درخشاں مستقبل/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

عصر حاضر میں ہر شخص کے گرد فکروں کا ہجوم ہے۔وہ اپنے جسم پر مساموں سے زیادہ دکھوں کے زخم برداشت کرتا ہے۔دکھوں کی بھی الگ سے کیمیاگری ہے۔نہ ان کی کوئی سمت اور نہ کوئی گھر۔ پتہ نہیں یہ کہاں سے سفر کرکے جسم و روح کو اذیت دینے کے لیے آ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کا تعلق بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ہمارے جسم روح کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ تعجب ہے یہ پوچھ کر حملہ نہیں کرتے بلکہ ان کی آمد اچانک و تندی کے ساتھ ہوتی ہے جس کے باعث جسم و روح کو اضافی دکھ سہنا پڑتے ہیں۔ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے۔
وہ دکھ سے بھرا ہے۔ دکھ جسمانی، نفسانی اور ذہنی اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ان سب انواع و اقسام کا درجہ حرارت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ فطری طور پر ان کا آغاز بچپن سے شروع ہو کر بڑھاپے تک جاری رہتا ہے۔ عمر ،جنس، حساسیت اور اثر قبولیت مختلف موقوں اور وقتوں پر فرق فرق نظر آتا ہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ زمانہ ازل سے لے کر آج تک ہر کوئی اپنے مستقبل کا پہاڑا پڑھتا آیا ہے۔
ہر زبان ایک ہی لفظ کی جگالی کرتی نظر آتی ہے۔ وہ ہے مستقبل ،مستقبل ،مستقبل۔اگر ہمیں اس لفظ کی کہانی سمجھنا مقصود ہو تو انسانی نفسیات پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہیں۔اس کی افادیت ، ثمر ، کرشمات اور عالمگیریت بین الاقوامی معمہ بن چکی ہے۔آسان پیرائے میں یوں کہہ لیجئے یہ ایک فطری تحریک کا نام ہے جس نے ہر انسان کو اپنا مستقبل سنوارنے کے بارے میں اکسایا ہے۔
شب و روز ذہن کی پردہ سکرین پر ایک ہی فلم چلتی ہے جس کا نام درخشاں مستقبل ہے۔حیرت ہے اسے بلا ناغہ دیکھنے کے باوجود بھی انسان کا جی نہیں للچاتا بلکہ اس کی بھوک میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
والدین بچپن سے ہی بچے کے ذہن کی زمین زرخیز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اس کی فطرت کے ساتھ روشن مستقبل کے خواب نتھی کر دیے جاتے ہیں۔جو اس کی فطرت کے ساتھ تواتر و تسلسل کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔یہ سلسلہ زندگی بھر دستک دیتا رہتا ہے۔
دنیا کے تعمیر و ترقی دیکھتے ہوئے ہر کوئی اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتا ہے۔وہ زندگی بھر اپنے روشن مستقبل کے لئے صدائے احتجاج رہتا ہے۔انسان ہر قسم کے موسم ، حالات ، ثقافت ، مشکلات ، روایات کے ساتھ سمجھوتا کر کے آگے بڑھنے کی ٹھان لیتا ہے۔
اس کے سامنے زمین کی چار سمتیں ہوتی ہیں۔وہ ہر موسم کو دیکھتا اس کی راہ تکتا اور پھر انتظار کرتا ہے۔وہ سوچتا ہے کسی طرف سے بھی مجھے خوشخبری مل جائے۔وہ اپنے حاصلات و ثمرات کے لیے وجود کی شاخیں پھیلاتا رہتا ہے۔
وہ دعوت عام دیتا ہے کہ کوئی ان پر آ کر بسیرا کرے۔اس کے گھر کی رونق دوبالا ہو۔ تعلقات و روابط کو فروغ ملے۔
وہ اپنی جدوجہد کے بل بوتے اپنا ایک ایک لمحہ قربان کرتا ہے۔شاید وہ اس بات کو نہیں جانتا کہ زندگی میرے ساتھ وفا کرے گی یا سزا دے گی۔ وہ ضممیر کی آواز سنے بغیر اپنی جدوجہد جاری رکھتا ہے۔وہ اپنی ذات پر ہر فیصلہ مسلط کرتا جاتا ہے۔وہ غالب آنے کے لیے ہر آزمائش کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔نہ وہ رات کی تاریکی کو دیکھتا ہے اور نہ دن کے پہروں کی پرواہ کرتا ہے۔اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔پہلا سیدھا اور دوسرا ٹیڑھا۔ سیدھا راستہ مشکلات دکھوں اور آزمائشوں سے بھرا ہوتا ہے۔
جب کہ ٹیڑھا راستہ آسائشوں ، سہولتوں اور عیش و عشرت کی تصویر دکھاتا ہے۔کیونکہ مادیت اور ظاہری شان و شوکت نے انسان کے اندر حرص وہوس کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مالی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ہر وہ نفسیاتی، غیر معیاری اور غیر اخلاقی حربے استعمال کرتا ہے جن کا استعمال اسے روا نہیں۔ بدلتے حالات اور موسموں نے انسانی زندگی کو ایسے ماحول میں داخل کر دیا ہے جہاں دولت انسان کا مذہب اور تعلقات و روابط بوجھ بن چکے ہیں۔ہمارے اندر اخلاقی قدروں کا بانجھ پن پیدا ہو چکا ہے۔ہم سیدھے راستے سے بھٹک چکے ہیں۔ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔حرام کے لقمے ہمیں فرحت دیتے ہیں۔ جسم فروشی اور عریانی زندگی کے نصب العین میں شامل ہو چکی ہے۔ہم چالاک لومڑی کی فطرت رکھتے ہیں اور جب انگوروں تک پہنچنا ناممکن ہو تو کہتے ہیں انگور کھٹے ہیں۔تضاد و تعارض نے ہمیں مقامی ، قومی اور بین الاقوامی سطح پر رسوا کیا ہوا ہے۔ہم شعور و آگاہی رکھتے ہوئے بھی گناہ کی دلدل میں اپنے پاؤں پھنساتے ہیں۔
کیا یہ ہماری لاعلمی ہے یا بربریت کی مثال۔دوسروں کو مثال دینا تو آسان ہے مگر دوسروں کے لیے مثال بننا اتنا ہی مشکل ہے۔ ہمیں ضمیر فروشی سے پہلے اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے۔خدا کی ذات الہی سب کی خالق و مالک ہے۔
اس کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو ہے۔اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔وہ ہم سب کا بڑی ایمانداری کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔
ہمیں بڑے بڑے معاملات سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں اپنے دین و دنیا کے بارے میں باخبر ہونا چاہیے۔
ایمانداری، فرض شناسی،روح پروری، بلند پروازی ، صداقت پسندی اور روحانیت جیسی صفات ہماری زندگی کے منشور میں شامل ہونی چاہیے تاکہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ہماری آخرت سنوارنے میں رہنمائی کریں۔
مستقبل روحانی ہو یا جسمانی ہماری ترجیحات ، ترغیبات اور تراکیب ایمان و عمل کے ساتھ آگے بڑھنی چاہیے۔کیونکہ زندگی مختصر اور خدا کی امانت ہے۔اسے خیانت ، فتوری حسوں ، عجلتوں ،علتوں ، بدعتوں ، لعنتوں اور گناہوں سے بچانا چاہیے۔اپنے کل کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ پل بھر میں کیا ہو جائے گا۔ کیونکہ روزبروز ہماری حادثاتی اور فاصلاتی حدوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ہمارے قلب و ذہن میں درخشاں آخرت کا تصور چراغ کی مانند جلنا چاہیے۔بلاشبہ ہمارا زمینی سفر سات یا آٹھ دہائیوں پر مشتمل ہے۔پھر انسان اس دنیا میں مسافر اور پردیسی ہے۔
یہ اس کا اصلی وطن نہیں ہے بلکہ اس کا اصلی وطن آسمان پر ہے جسے ہم جنت ، فردوس یا بادشاہی کہتے ہیں۔کاش ہم حقیقت پسند بن جائیں۔اپنے قبلے درست کر لیں۔دوسروں پر تنقید کرنا چھوڑ دیں۔اپنی آخرت کی فکر کرلیں۔اپنا زمینی مستقبل اور اپنی آخرت سنوار لیں ۔انسان ارادہ کرلے تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔وقتی تکلیف اور چیلنجز کا سامنا تو سب کو کرنا پڑتا ہے۔لہذا تمام مسائل اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے دلیر بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے لئے ایک ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہم مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں۔زندگی کی خوشیاں بانٹ سکیں۔محبتوں کے چراغ جلا سکیں تاکہ چلتے وقت ہمارے پاؤں کو ٹھیس نہ لگے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply