آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان (قسط سوم) ۔۔ حمزہ ابراہیم

(عرضِ مترجم: یہ مضمون پروفیسر کارولین سايج کی کتاب ”پیٹریاٹک آیت اللہ ز“ کے دوسرے باب کا ترجمہ ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف کی تدوین کردہ کتاب ”النصوص الصادرہ“، طبع ششم، بیروت، سنہ 2015ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

عراق کی خود مختاری کی طرف سفر

نومبر 2003ءمیں سی پی اے نے عراق کی خود مختاری کی طرف حرکت کا منصوبہ پیش کیا۔15 نومبر کو جس معاہدے پر دستخط کئے گئے اس میں ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء (عبوری انتظامی دستور)کا مسودہ بھی شامل تھاجو ایک موقت قانون تھا، اور عراق کے ہر صوبے میں ایک رائے شماری کی تجویز تھی تاکہ عبوری پارلیمان بنائی جائے۔ وہ پارلیمان جون 2004ء کو عبوری حکومت کا سربراہ چنے گی۔ آیت اللہ سیستانی نے تشویش کا اظہار کیا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ معاہدے سے قبضے کے تسلسل کا تاثر ملتا تھا جس کا مطلب اسے جائز ماننا بھی تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عبوری پارلیمان انتخابات کے بجائے رائے شماری سے چنی جانی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے جون میں فتویٰ دے کر انتخابی جمہوریت کی بات تو منوا لی تھی لیکن بریمر اس فتوے میں موجود طریقہ کار پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ [27] آیت اللہ سیستانی نے کئی پیغامات میں بلا واسطہ عام انتخابات کے طریقے پر زور دیا تھا لیکن بریمر سن نہیں رہے تھے، یا یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ جو چاہیں گے کر لیں گے۔اب آیت اللہ کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ رائے شماری سے اس قسم کے افراد چنے جا سکتے ہیں جو ”قوم کے منتخب کردہ بچے “ نہ ہوں۔ انہوں نے اس اصطلاح کے ساتھ ”بیلٹ باکس“ کی اصطلاح پر زور دینا شروع کر دیا تاکہ ریاست کی تشکیل کے عمل میں سابقہ تارکین وطن کے غیر متناسب اثر و رسوخ اور ایک غیر ملکی قابض قوت کے تسلط کو نمایاں کریں۔آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ ”یہ طریقۂ کار ناجائز ہے۔“ [28] [النصوص الصادرہ، صفحہ 53]  مقامی جمہوریت کا بیانیہ ان کا بہترین ہتھیار ثابت ہوا۔ [29]

آیت اللہ سیستانی نے ”ایک فرد، ایک ووٹ“ کے نظام کا مطالبہ کیا جس میں اظہار رائے کا میدان وسیع تر ہو گا جو اس اہم عبوری دور کیلئے ضروری ہے۔ 27 نومبر 2003ء کو آیت اللہ سیستانی نے عوام کے حقِ خود ارادیت کے بارے میں اپنا فتویٰ ایک صحافی انتھونی شدید کو دیا: ”عبوری مقننہ کے ارکان کے چناؤ کا طریقہ ایک ایسی پارلیمان کی تشکیل کو یقینی نہیں بنا سکتا جو عراقی عوام کی صحیح نمائندگی کر سکتی ہو۔“ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ طریقۂ کار کو ”ایک ایسے طریقے سے بدلنا چاہئیے جو اس کو یقینی بنائے، یعنی انتخابات!“ صرف یہی چیز ایک ایسی پارلیمان کے وجود میں آنے کی یقین دہانی کرا سکتی ہے جو ”عراقی عوام کے ارادے کا مظہر ہو گی اور ان کی صحیح انداز میں نمائندگی کر سکتی ہو گی اور اسی طرح اس کی مشروعیت کا بھی تحفظ ہو گا۔“ [30] [النصوص الصادرہ، صفحہ 84]  اسی فتوے میں آیت اللہ سیستانی نے انتخابات میں ووٹرز کے شناختی کارڈ نہ ہونے کی صورت میں ان کے راشن کارڈ کو شناخت کیلئے استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

15 نومبر کے معاہدے پر قائم رہتے ہوئے امریکہ نے کہا کہ ایسے آزاد اور شفاف انتخابات کی تیاری کیلئے وقت کافی نہیں ہے جو 30 جون 2004ء سے پہلے اقتدار ایک عبوری عراقی حکومت کے حوالے کرنے کو ممکن بنا سکیں۔ [31] آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے رائے طلب کی۔ اقوام متحدہ، واحد بیرونی ادارہ جس کی مداخلت کو آیت اللہ سیستانی (بین الاقوامی مقننہ کے طور پر) جائز اور منصفانہ سمجھتے تھے، کو دعوت دے کر انہوں نے تدبر کا مظاہرہ کیا جس نے انہیں دلیل کے محاذ پر پیش قدمی کرنے میں واشنگٹن پر فوقیت دی۔ بریمر کو بھی معلوم تھا کہ عراق میں قومی ریاست بنانے کے عمل میں وہ اقوام متحدہ سے بے نیاز نہ تھے۔ در حقیقت عراق پر حملے کے وقت اقوام متحدہ کی مخالفت کرنے کے باوجود اب امریکہ کو اس عالمی ادارے کی طرف واپس آنا پڑا تھا، جزوی طور پر اس لئے کہ بہت سے ملک عراق میں نئی قومی ریاست بنانے کے عمل میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے بغیر شامل ہونے پر رضامند نہ تھے۔لیکن آیت اللہ سیستانی سی پی اے پر دباؤ ڈال کر یہ بات سامنے لانا چاہتے تھے کہ سی پی اے انتخابات کروانا ہی نہیں چاہتی۔ وہ مسلسل عبوری حکومت کے ناجائز ہونے اور مقامی حمایت سے محروم ہونے جیسی حقیقت کو بیان کرتے رہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان آیت اللہ سیستانی کے نام عراقی گورننگ کونسل کے صدر عدنان پچاچی کے ہاتھوں ایک خط ارسال کر چکے تھے جس میں انہوں نے جلدی انتخابات کروانے کی مخالفت میں مشورہ دیا تھا۔ آیت اللہ کیلئے کسی تحقیقاتی کمیشن بنائے اور معاملے کو پرکھے بنا دئیے گئے  مشورے کی کوئی حیثیت نہ تھی چاہے اسے اقوام متحدہ نے ہی تیار کیا ہو۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر مزید کچھ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ سی پی اے کو مجبوراً اقوام متحدہ کے وفد، جس کی قیادت لاٴخضر براہیمی کر رہے تھے،سے پوچھنا پڑا کہ عبوری حکومت کیلئے جلد انتخابات کے امکان پر اپنی رائے دیں۔ آیت اللہ سیستانی نے نہ صرف امکان کا علمی جائزہ لئے جانے کا مطالبہ کیا بلکہ وفد سے چاہا کہ ”سب پہلوؤں پر تحقیق کریں“ اور عبوری قومی کونسل میں عراقی عوام کی نمائندگی کیلئے”متبادل طریقۂ کار وضع کریں۔“ [32] [النصوص الصادرہ، صفحہ 86]  بریمر کو بھی انتخابات کو 30جون تک ملتوی کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی حمایت درکار تھی۔

بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے کے بعد لاٴخضر براہیمی نے نتیجہ نکالا کہ انتخابات سال 2004ء کے اواخر یا سال 2005ء کے اوائل میں ہی منعقد ہو سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی نے فیصلے کو قبول کر لیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا: ”(اقوام متحدہ کی) رپورٹ نے جامع حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کر دیا ہے جو بلا واسطہ قومی انتخابات پر مبنی ہو گی“ ۔ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ نے 15 نومبر کے معاہدے میں موجود ”اہم نقائص“ کی نشاندہی کی، اور پھر انہوں نے ان نقائص کو ایک ایک کر کے لکھ دیا۔ انہوں نے نتیجہ نکالا کہ اب عبوری حکومت کا کام عارضی قوانین بنانا رہ گیا تھا اور یہ ”غیر منتخب سرکار“ 2005ء کو ختم ہو جائے گی۔ [33] [النصوص الصادرہ، صفحہ 106]  انہوں نے اقوام متحدہ سے اس عمل پر نظارت کی ضمانت حاصل کر لی۔ اس بیان نے اس بات کو بھی یقینی بنا دیا کہ امریکی اقدامات کی بابت اقوام متحدہ کی تشخیص عوام میں نشر ہو جائے۔

تاہم آیت اللہ سیستانی حد سے زیادہ مخالفت نہیں کرتے تھے۔ درحقیقت انہوں نے امریکہ کے ریاست سازی کے منصوبے کو سبوتاژ نہ کر کے ایک اعتبار  سے اسکی مدد بھی کی۔جس وقت انہوں نے اقوام متحدہ کی سفارشات کو منظور کیا، بصرہ میں عوام ان کے جلد انتخابات کروانے کے مطالبے کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ کئی مظاہرین نےبینروں پر ”کلا کلا امریکہ“کے نعرے لکھ رکھے تھے۔ اس اعلان سے پہلے آیت اللہ سیستانی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے امریکیوں سے کہا تھا کہ وہ مجوزہ عبوری حکومت کے خلاف ایک فتویٰ جاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ البتہ امریکہ اپنے منصوبوں کو بدلنے میں تاٴمل کا شکار تھا، اس بات کو اہمیت دئیے بنا کہ جنگ کے آغاز میں آیت اللہ سیستانی کے ہی ایک فتوے نے صدام کی شکست کو تیز تر کیا تھا اور اگر آیت اللہ چاہتے تو امریکہ کی مشکلات میں اضافہ کر سکتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ کمزور عراقی حکومت امریکی مدد کے بغیر کام نہیں کر سکے گی۔ امریکی حملے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے مقلدین کو قانون کی پاسداری، لڑائی اور لوٹ مار سے دوری اور جہادی تنظیموں میں شمولیت سے پرہیز کی نصیحت کی تھی۔ وہ ہمیشہ سماجی ضابطے میں رہ کر کام کرتے تھے۔

8 مارچ 2004ء کو ٹرانزیشنل ایڈمنسٹریٹو لاء (عبوری انتظامی دستور) منظور ہوا جو نئی حکومت کے قیام تک موثر رہا اور مئی 2006ء میں بننے والے مستقل آئین نے اسکی جگہ لی۔اسے صدام کی شکست کی پہلی برسی کے موقع پر عراقی اور امریکی قیادت کی طرف سے ایک بڑی کامیابی گردانا گیا۔ یہ ایک مثالی دستاویز تھی کہ جس میں کلی نکات بیان کئے گئے تھے جو لکھنے والوں کے خیال میں مستقل آئین کے رہنما اصول بنیں گے۔ اس میں جدید ریاست کے بہت سے عناصر ترکیبی تھے، جیسے: حقوق کا بیان، فوج پر عوامی بالا دستی، احتساب کا نظام، وغیرہ۔ اس میں انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کے احترام کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔ اس میں ریاست کی مختلف شاخوں میں اختیارات کی تقسیم اور قانون کی حکومت کی تعریف بیان کی گئی تھی۔ اس میں مفاہمت کا پہلو بھی تھا: عربی کے علاوہ کردی زبان کوبھی رسمی زبان قرار دیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ کرد قومیت کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ کرد جمہوری پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے کہا کہ آئین نے کردوں کو برابر کا شہری ہونے کا احساس دلایا ہے، نہ دوسرے درجے کے شہری ہونے کا، اور اپنے لوگوں کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کردی زبان میں تقریر چھوڑ کر عربی بولنےلگے۔ [34]

اگرچہ آیت اللہ سیستانی عبوری حکومت کو ناجائز کہنے پر مصر تھے لیکن انہوں نے اپنی توجہ عبوری انتظامی دستور کی تفصیلات کی جانب مبذول کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خدشات کی جزئیات بیان کرنے لگے۔ ایک خدشہ یہ تھا کہ ”گروہی مفادات کی مداخلت“ آئینی عمل کی مقبولیت کو کم کر دے گی۔ [35] (بل ان من المؤکدان المصالح الشخصیۃ والفئویۃ و العرقیۃ والحسابات الحزبیۃ والطائفیۃ ستتدخل بصورۃاو باخری فی عملیۃ الاختیار،  و یکون المجلس المشکّل فاقداً للشرعیہ[النصوص الصادرہ، صفحہ 76])  مثال کے طور پر عبوری انتظامی دستور میں صدارتی شوریٰ بنائی گئی جو تین ارکان؛ ایک کرد، ایک سنی عرب اور ایک شیعہ عرب؛ پر مشتمل ہو گی۔ یہ نسلی اور مذہبی اختلاف کو نمایاں کرنے والا ڈھانچہ تھا جو عراق کو فرقہ پرست حکمرانی کی دلدل میں پھنسانے کیلئے کافی تھا۔ آیت اللہ سیستانی نے تنبیہ کی کہ نسلی اور مذہبی گروہ بندی سے چپک جانے سے شوریٰ فیصلے کرنے کے قابل نہ رہے گی اور ”ملک کے اتحاد“ کو نقصان پہنچے گا۔ [36] [النصوص الصادرہ، صفحہ 110]

آیت اللہ سیستانی نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور اس فرقہ وارانہ تقسیمِ اقتدار کے خلاف احتجاج کیا جسے انہوں نے تمام عراقیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا عمل قرار دیا۔ انہوں نے لاٴخضر براہیمی کے نام خط لکھا جس میں ایک ایک کر کے اپنی شکایات بیان کیں۔ اس بار ان کا لہجہ پہلے سے زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے کہا کہ عبوری انتظامی دستور پر بہت سی ”قیود“ عائد کی گئی ہیں اور شقوں کو اس پر ”تھونپا“ گیا ہے جو ”بہت خطرناک“ طرزِ عمل ہے کہ جس کا ازالہ کرنا ہو گا۔صدر کے عہدے پر (تین افراد کی) شوریٰ کو بٹھانا عوام کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ ”رائے عامہ کے بارے کی گئی اندازہ گیری اور دستخطی مہم میں لاکھوں افراد کی شرکت“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن میں یا تو عبوری دستور کو مسترد کیا گیا ہے یا اس میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ بات کہ ”جب تک تینوں ارکان میں اتفاق نہ ہو“، جو کہ اختلاف رائے کی صورت میں بعید تھا، صدارتی شوریٰ کو کوئی قدم اٹھانے کے لائق نہ چھوڑے گی۔تعطل کا لازمہ بیرونی قوت، جیسے امریکہ، کی مداخلت ہو گا۔ آیت اللہ سیستانی نے خبردار کیا کہ نسلی اور مذہبی تفریق پر مبنی نظام مستقبل میں عراق کے ”عدم استحکام، تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے“ کا سبب بنے گا۔ [37] [النصوص الصادرہ، صفحہ 111 تا 113] تاہم انہوں نے عبوری انتظامی دستور کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ بظاہر اس وقت وہ مذاکرات کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے۔

آیت اللہ سیستانی نے بریمر کی اس بات میں خاص طور پر مخالفت کی کہ عراق میں آزاد اور شفاف انتخابات کیلئے 30 جون 2004ء کی ڈیڈ لائن تک مناسب حالات پیدا نہیں ہو سکتے۔ آیت اللہ نے اس کے برعکس کے حق میں دلائل اکٹھے کئے۔ مثال کے طور پر صدارتی شوریٰ کی تجویز کے خلاف اندازہ گیری کا عمل اور عراقی معاشرے میں گردش کرنے والی عرضداشتیں عراقی عوام کے سیاسی بلوغ کا اظہار تھیں۔ یوں آیت اللہ نے ثابت کیا کہ وہ ملکی سیاست کے رجحانات سے باخبر تھے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو عبوری انتظامی دستور کو تسلیم نہیں کرنا چاہئیے اور کہا کہ یہ بات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل تک بھی پہنچائی جائے۔ [38] [النصوص الصادرہ، صفحہ 111 تا 113] اقوام متحدہ میں قرارداد نمبر 1546 کی منظوری سے قبل جون میں ایک اور خط لکھ کر انہوں نے جہاں جنوری 2005ءتک قومی انتخابات اور خودمختاری کی واپسی کے احتمال کو خوش آئند قرار دیا وہیں بڑے واضح الفاظ میں عبوری انتظامی دستور کا ذکر قرارداد میں شامل نہ کئے جانے کا مطالبہ کیا، کیوں کہ یہ ایک عارضی دستاویز تھی جو ”غیر ملکی قبضے کے دوران لکھی گئی“ تھی اور ”(بین الاقوامی) قانون کے خلاف“ تھی اور ”عوام کی اکثریت کی طرف سے مسترد شدہ“ تھی۔ [39] [النصوص الصادرہ، صفحہ 112] فی الواقع قرارداد نمبر 1546 میں عبوری انتظامی دستور کا کوئی ذکر نہ کیا گیا۔

بنیادی طور پر آیت اللہ سیستانی نے عبوری انتظامی دستور کو وقتی طور پر اس لئے مشروع سمجھا تاکہ مملکت کی وحدت کو قائم رکھا جا سکے اور عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے اور حتمی آئین کی تیاری جیسے اہداف کی طرف سفر جاری رکھا جا سکے۔تاہم ابھی کچھ مسائل موجود تھے۔ اس عارضی دستور میں وفاقی طرز کا ڈھانچہ پیش کیا گیا تھا: دراصل یہ عراق کو ایک وفاقی ریاست قرار دیتا تھا جس میں قابلِ ذکر اختیارات صوبوں کو منتقل کئے گئے تھے۔دوسروں کی مخالفت کے باوجود کرد نمائندے عارضی دستور میں یہ شق شامل کرنے میں کامیاب رہے تھے کہ کوئی سے تین صوبے دو تہائی اکثریت سے اگر کسی قانون کی مخالفت کریں تو وہ حتمی آئین کا حصہ نہیں بنے گا۔ چونکہ عراق کے تین صوبوں؛ سلیمانیہ، اربیل اور دہوک؛ میں کرد آبادی کی اکثریت ہے، لہٰذا اس شق نے عملاً کردوں کو حتمی آئین پر ویٹو کی طاقت دے دی، جو قومی انتخابات کے بعد لکھا جانا تھا۔ انہیں اس وقت تک پیشمرگہ (لفظی مطلب: وہ جو موت کے سامنے آتے ہیں) نامی لشکر رکھنے کی بھی اجازت دی گئی جب تک اس کی حیثیت کا تعین نہیں ہو جاتا۔ دوسرے لشکروں، جیسے شیعہ ملیشیاؤں، کی حیثیت کے بارے میں عبوری دستور میں کچھ نہ تھا۔ آیت اللہ سیستانی سبھی لشکروں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے، اور صرف ریاستی عسکری اداروں کو ہی جائز سمجھتے تھے۔ (لسنا مع تشکل مثل هذه المیلیشیات، و تاکیدنا علی دعم القوۃ الوطنیۃ العراقیۃ [النصوص الصادرہ، صفحہ 71]) عبوری دستور میں یہ شق بھی شامل تھی کہ 2005ء کے آغاز میں انتخابات سے پہلے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکے گی۔ [40]

Advertisements
julia rana solicitors london

آیت اللہ سیستانی نے اس معاملے پر ملی نکتہ نظر سے بات کی، جو باقی مسائل پر ان کے موقف سے ہم آہنگ تھی۔ وہ طاقت کی تقسیم اور اس سے مملکت کی وحدت کو لاحق خطرات پر پریشان تھے۔ آیت اللہ سیستانی کی نظر میں ”کردوں“ اور ”سنیوں“ کو آئینی طور پر غیر بنانے سے بھی بڑا خطرہ ملی شیرازہ بکھرنے اور وطن کی تقسیم کا تھا۔ یہ منہج  ان کے عراق محور طرزِ فکر کے ساتھ ہم آہنگ تھی جو وہ 2003ءسے اپنائے ہوئے تھے۔چنانچہ انہوں نے ضبطِ نفس کا شاندار مظاہرہ کیا، اگرچہ کردوں نے نئے سیاسی بندوبست میں اپنے حق سے زیادہ طاقت حاصل کر لی تھی۔ وہ وفاق سے متعلق سوالات پر یا تو غیر جانبدار رہے یا جواب دینے سے پرہیز کیا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”وفاقیت کی اساس اور اسکی موزوں اقسام پر عراقی عوام کی رائے سے فیصلہ ہوگا“ اور ”اس وقت تک کسی تشہیر سے اجتناب برتا جائے گا ۔“ وہ اس عمل پر اثر انداز ہونے سے گریز کر رہے تھے۔ انہوں نے قارئین کو یقین دہانی کرائی کہ جن ماہرین کو کام سونپا جائے گا وہ ”عراق کی وطنی وحدت اور اس کی سب قومی اکائیوں اور نسلی گروہوں کے حقوق کے تحفظ کا بہترین قاعدہ“ ڈھونڈ نکالیں گے۔ [41] [النصوص الصادرہ، صفحہ 100 تا 103] انہوں نے فرقہ واریت کی مخالفت اور ملی وحدت کو ہر ممکن وسعت کے ساتھ بیان کر دیا۔اسی طرح جمہوریت کے بارے میں ان کی گفتگو ہمیشہ سب کو شامل کرنے والی ہوتی تھی اور انہوں نے کبھی کسی گروہ کو براہ راست اپنا مخاطب قرار نہ دیا۔ جب ان پر شیعہ اکثریت کے بارے میں تبصرہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، جو واضح عددی اکثریت کے بل بوتے پر حاکم گروہ بن سکتے تھے، آیت اللہ سیستانی نے سب شیعوں کو ایک جیسا اور باقیوں سے الگ گروہ سمجھنے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کسی امتیاز کے بغیر (شہری کی حیثیت میں)شیعوں کو باقی عراقیوں کے برابر قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ شیعوں کی ضروریات ” باقی عراقی شہریوںجیسی“ تھیں جن میں ”کسی فرقہ وارانہ امتیاز کے بغیر حقوق کا پورا ہونا“ شامل تھا۔ [42] (امّا ما یریدہ الشیعۃ فہو لایختلف عمایریدہ سائر الشعب العراقی[النصوص الصادرہ، صفحہ 45] )انہوں نے کسی قسم کی عسکری تنظیم بنانے کی مخالفت کی، چاہے اس کا مقصد مقدس شہروں کی حفاظت ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے درجنوں فتوے تمام عسکریت پسند گروہوں کو غیر شرعی ہونے پر جاری کئے۔ [43] [النصوص الصادرہ، صفحہ 51] جہاں تک طرزِ حکمرانی کی بات تھی، انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ سب کو مل کر، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اور ملی استقلال کو مد نظر رکھ کر، کرنا ہو گا۔  یہی پلاٹنر صاحب کے نظریۂ جمہوریت کی روح ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply