار پرندے کی طرح تھین آن من سکوائر کی وسعتوں میں دائیں بائیں متحرک کیا ہوئیں کہ دفعتاً ایک منظر برق کی طرح ان سے آٹکرایا ۔بڑا منفرد بڑا رومانی سا۔ گہرے سرخ اور پیلے رنگ میں ڈوبا تین یا دو چھجّے دار چھتو ں میں لپٹا۔
دونوں رنگوں نے بواکی ڈولی اور اس کا عروسی جوڑا یاد دلا دیا تھا۔ پیراشوٹ کی کلیوں کا سرخ جوڑا اور پیلے رنگی کپڑے کی ڈولی اور بوا کے ساتھ جڑی بیٹھی کہاروں کے کندھوں پر چڑھی ہلکوروں میں جُھومتی جھامتی اور اِن دونوں رنگوں کے دلکش عکس میں بوا کے چمک دار چہرے کو حیرتوں سے تکتی ایک چھوٹی سی لڑکی جس کی بچپنے کی آنکھوں میں یہ منظر جیسے جم سا گیا تھا۔آنے والی زندگی میں ہمیشہ اِن دو رنگوں کی یکجائی اس منظر کو گھسیٹ کر سامنے لے آتی تھی۔ تھین ان من سکوائر میں یہی تو ہوا تھا۔پہلی ملاقات میں ایسا کچھ نہ تھا۔شاید نظر طائرانہ سی تھی۔
پوچھنے پر سعدیہ نے کہا تھا۔
یہی تو ہے۔‘‘فاربڈن سٹی’’اس کا ایک داخلی دروازہ اس طرف سے بھی ہے۔اِسے گیٹ اف ہیونلی پیس Heavenly Peace کہتے ہیں۔یہ قدیم چینی بادشاہوں کی محل باڑیاں ہیں۔’’
‘‘اوہو یہ تو بالکل اس کے گوانڈ میں ہے۔چلو بھئی اسی کے پاس چلتے ہیں۔’’

نظریں کسی حریص کی طرح کچھ سمیٹنے کچھ چھیننے کے چکر میں وہاں جم سی گئیں۔عمارت کے ماتھے کے عین بیچ میں ماؤ کی بڑی سی تصویری چھتر چھاؤں میں کھلے شگاف نما دروازوں سے لوگوں کا ایک اژدہام اندر داخل ہورہا تھا۔دو ستون اژدھے کے خوفناک منہ کے ساتھ نظر آتے تھے۔دو شیر بھی موجود تھے۔شیر طاقت کی علامت ،اژدہا خوف اور دہشت کی نشانی ۔سچی بات ہے دنیا تو پہلے ہی اِن چینیوں کی برق رفتاری سے ڈری سہمی بیٹھی ہے۔ اب مزید بیچارے سیاحوں کو کیا ڈرانا دھمکانا؟

سوال نے سر اٹھایا تھا۔پر اِس شاہی محل مینار ے کے ماتھے کا یہ ماؤ کیسے جھومر بنا ہوا ہے۔تھین ان من سکوائر میں بہت سی جگہوں پر اس کی پردھانی تو سمجھ میں آتی ہے۔پر یہاں؟
جواب سعدیہ نے دیا تھا۔
یہ تھین ان من سکوائر کا ایک حصّہ ہے۔دراصل اُس نے اِس محل میں کچھ وقت گزارا تھا۔وہ تیراکی کا بہت شیدائی تھا۔ اور یہاں کے سوئنگ پول اُس کی خواہش اور معیار پر پورا اُترتے تھے۔
روسی انقلاب کی طرح چینی انقلاب کے بعد کیمونسٹوں کے ایک بڑے گروہ کا یہاں لوٹ کھسوٹ کرنے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا پروگرام تھا ۔بھلا ہو چواین لائی کا جس نے بہت تدبر اور فراست سے اسے ناکام بنادیا۔

ایک دوسرے بڑے انتظامی کیمونسٹ گروپ نے جب ماؤ کے زیر نگرانی بیجنگ کا چارج لیا تو انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ اِس قیمتی سازو سامان سے سجے شہر کا کیا کریں۔دھیرے دھیرے انہیں سب عقلیں آتی گئیں۔اور اب تو خیر سے وہ بہت سیانے اور ہوشیار ہوگئے ہیں۔آج شہر ممنوعہ اپنی اہمیت کے بل پر اُن کے لیے باعثِ فخر ہے کہ یہ چینیوں اور اُن کی عظیم ،قدیم اور شاندار تاریخ کا نمائندہ ہے۔
ماؤ نے اِس بارے کیا کہا؟اس کے خدشات ،اس کے تحفظات ،اس کے ارشادات اور فرمودات کی آج کے کاروباری چینیوں کی نظر میں بھلا کیااہمیت؟۔یہاں پہلی بار داخل ہونے پر اس نے کیا کہا تھا۔وہ سب انہوں نے سنبھال کر ایک طرف رکھ دیا ہے کہ چھوڑو اِسے مت کھولو۔نہ ہی ہوا لگنے دو۔ بس آج کا یہ سبق یاد رکھنا ہے کہ یہ ہمارا اثاثہ ہے۔ہمیں دنیا میں ممتاز کرنے والا ،پیسے دینے والا۔
یقینا یہی وہ شعوری احساس ذمہ داری تھا کہ جب چین پر جاپان نے حملہ کیا تو چینیوں کو اِن بیش قیمت نوادرات کو محفوظ جگہوں پر منتقل کرنے کی فکر ہوئی۔اور جب بیجنگ پر قبضہ ہوا تو بیچارے جاپانیوں کے ہاتھ صرف کانسی کا ایک آدھ ٹب اور کچھ تو پوں کے ٹکڑے ہی آئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سوال وار پھوٹی۔ پہلا حملہ تو قوم پرستوں نے کیا کہ کوئی 6لاکھ کے قریب نوادرات لے اڑے۔تائیوان کے میوزیم آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔
‘‘اف مولا اتنا رش جتنا بندہ جھوٹ بول لے۔غیر ملکی تو جو تھے سو تھے پر ما شاء اللہ چینی ہی مان نہ تھے۔اب اس شہرِ ممنوعہ کی فصیل کے ساتھ بہتی گدلے سے پانیوں میں نہر کو دیکھتے ہوئے بہت سی لایعنی باتیں آگے پیچھے دوڑتی چلی آرہی ہیں۔
میں اور سعدیہ لوگوں کو دیکھتے ،ان پر تبصرے کرتے،گپیں لگاتے،ڈرائی فروٹ سے ہاتھ منہ چلاتے شام کے بھریے میلے سے لطف و انبساط کشید کررہے تھے۔

اِدھر اُدھر گھومنے اور جائزہ لینے سے ایک سمت برج اور بلندوبالا شاندار قسم کے دروازے اور فصیل کی بلندی بارے احساس ہوا کہ اِن کی دیواروں کی قامت اتنی پُرشکوہ نہیں جتنی ہمارے ہاں تاریخی عمارات کی نظر آتی ہیں۔بس چینیوں جیسی ہی ہے۔یوں آج کی نئی نسل خاصی بلند قامت دکھتی ہے۔یقینا اُنہیں دوائیں کھلا کھلا کر لمبا کردیا ہے۔

ہم نے نہر کے پانیوں پر بھی باتیں کرلیں۔کچھ بادشاہوں کے تکبرو نخوت سے بھرے رویے ،گالیوں اور لعن طعن کی سان پر چڑھا لیے۔تب بھی عمران واپس نہیں آیا۔اب پریشانی شروع ہوگئی ۔خدا خیریت رکھے۔موبائل بھی اسی کے پاس تھا۔کوئی ڈھائی تین گھنٹے بعد اس کی صورت نظر آئی تو جان میں جان آئی۔پتہ چلا کہ اُسے پارکنگ نہیں مل رہی تھی۔قریبی Hotongs جانے کی ترغیب عمران نے پیش کی مگر سعدیہ کے ساتھ ساتھ میرا موڈ بھی اس وقت گھر جانے پر مائل تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply