• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہندوستان کی رضیہ بیگم کو پاکستان سے ایک ماں کا سلام۔۔ماجد بھٹی

ہندوستان کی رضیہ بیگم کو پاکستان سے ایک ماں کا سلام۔۔ماجد بھٹی

آج کی شام جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ ہندوستان کی رضیہ بیگم نے لاک ڈاؤن میں پھنسے بیٹے کو لانے کے لیے 1400 کلومیٹر کا   سفر سکوٹی پہ  کرکے تاریخ رقم کر دی، تو حیرت ہوئی  کہ ایک خاتون کا اتنا طویل سفر، اکیلے اور وہ بھی  سکوٹی پہ۔ ایک بار  دوبارہ پڑھا 1400 کلومیٹر ہی لکھا ہوا  تھا۔جہاں تفصیل جاننے کا تجسس پیدا ہوا وہاں ایک بہادر ماں کے لیے داد بھی تھی ،تحسین بھی تھی اور آنکھوں سے آنسو بھی رواں تھے۔ تبھی ماں جی میرے کمرے میں داخل ہوئیں ،تو میں نے ان کو ایک بہادر ماں کی بیٹے کے لیے محبت کا قصہ سنا ڈالا۔ ماں جی تفصیل پڑھ کے خوش ہوئیں ، گھر میں سب کو ہندوستان کی بہادر ماں کا قصہ سنایا گیا،اور مجھے کہا کہ  “رضیہ بیگم کو میرا سلام بھیج دو”۔

آئیے آپ کو بھی تفصیل بتاتے ہیں کہ ایک ماں کیسے جرات و عزم کی علامت بن گئیں۔
یہ واقعہ حیدر آباد انڈیا کے قصبے بودھن کا ہے ،جہاں رضیہ بیگم ایک سکول ٹیچر ہیں۔ان کا بیٹا محمد نظام الدین بارہویں جماعت کے امتحان سے فراغت کے بعد دوست سے ملنے آندھراپردیش ضلع نیلور کے رحمت آبادگیا۔ بس پھر کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں وہیں پھنس کر رہ گیا۔

رضیہ بیگم نے بیٹے کو واپس لانے کا پروگرام طے کیا اور اپنی  سکوٹی پہ نکل کھڑی ہوئیں۔ اور 700 کلومیٹر دور اپنے بیٹے کے پاس پہنچ گئیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سب کیسے ممکن ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے جب بیٹے کو لانے کا عزم کر لیا تو سب سے پہلے اسسٹنٹ کمشنر وی جے پال ریڈی سے ملاقات کی ،انہوں نے مجھے سفر کرنے کا اجازت نامہ دیا اور 6 اپریل کی صبح رحمت آباد کے لیے نکل کھڑی ہوئی، حالانکہ میں اس سے قبل  سکوٹی پہ کبھی حیدرآباد سے باہر نہیں گئی تھی۔ راستے میں پولیس والے جہاں روکتے میں اے سی پی کا دیا ہوا اجازت نامہ دکھا دیتی ،اور یوں پولیس سے مجھے آگے کا سفر کرنے کی اجازت مل جاتی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ راستے دیکھے نہ تھے پھر کیسے چلتی چلی گئیں؟ تو رضیہ بیگم نے کہا کہ یہ راہنمائی میں نے گوگل میپ سے لی اور کچھ مقامی لوگوں سے راستے کی آگاہی حاصل کرتی گئی  ۔ میں کچھ دیر آرام کی غرض سے چیک پوسٹ پہ ٹھہرتی اور پھر اپنے سفر پہ نکل جاتی۔

رضیہ بیگم 7 اپریل  کی شام   بیٹے کے ساتھ رحمت آباد سے حیدر آباد کے لیے واپس روانہ ہوئیں اور اگلی صبح گھر پہنچ گئیں۔

ماں کی ممتا بھی کیا جذبہ ہے،ماں اپنی اولاد کے لیے آندھیوں، طوفانوں سے بھی ٹکر لے لیتی ہے، اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی جان پہ کھیل جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اکتوبر 2019 میں پیش آیا جب اٹلی سے تیونس آنے والے تارکین وطن کی کشتی بحیرہ روم میں ڈوب گئی تھی۔ جب 60 میٹر گہرائی سے غوطہ خوروں نے ڈوبی کشتی کا ملبہ نکالا تو کیا منظر تھا کہ جس نے سمندر کی تہہ میں غوطہ خوروں کو رُلا دیا تھا۔ ایک ماں اور بیٹے کی لاش تھی، ماں نے شیر خوار بچے کو سینے سے چمٹا رکھا تھا۔ دس دن بعد بھی غوطہ خوروں کو ماں کی آغوش سے بچے کو الگ کرنے میں مشکل ہوئی تھی۔
یہ ماں کی ممتا ہی تھی جس نے کشتی کے ڈوبتے وقت بچے کو مضبوطی سے اپنے ساتھ چمٹا لیا تھا۔ سمندر کی لہریں بھی اس ماں سے بیٹا جدا نہیں کر پائی تھیں۔

ماں کی ممتا ہی کی وجہ سے کائنات کی تمام مخلوقات کی بقاء ہے، ورنہ تو بچوں کو بچپن میں ہی مار دیا جاتا۔ اور مخلوقات شفقت پدری سے محروم رہ جاتیں۔

ایک ڈاکیومنٹری رپورٹ کے مطابق ییلو سٹون نیشنل پارک میں آگ لگ گئی، آگ اتنی تیز تھی کہ آنا ً فاناً سب کچھ راکھ کر گئی۔ ریسرچ ٹیم کو ایک بڑے درخت کے تنے میں ایک چڑیا کی جلی ہوئی باڈی ملی، جب چھڑی سے اس مردہ جلی ہوئی چڑیا کے جسم کو ہٹایا گیا تو اس کے پروں کے نیچے سے چڑیا کے تین زندہ بچے نمودار ہوئے۔

ماں کی ممتا کے ایسے تمام واقعات سے یہی درس ملتا ہے کہ وہ خدائے بزرگ و برتر  کس قدر مخلوقات پہ رحیم و کریم  اور مہربان ہے، جس نے تمام مخلوقات میں ممتا کی محبت ڈال دی ہے۔

حیدرآباد کی رضیہ بیگم  سکول میں ہیڈ مسٹریس ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔رضیہ بیگم کہتی ہیں کہ یہ ایک کٹھن سفر تھا لیکن بیٹے کی محبت اور فکر نے آسان بنا دیا۔اگر آپ پُرعزم ہیں تو پھر آپ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں تو یاد آیا ” ہندوستان کی ایک ماں کو پاکستان سے ایک ماں کا سلام پہنچے”۔

Facebook Comments

ماجد حلیم
ماجد حلیم شعبہ: تعلیم تعلیم: ایم فل اسلامک اسٹڈیز، ایم ایس سی اکنامکس ، کامرس گریجویٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply