ریاضی (16)۔۔وہارا امباکر

ابتدائی شہروں میں تحریر کے علاوہ ایک اور چیز کی ضرورت تھی، وہ ریاضی تھی۔ ابتدائی ریاضی کئی قسم کے مسائل حل کرنے کے لئے تھی۔ پیسے، میٹیرئل اور لیبر کا۔ وزن اور پیمائش کا حساب کرنے کے لئے۔ مفرد اور مرکب سود کیلکولیٹ کرنے کے لئے۔ ایک نہر کی کھدائی کے لئے کتنی مٹی ہٹانی پڑے گی اور کتنی لیبر درکار ہو گی؟ ایک عمارت کے لئے کتنی اینٹیں اور مزدوروں کی ضرورت ہو گی؟ یہ اس ریاضی کے سوال تھے۔

میسوپوٹیمیا کی ریاضی اپنی کامیابی کے باوجود ایک چیز حاصل نہ کر سکی۔ اور وہ ریاضی کی زبان تھی۔ ریاضی کی زبان بول چال کی زبان نہیں۔ علامات اور ان کے تعلق دکھانے کی، مساوات بنانے کی زبان ہے۔ نہ صرف خیالات کا بلکہ خیالات کے ربط اور ریلیشن کا اظہار ہے۔ اور ریاضی کی نوٹیشن یہ کام کرتی ہے۔ اچھی ریاضیاتی زبان ان تعلقات کو پریسائز کرتی ہے اور ذہن کو اس قابل کرتی ہے کہ اس بارے میں ٹھیک سوچ سکے۔ بابل کی ریاضی میں یہ نہیں تھا۔ ان کی ریاضی کی تحریر روزمرہ زبان میں تھیں۔

مثال کے طور پر بابل کی ایک تختی پر لکھا ہے کہ “لمبائی چار ہے اور وتر پانچ۔ اس کی چوڑائی کتنی ہو گی؟ چار ضرب چار سولہ ہوا۔ پانچ ضرب پانچ پچیس۔ پچیس میں سے سولہ گئے تو نو بچا۔ نو تک پہنچنے کے لئے مجھے ضرب کے لئے کیا استعمال کرنا ہو گا؟ تین ضرب تین نو ہے۔ اس لئے چوڑائی تین ہے”۔

الجبرا کے قوانین کو ریاضیاتی زبان کے بغیر انسانی زبان میں کرنا آسان نہیں۔

ریاضی کی زبان سن 500 میں برِصغیر کے کلاسیکل دور کی ایجاد ہے۔ اور ان انڈین ریاضی دانوں کے کام کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے بیس 10 کی گنتی کا سسٹم بنایا اور صفر بھی۔ “صفر کو کسی عدد سے ضرب دینے سے صفر ہوتا ہے۔ صفر کو کسی عدد میں جمع کرنے سے وہ عدد تبدیل نہیں ہوتا”۔ یہ اس دور کا کیا گیا کام ہے۔ منفی اعداد ایجاد ہوئے۔ یہ قرض کا حساب رکھنے کے لئے کیا گیا تھا (اس لئے منفی عدد پسند نہیں کئے جاتے تھے)۔ نامعلوم کی جگہ پر علامات کی ایجاد ہوئی۔ (یورپ میں منفی اعداد پندرہویں صدی میں پہنچے جبکہ = کا سمبل یورپ میں 1557 میں پہلی بار رابرٹ ریکارڈے نے استعمال کیا)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاضی کا تعلق صرف ہندسوں سے نہیں بلکہ شکلوں سے بھی ہے۔ میسوپوٹیمیا اور مصر میں بھی ریاضی کے اس شعبے میں بہت ترقی ہوئی۔ مصر میں زندگی دریائے نیل کے گرد تھی۔ چار ماہ وادی میں سیلاب رہتا تھا۔ یہ زرخیز مٹی بھی لاتا تھا اور پراپرٹی کی حدود کو تہس نہس کر دیتا تھا۔ ہر سال سیلاب کے بعد زمینوں اور کھیتوں کی حدود سرکاری آٖفیشل کو طے کرنی ہوتی تھی۔ ان کا رقبہ معلوم کرنا ہوتا تھا اور اس حساب سے ٹیکس لگانا ہوتا تھا۔ اس اہم کام کے لئے مصریوں نے رقبہ معلوم کرنے کے کئی قابلِ اعتماد طریقے دریافت کئے تھے۔ چوکور، مستطیل، دائرے، بے ڈھنگی شکلیں۔ اس کے علاوہ حجم نکالنے کے طریقے، کیوب، ڈبہ، سلنڈر اور دوسرے شکلوں کے۔

جیومیٹری کا لفظ یہاں سے آیا ہے۔ یونانی میں جیو کا مطلب زمین ہے اور میٹری کا مطلب پیمائش۔ جیومیٹری کا مطلب زمین کی پیمائش تھا۔ یہی اسکا ابتدائی استعمال تھا۔

مصری جیومیٹری میں اتنا ایڈوانسڈ تھے کہ تیرہویں صدی قبلِ مسیح میں مصری انجینیر اہرام میں پچاس فٹ کے شہتیر کو ایک انچ کے پچاسویں حصے تک کی ایکوریسی سے لیول کر لیتے تھے۔ لیکن قدیم مصریوں کی یہ جیومیٹری بھی آج کی ریاضی سے خاصی مختلف تھی۔ اس کا مقصد عملی استعمال تھا نہ کہ دنیا کے بارے میں گہرے سچ ڈھونڈنے کے اوزار کے طور پر۔

اس سے پہلے کہ جیومیٹری فزیکل سائنس کے ڈویلپ ہونے کے بعد کے تقاضے پورے کر سکے، اس کو ابھی عملی سے تھیوریٹیکل دنیا میں آنا تھا۔ اور یہ وہ کام ہے جو یونانیوں نے پانچویں اور چوتھی صدی قبلِ مسیح میں کیا اور یہ کرنے والے سب سے بڑے مفکر اقلیدس تھے۔

حساب کتاب، بہتر الجبرا اور جیومیٹری ۔۔۔ انہوں نے ملکر یہ ممکن بنایا کہ کئی صدیوں بعد ان کی بنیادوں پر سائنس کی تھیوریٹیکل قوانین کو بنایا جا سکے۔ لیکن جب ہم اس دریافت کی زنجیر کی تصویر بناتے ہیں تو ابھی اس کے اجزاء میں ایک بڑا قدم لئے جانا رہتا تھا۔ یہ بھی وہ قدم تھا جو ہمیں اتنا اہم نہیں لگتا۔ فطری قوانین کے بارے میں کسی بھی طرح کی سوچ بچار کرنے اور تھیوری بنانے سے پہلے ابھی ایک اور بڑی ایجاد باقی تھی۔ یہ معاشرتی قوانین کی ایجاد تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply