فحص دوری (Periodic Maintenance)۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم جاوید

آج کل ہماری دفتری و نجی زندگی ایسی ہوگئی ہے کہ شب وروز، کمپیوٹر سے ہم نشینی رہتی ہے-اسکے باوجود،میری نسل کے لوگوں کوجدید ٹیکنالوجی سے ایک غیرمحسوس سی اجنبیت اور بیگانگی ہے-لہذا، موبائل یا کمپیوٹر،اٹھکیلیاں کرنے لگے تو اپنے بچوں سے، اسکو درست کرواتے ہیں-(جن پرغالباً آئی ٹی کی وحی نازل ہوتی ہے)-

جب آج کل ہمارا یہ “نالج ” ہے تو بیس برس ادھر کیا حال ہوگا؟

یہ غالباً1995 کی بات ہے-آٹوکیڈ پروگرام، نیا نیا مارکیٹ میں آیا تھا(یا شاید مجھے ان دنوں ہی اس بارے پتہ چلا تھا)-بہرحال، اپنے بھاری بھرکم کمپیوٹر میں انسٹال کروانا تھا(لیپ ٹاپ کا رواج نہیں تھا)مگر پروگرام نہیں انسٹال ہورہا تھا-ایک “ماہر” سے پوچھا تو فرمایا کہ یہ “ہیوی پروگرام ” ہے اور آپکے کمپیوٹر کی “ریم” RAM
کم ہے، لہذا یہ پروگرام یہاں نہیں چلے گا-

کیا کریں؟ اس زمانے میں کمپیوٹر جاننے والے بھی شاذ ہی ہوتے تھے-پورے شہر میں ایک ورکشاپ(لیب) تھی-کہا، کچھ دنوں کیلئے، اسکو بند کرنا ہوگا-ورکشاپ والوں کے پاس لے جاؤ-وہ اس میں مزید “RAM” ڈالیں گے-کچھ اور چھیڑ چھاڑ کریں گے ،اسکے بعد، یہ مزید ہیوی سافٹ ویئر انسٹال کرلے گا-

کمپیوٹر بارے، یہی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد رہ جاتی ہیں-پس 1997 میں آذر بائی جان کے شہر “باکو” میں ایک پاکستانی سٹوڈنٹ نے مجھے کہا”ا گر چہ بطور مسلمان، جنت و جہنم پر میرا عقیدہ ہے-مگر سچی بات یہ ہے کہ میرے لوجک میں یہ باتیں فٹ نہیں بیٹھتی”-

اس سے کہا کہ بھائی، جنت و جہنم کو سمجھنا ، لوجیکلی ممکن ہے مگرچونکہ یہ ہیوی پروگرام ہے اور تمہارے دماغ کی “RAM” اسے اٹھانے سے قاصر ہے-پس یوں کرو کہ کچھ دن کیلئے اپنے دماغ کو بند کرو-پاکستان میں ایک ورکشاپ ہے جسے رائے ونڈ کہتے ہیں-وہاں اسکے ایکسپرٹ بیٹھے ہیں-انکے پاس لے جاؤ،وہ اسکی تاروں میں کچھ چھیڑ چھاڑ کریں گے تو یہ مزید ہیوی سافٹ وئیر بھی انسٹال کرلے گا-پھر جنت و جہنم کی منطقی سمجھ آنے لگے گی-

For All your tax and accounting needs 

http://www.taxchops.ca

سچی بات یہ ہے کہ ہم تو وائرس کو فقط انسانی بیماری کا جراثیم سمجھتے تھے-چنانچہ ،پہلی بار جب سنا کہ کمپیوٹر کو وقتاًفوقتاًفارمیٹ کرواناچاہیے تو حیرانی ہوئی کہ اس میں بھلا کیسے وائرس آسکتا ہے؟

یادش بخیر، بچپن میں اپنے پاس موٹر سائیکل ہواکرتی تھی تو مکینک کہتا تھا کہ ہر ماہ دوماہ بعد، اسکی ٹیوننگ کروا لیا کرو-

پندرہ سال پہلے سعودی عرب میں نئی گاڑی خریدی تو ایجنٹ نے کہا کہ سال بہ سال، اسکا “فحص دوری” کروانا ہوگا-یہ کیا بلا ہے؟ کہا کہ حکومتی چیک اپ ہے کہ گاڑی درست حالت میں ہے یا نہیں؟-کیونکہ آخرکویہ مشین ہے،چلتے چلتے خرابی آہی جاتی ہے-پس جب بھی کوئی نئی گاڑی خریدی،اسکو ہر تین ہزار کلومیٹر چلانے کے بعد، گاڑی کی ورکشاپ لے جاتا ہوں،اور اسکا چیک اپ کرواتا ہوں-

پھر ایک دن ڈاکٹر یونس نے فرمایا کہ آپکی عمر چالیس سے زیادہ ہوگئی ہے تو اپنا Periodic checkup کروا لیا کریں-شوگر، بلڈ پریشر، کولسٹرول وغیرہ تاکہ ایسے خطرناک امراض جو “دل” کو نقصان دیتے ہیں، انکی بروقت نشاندہی ہوسکے-

اس پریاد آیا کہ” دل” کو نقصان دینے والے، دیگر وائرس بھی تو ہوتے ہیں-(خدا نخواستہ” بدعقیدگی” کا کینسر نہ لگ جائے اور بقول غالب” مر کےبھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟” والی بات نہ ہوجائے)-

پس عزیزان مکرم، ایک مقررہ وقفے سے روحانی چیک اپ بھی کروانا ضروری ہے ، اس سے پہلے کہ بے خبری میں روحانی امراض لاعلاج ہوجائیں،چیک اپ اور دوا ءہمارے ذمے ہے-شفا، جسمانی ہو یا روحانی، وہ ہمارے ہاتھ  میں نہیں  ہے-

اگر کسی نے اپنے روحانی چیک اپ کیلئے کوئی” فیملی ڈاکٹر” رکھا ہوا تو اس خوش نصیب کو مبارک ہو- ہمارے جیسے سڑک چھاپ مریضوں کیلئے، کوچہ بہ کوچہ، خدا نے تبلیغی جماعت کے نام سے” مووایبل ہسپتال” شروع کروا دیا ہے جہاں مفت چیک اپ کی سہولت موجود ہے-(بلکہ ابتدائی طبی امداد بھی مل جاتی ہے)-

برسبیل تذکرہ، جیسے الٹرا ساونڈ وغیرہ ٹیسٹ کے دوران، خالی پیٹ رہنا ضروری ہوتا ہے ،ایسے ہی خدا کی راہ میں نکل کر بھی کچھ چیزوں سے پرہیز ضروری ہے-اس میں سب سے اہم چیز ہے موبائل بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں ، سوشل میڈیائی رابطے- ویسے بھی لوگوں نے سوشل میڈیا کو خواہ مخواہ ہی اعصاب پہ سوار کرلیا ہے-حالانکہ فیس بک کی تو  ورچوئل دنیا ہے جبکہ حقیقی زندگی میں بھی آدمی چار دن نظرنہ آئے تو کون پرواہ کرتا ہے؟ آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل-

Advertisements
julia rana solicitors

بات یہ ہے کہ “وائی فائی” کی دنیا میں رہتے ہوئے، صرف کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک پہ ہی وائرس نہیں در آتا بلکہ گاہے، انسانی دل پہ بھی چھا جایا کرتا ہے-پس دونوں مشینوں کو وقفہ وقفہ سے فارمیٹ کرتے رہنے کا اہتمام کرنا چاہیے-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply