ملاں طوطی کی ڈکیتی۔۔عزیز خان

یہ 1986 کی بات ہے ٹریفک پولیس سے مجھے سہالہ سپیشل ڈیوٹی کورس کے لیے بھجوا دیا گیا اایس ایس پی فیاض میر بہاولپور میں تعینات تھے چار ماہ سہالہ میں سخت جسمانی ٹرینگ کے بعد واپسی پر میری پوسٹنگ تھانہ سول لائنز کر دی گئی, پہلے کافی عرصہ ٹریفک میں پوسٹنگ پھر سہالہ ٹریننگ کے بعد ضلع کے ایک شہری تھانہ میں تعیناتی میرے لیے بہت مشکل کام تھا صُبح سے شام تک تھانہ پر حاضری اور رات کو گشت بہت تکلیف دہ   تھی مختلف مقدمات کی تفتیشوں  میں مصروفیت اپنے اور فیملی کے لیے بالکل ٹائم نہیں ملتا تھا۔

چوہدری نذیر تھانہ سول لائن کے sho تھےچوہدری صاحب بہت سمجھدار پولیس آفسر تھے تھانہ سول لائنز اُن دنوں موجودہ تھانہ صدر بہاولپور کی عمارت میں ہوتاتھا۔میری تھانہ سول لائن کی پوسٹننگ کو کچھ دن ہی ہوئے تھے میں نے اپنی رہائش بھی ماڈل ٹاؤن بی میں ایک کرایہ کے گھر میں رکھی ہوئی تھی جو تھانہ کی عمارت سے کافی قریب تھا۔

ایک رات تقریباََ 10بجے میں تھانہ پر موجود تھا کہ ایک باریش شخص تھانہ کی عمارت میں داخل ہوا جس کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی جو کافی گھبرایا ہوا تھا جس نے اپنا نام عبدالخالق عرف ملاں طوطی بتایا ۔عبدلخالق نے رپورٹ درج کروائی کہ پاکستان بک کمپنی کے نام سے اس کی شاہی بازار میں دوکان ہے وہ تقریباً ہر بدھ کو اپنی دوکان کا سامان لینے بذریعہ ٹرین لاہور جاتا ہے آج بھی وہ اپنی دوکان کا سامان لینے لاہور جا رہا تھا اُسکی جیب میں پچاس ہزار روپے بھی تھے۔وہ سائیکل رکشہ پر سوار تھا جب وہ ریلوے اسٹیشن روڈ پر اسلامیہ یونیورسٹی نیو کیمپس کے قریب پہنچا تو اچانک ایک سوزوکی کار نے میرے رکشہ کو سائیڈ ماری میں نیچے گر گیا۔میری نظر کا چشمہ بھی اتر گیا کار میں سے چار لڑکے اترے جوکہ مسلح تھے۔ جنھوں نے مجھے اٹھا کر کار کی پچھلی سیٹ پر پھینک دیا۔ چشمہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ان کے چہرے بھی صاف نظر نہیں آرہے تھے رکشہ ڈرائیور کو بھی انہوں نے دھمکی دی جو ڈر کر ایک طرف کھڑا رہا ملزمان مجھے کار میں لے کر مختلف سڑکوں پر گھومتے رہے میری آنکھوں پر بھی رومال باندھ دیا تھا اُنہوں نے میری جیب میں سے پچاس ہزار روپے بھی نکال لیے تقریباًٍ پندرہ بیس منٹ بعد مجھے ایک ویران جگہ پر پھینک کر چلے گئے۔مزید بتایا کہ ان میں سے ایک لڑکا یہ کہہ رہا تھا کہ “ابوبکر آج اسکو زندہ نہیں چھوڑنا جان سے مار دینا ہے”یہ بھی بتایا کہ سوزوکی کار کے پیچھے دونوں سائیڈ پر گھوڑوں کے اسٹیکر لگے ہوئے تھے۔
میں نے فوری طور پر اپنے SHO چوہدری نزیر کو اطلاع دی۔بہاولپور میں اس طرح ڈکیتی کی یہ پہلی واردات تھی جس پر بذریعہ وائرلس کنٹرول پورے ضلع میں ناکہ بندی کروادی گئی۔سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ واردات کون کر سکتا ہے؟

عبد الخالق عرف ملاں طوطی کی درخواست پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔ملزمان کی تلاش شروع کر دی گئی مگر ملزمان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا تفتیش کے دوران عبدالخالق عرف ملاں طوطی نے بتایا کہ ڈاکٹر ابوبکر نامی لڑکا جو کہ میڈیکل کالج میں پڑھتا ہے نے مجھے ایک دفعہ دھمکی دی تھی مجھے شک ہے کہ وہ اس واردات میں نہ ہو ہم نے مدعی کی نشاندہی پر ابو بکر کے گھر ریڈ کیا لیکن وہ گھر پر موجود نہ تھا۔ قائداعظم میڈیکل کالج کے ہوسٹل سے بھی پتہ کیا گیا لیکن وہاں بھی وہ موجود نہ تھا۔اب ہمارے پاس صرف ایک ہی سراغ تھا جس سے واردات ٹریس ہو سکتی تھی۔
اگلے دن ڈاکٹرابوبکر خود پیش ہوگیا جس نے اپنی بے گناہی کا وا ویلہ کیا اور بتایا کہ اس نے ایسی کوئی واردات نہیں  کی ہے۔اسے بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسکا نام کس نے لیا اور اسے پھسانے کی کوشش کیوں کی گئی؟ ڈاکٹرابوبکر کو تھانہ پر بیٹھا لیا گیادیگر مشکوک اور ریکارڈ یافتہ افرادسے بھی پوچھ گچھ کی جاتی رہی۔ لیکن کچھ پتہ نہ چل رہا تھا کہ یہ واردات کس نے کی ہے۔

واردات کو دو دن ہوچکے تھے افسران کا پریشر بھی بہت بڑھ چکا تھا۔SHOبھی پریشان تھا ان دنوں بہاولپور میں سرقہ بالجبر کی واردات اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔تفتیش کے دوران ڈاکٹرابوبکر نے بتایا کہ مدعی مقدمہ نے ایک جوان لڑکی سے شادی کی ہوئی ہے اور اسکی بیوی کا کردار بھی اچھا نہیں  ہے۔ابوبکر نے تفتیش میں مزید بتایا کہ واردات کی شام ایک سوزوکی کار میں فاروق عرف میٹھوخان گزرا تھا جس سے میری کار کے لین دین میں لڑائی بھی ہو چکی ہے۔اس کیساتھ مظہر چنڑ، شہریار اور شاہ زریں بھی تھے۔ہوسکتا ہے یہ واردات انھوں نے کی ہو اور میرانام لے لیا ہو۔

اس اطلاع کی تصدیق کرنا ضروری تھی فوری طور پر SHOنے مجھے اور دستگیر خان ASIکو فاروق میٹھو وغیرہ کی گرفتاری کے لیے روانہ کیا۔ سب سے پہلے ہم نے شہریار کے گھر پر ریڈ کیا جو کہ موجود نہ تھا۔ پھر مظہر چنٹر کے گھر پر ریڈ کیا جو گھر پہ ہمیں مل گیا جس کو لے کر ہم تھانہ پر آگئے۔مظہر چنٹر پہلے تو کچھ نہیں بتا رہا تھا لیکن بعد میں تھوڑی سی سختی کے بعد مظہر چنڑ نے مان لیا کہ یہ واردات اس نے فاروق میٹھو خان وغیرہ کیساتھ مل کے کی ہے۔پوری کہانی سناتے ہوئے مظہر چنٹر نے بتایا کہ ملاں طوطی مدعی بیوی تارا اچھے کردار کی مالک نہ ہے۔ ہمارے دوست عبدالحفیظ کے تعلقات بھی تارا سے ہیں لیکن اب اس کے تعلقا ت کسی اور سے ہو گئے ہیں۔ممتاز کا خاوندہر بدھ اپنی دوکان کا سامان لینے لاہور جایا کرتا تھا تو ملاں کی بیوی ممتاز حفیظ کو اپنے گھر بلا لیا کرتی تھی۔ پچھلے بدھ جب حفیظ اس کے گھر گیا تو کوئی اور شخص وہاں موجود تھا جس پر کافی شور شرابہ ہو ا تارا اور حفیظ کی لڑائی ہوئی محلے والوں نے بھی یہ سارا تماشا  دیکھا یہ خبر جب مدعی مقدمہ ملاں طوطی کو ہوئی تو اس نے اپنی بیوی تارا کو برا بھلا کہا اور مارا۔ تارا نے یہ بات عبدالحفیظ کو بتائی اور کہا کہ میری مار کا بدلہ لےکیوں کہ عبدالحفیظ ہمارا دوست ہے اس لیے ہم نے یہ پروگرام بنایا کہ ملاں طوطی کو سبق سیکھائیں گے اور تارا کو مارنے کا بدلہ لیں گے۔

اس بدھ جب ملاں طوطی لاہور جانے کے لیے گھر سے نکلا تو اس بات کی اطلاع ہمیں تارا نے پہلے کر دی تھی ہم سب دوستوں نے پلان بنایا کے ہم اسے مار پیٹ کریں گے چنانچہ اپنے اسی پلان پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اسکا رکشہ روکا اور اسے اٹھا کہ زدوکوب کیا۔اسی دوران شہریار نے اسکی جیب سے پیسے بھی نکال لیے تھے تاکہ اسے ہم پر شک نہ ہو اور یہ واقعہ ڈکیتی لگے ہمارا مقصد ڈکیتی کرنے کا نہ تھا بلکہ عبدالحفیظ کی دوست تارا سے کی گئی مار پیٹ کا بدلہ لینا مقصود تھا۔مظہر نے مزید بتایا کہ کار جس کے پیچھے گھوڑوں کا اسٹیکر لگا ہوا ہے فاروق عرف میٹھو خان کی ہے اور فاروق نے ہی ڈاکٹر ابوبکر کانام لیا تھا کیوں کے کچھ عرصہ قبل فاروق عرف مٹھو خان کا ڈاکٹر ابوبکر سے کار کے لین دین میں جھگڑا بھی ہوا تھا اُس نے ابوبکر کا نام اس لیے لیا تھا کے ابوبکر کانام لینے سے اگر کوئی بات ہوئی تو ابوبکر پکڑا جائے گا اور ہم سب بچ جائیں گےاس انکشاف پر SHO چوہدری نزیر نے ہمیں دوبارہ فاروق خان عرف میٹھو کی گرفتاری کے لیے بھجوایا فاروق خان کا کھر ماڈل ٹاؤن بی میں ہی تھا -مظہر چنٹر، شہریار، شاہ زریں سب ہی کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔میں اور دستگیر خان Asi فاروق عرف میٹھو کے گھر واقعہ ماڈل ٹاؤن بی بہاولپور پہنچے۔فاروق میٹھو گھر پہ موجود تھا جو مجھے دیکھ کر خود ہی باہر آگیا۔ہمیں لے کر گھر کے پچھلے حصے جہاں کچھ ساز و سامان پڑا ہوا تھا چلا گیا وہاں سے دیوار پر لٹکی جیکٹ کی جیب میں سے پچاس ہزار بھی نکال کے دے دیئے اس کے علاوہ ملاں طوطی کی عینک اور سر کی ٹوپی بھی ہمارے حوالے کی۔پستول کے بارے میں بتایا کے وہ شہریار کے پاس ہے وہی لے گیا تھا اور مظہر چنٹر کی سنائی ہوئی کہانی کی تائیدو تصدیق کی۔سوزوکی Fxکار جس کے پیچھے گھوڑوں کے اسٹیکر لگے ہوئے تھے بھی گھر کے اندر سے برآمد ہوگئی۔

اب ساری کہانی واضح ہو چکی تھی کہ ان دوستوں نے اپنے دوست کی محبوبہ کے شوہر کو مار پیٹ کی تھی مگر مدعی مقدمہ ملاں طوطی بضد تھا کہ تمام ملزمان کو چالان کیا جائے۔
اگلے روز شہریار، عبدالحفیظ اور شاہ زریں بھی پیش ہو گئے۔اس طرح یہ ڈکیتی کی واردات ٹریس ہوگئی۔ اس مقدمہ کی تفتیش کرنے کے بعد جو مجھے بات سمجھ میں آئی کہ والدین کو اپنی اولاد پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ بچے اپنی دی گئی جیب خرچ سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں یا رات کو گھر دیر سے لوٹ رہیں تو ضرور کوئی غلط بات ہو سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فاروق عرف میٹھو خان اور اسکے دوست بھی اچھے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ڈکیتی کے مقدمہ میں چالان ہوئے حالانکہ ان کی نیٹ ڈکیتی کی نہ تھی مگر جوانی کے جوش میں اور اپنے دوست کی دوست میں ان سب نے یہ کام کیا کُچھ دن حوالات اور جیل کی ہوا کھانے کے بعد مدعی مقدمہ سے ان کی صلح ہوگئی اور تمام لڑکے مقدمہ سے بری ہوگئے مگر جس اذیت سے میں نے ان تمام لڑکوں کے والدین اور خاندان کے افراد کو گزرتے دیکھا وہ ناقابل بیان تھی ۔ڈاکٹر ابوبکر ناحق ایک ہفتہ تک تھانہ میں گرفتار رہا اگر واردات کے دوران فاروق عرف میٹھو خان وغیرہ ڈاکٹر ابوبکر کا نام نہ لیتا تو شاید یہ واردات کبھی ٹریس نہ ہوتی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ملزم جتنا بھی ہوشیار ہو موقع واردات پر کوئی ایسا نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے جو اسکی گرفتاری کے لیے کافی ہوتا ہے مگر یہ تو پڑھے لکھے اچھے گھروں کے نوجوان تھے جو بغیر سوچے سمجھے ایک مصیبت میں پھنس گئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply