آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان1973 کے تحت وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں پر فرض ہے کہ تمامTax payersکے ساتھ یکساں سلوک روا رکھاجاۓ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا معاشی پیکج میں وکلاء طبقہ کو سرے سے نظر انداز کرنے پر مجموعی طور پر تمام شعبہ ہاۓ زندگی سے منسلک افراد میں اور خصوصی طور پر وکلاء طبقہ میں شدید غم وغصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔
میں بھی منہ میں زباں رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے۔۔
ہمارے وزراء اور معاشی معاونین نے جہاں تمام شعبوں سے وابستہ لوگوں کے لیےامدادی پیکجز کا اعلان کیاہے،وہاں پر صرف وکلاء کو فراموش کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔کم وبیش 3 لاکھ وکلاء آبادی کے اس ملک میں صرف 20فیصد وکلاء ہیں جو مکمل خود کفیل ہیں اور بقیہ80 فیصد سفید پوش وکلاء کا روزگار روزانہ کے کیسوں کی مرہون منت ہے جو کہ کرونا جیسی عالمی وباکی نظر ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے 80 فیصد وکلاء کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔
روزگار کے غیر یقینی ذرائع،حکومتی سطح پر پینشن اور کسی قسم کی کوئیGratuity کے نہ ہونے کے باوجود تاریخ شاہد ہےکہ تخلیق پاکستان کا مرحلہ ہو یا تاریخ پاکستان کا،آئین کی دشواری ہو یا سسٹم کو بچانے کی ذمہ داری ،جان کی پرواہ کیے بغیر اور پابند سلاسل ہونے کے باوجود
Rule of law
Supremacy of Constitution
اور
Independence of judiciary
کی فضا قائم ہے اور اس کا سہرا وکلا کے سر ہے۔
Legal Practitioners and Bar Council Act,1973کےسیکشن57کے مطابق وفاقی حکومت ،پاکستان بار کونسل کی صورت میں اور صوبائی حکومت پنجاب بار کونسل کی صورت میں وکلاء کی تعداد کو مد نظر رکھتے کوہوۓ فنڈ دینے کی مجاز ہو گی جب کہ حکومت وقت نے اب تک اس پر چپ سادھی ہوئی ہے۔اس ضمن میں ساجد بشیر شیخ ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اور عباس علی چدھڑ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے جو کہNon-Urgent Nature کی وجہ سے ابھی تک فکس نہیں ہو سکی ہے۔اسی سلسلے میں احسن فاروقی ایڈوکیٹ ہائی کورٹ،اسداللہ خان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ،میاں شرجیل ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، فرخ خان لودھی ایڈوکیٹ ہائی کورٹ اور محترمہ زاہدہ صدیق ایڈوکیٹ ہائی کورٹ کی جانب سے پاکستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسل میں درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں اور یہ استدعا کی گئی ہے کہ فی الفور ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جاۓ جو کہ پاکستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسل کے وکلاء کے اعدادو شمار وفاقی اور صوبائی حکومت کو مہیا کرے تاکہ وہ اس غیر معمولی حالات میں مستحق وکلاء کی مالی معاونت کر سکیں۔
اس کے علاوہ اسی ایکٹ کے سیکشن 61 کے تحت پنجاب با رکونسل کی طرف سے وکلاء کے لیے گروپ انشورنس کا اہتمام کیا گیا ہے جس کی رو سے ایک وکیل جو ہر سال30 اپریل تک متعلقہ فنڈ میں اگر 2000 مبلغ دو ہزار روپے جمع کرواتا رہے تو پنجاب بار کونسل اس کی طبعی موت کی صورت میں500000 مبلغ پانچ لاکھ روپے اور حادثاتی موت کی صورت میں1000000 مبلغ دس لاکھ روپے فوت شدہ وکیل کی فیملی کو دینے کا پابند ہوگا گویا یہ ایک مشہور ضرب المثل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زندہ ہاتھی ایک لاکھ کا اور مردہ ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہےجب کہ پنجاب بار کونسل کی نظر میں شاید ایک زندہ وکیل کی قیمت ایک لاکھ بھی نہیں ہے۔
مذکورہ بالا ایکٹ کے سیکشن 62 کے مطابق وکلاء کے لیےBenevolent Fund بھی پنجاب بار کونسل کی ترجیحات میں شامل ہوگا (وہ اور بات موجودہ حالات میں وہ خود اپنی ترجیحات کا مرکز ہیں)
جس کے تحت ہر اس وکیل کی فیملی کو جس کی موت 70سال کی عمر سے پہلے وقوع پزیر ہوتی ہے
پنجاب بار کونسل300000 مبلغ تین لاکھ روپے دے گا جی ہاں آپ بالکل ٹھیک سمجھے کہ دونوں صورتوں میں اگر کوئی مستحق وکیل چاہے کہ پنجاب بار کونسل اس کے خاندان کی مدد کے تو اس کا بہت ہی آسان سا طریقہ ہے کہ آپ مر جائیں۔یعنی کہ ہماری اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کی ہم زندہ شخص کو ایک روٹی تک نہیں دیتے جب کہ اسی شخص کے مرنےپر اس کے ایصال ثواب کے لیے ہم دیگیں چڑھا رہے ہوتے ہیں (چاہے اس کی موت بھوک ہی سے کیوں نہ ہوئی ہو)
اس پر نادم ندیم کا ایک زبردست شعر ہے
ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
پانچ سال میں بس ایک بار جب پنجاب بار کونسل کے الیکشن سر پہ آتے ہیں اوران امیدواروں کو ووٹ درکارہوتے ہیں، صرف تبھی جا کر انہیں عام وکیل کی یاد آتی ہے۔اس لیے پنجاب بار کونسل کو چاہیے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے وکلاء بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑا جاۓ اور جو رقم Group Insurance یا پھر Benevolent Fund کے لیے مختص کی گئی ہے اس میں سے کچھ رقم انہیں ان کی زندگی میں ہی دے جاۓ تاکہ وکلاء بھائیوں کی سفید پوشی کا بھرم رہ جاۓ۔
جب کہ اس کے برعکس لاہور بار ایسو سی ا یشن کی عوام دوست کابینہ(صدر جی اے خان طارق،جنرل سیکرٹری ریحان خان،سینئر نائب صدر رانا نعیم، نائب صدر کرم نظام راں،سیکرٹری سلطان حسن ملک،جوائنٹ سیکرٹری میاں اسامہ اور فنانس سیکرٹری علی عمران بھٹی) نے مجموعی طور پر وکلاء ویلفیئر فنڈ Lawyers welfare fund کا آغاز کیا جس کو تمام عمر کے وکلاء کی طرف سے نہ صرف بھر پور پذیرائی ملی بلکہ مخیر سینئر وکلاء نے اس میں دل کھول کر عطیہ دیاجس سے اب تک کم و بیش 500 وکلاء گھرانوں کو اپنے چولہے جلانے میں مدد ملی اور لاہور بار کی کا بینہ مزید 500 وکلاء کی مدد کر نے کا ارادہ رکھتی ہے۔اللہ اس نیک کام سے جڑے تمام وکلاء بھائیوں کو جزاۓ خیر عطا فرماۓ۔
مذکورہ بالا حالات کی روشنی میں حکومت وقت سےا پیل ہے کہ نظام انصاف کے ادارے کے لیے بہترین لائحہ عمل تیار کیا جاۓ تاکہ سائلین کے قیمتی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ وکلاء کے حقوق کو بھی مزید متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔
خدا سر سبزرکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں