جسٹس قاضی فائز عیسٰی ۔۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

جسٹس فائز عیسیٰ کہ والد محمد عیسیٰ قائداعظم کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں بطور صدر آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں درج ہے .اپنے خاندان کی لیگیسی کو آگے بڑھانے والے فائز عیسیٰ کے متعلق مجھے برادرم کاشف خان گورمانی ایڈوکیٹ کے توسط سے معلوم ہوا کاشف گورمانی سمیت وکلا کی اکثریت جسٹس فائز عیسیٰ کی عزت و حمایت کرتے ہیں پاکستان جیسے ملک میں جہاں انصاف ٹکے ٹوکری کے بھاؤ نیلام ہوتا ہو جہاں ججز خفیہ ملاقاتوں کے لیے بدنام ہو ں،جہاں ججز کی ڈکٹیشن لیتے ہوئے کالز لیک ہوں جہاں ججز کہیں اور لکھے ہوئے فیصلے پڑھ کر سنائیں وہاں انصاف کی روایات کو شان سے لے کر چلنے والے جسٹس فائز عیسیٰ تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتے ہیں ۔
ماضی میں جب سپریم کورٹ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو فارغ کیا تو بلوچستان ہائیکورٹ ججز سے خالی ہو گیا تب فائز عیسیٰ کو ڈائریکٹ جسٹس کا  عہدہ سنبھالنے کا حکم ملا، فائز عیسیٰ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے والے قاضی کے طور پر سامنے آئے
میں نواز شریف کو کرپٹ سمجھتا ہوں لیکن عدالت میں پیش کیے جانے والے ثبوت ان کا جرم ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہیں بے شک نواز شریف منی ٹریل ثابت نہیں کر سکے مگر تفتیشی ادارے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ان کی کرپشن کے ثبوت اکٹھے نہیں کر سکے چند انٹرویوز چند ویڈیو کلپس ان کو جھوٹا ضرور ثابت کرتے ہیں لیکن یہ ایسے ثبوت ہرگز نہیں کہ اس بنا پر سخت فیصلے سنائے جا سکیں اور یہ بات قانون سے تھوڑی بھی واقفیت رکھنے والا شخص بخوبی سمجھتا ہے ن لیگ ان انٹرویوز اور ویڈیو کلپس کو سیاسی بیانات قرار دیتی ہے بعینہ عمران خان توہین عدالت پینتیس پنکچر سمیت متعدد بیانات و یو ٹرنز کو سیاسی بیانات قرار دے چکے ہیں۔
جہاں تک آفشور کمپنیز کی بات ہے تو پانامہ کے مطابق سب سے زیادہ آفشور کمپنیز رکھنے والا شخص آج تحریک انصاف میں شامل ہے دور کیوں جانا خود عمران خان صاحب بھی آفشور کمپنی کے مالک ہیں
ادھر گزشتہ جنرل الیکشن میں چہیتوں کو مسیحا بنانے اور ن لیگ کو دیوار سے لگانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ن لیگ اک کروڑ سے زائد ووٹ لے چکی ہے اور موجودہ حکومت کی ناکامی سے تحریک انصاف سے مایوس شہریوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے اس ساری صورت حال میں ن لیگ کی قیادت کو زیادہ دیر جیل میں رکھنا عبث ہے آگے چل کر جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنا ہے اگر یہ کیس ان کے سامنے آیا تو انہوں نے دستیاب ثبوتوں اور گواہوں کی بنا پر قانون کے مطابق فیصلے سنانے ہیں نہ کہ کسی کی ایما پر۔
مزید اگر آپ فائز عیسیٰ کے دیے گئے فیصلوں پہ نظر دوڑائیں تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ نے، جو جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تھا، رواں سال فروری میں فیض آباد دھرنا کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا کئی اہم نکات کے علاوہ فیصلے کے آخر میں دی گئی تجاویز میں عدالت نے آرمی چیف، اور بحری و فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا ہے کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی، فیصلے میں آرمی چیف کو ہدایت کی گئی تھی کہ افواج پاکستان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو اپنی آئینی حدود میں رکھا جائے یہ فیصلہ بھی جسٹس فائز عیسیٰ کی بہادری اور اصول پسندی کو ظاہر کرتا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو وہ کس قدر بے باکی سے انصاف فراہم کریں گے۔
ادھر اس فیصلے کے جوابی پیغام میں پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے فیصلے کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے یہ کاروائی کی گئی ہے۔ کہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فیض آباد دھرنے کے شرکاء میں میڈیا کے سامنے ہزار ہزار روپے بانٹنے والے میجر جنرل فیض حمید چشتی کو ترقی دے کر لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا گیا ہے۔
مستقبل میں جسٹس فائز عیسیٰ کی ترقی حکومت و حمایتیوں کے لیے کتنی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے اس بات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں لہذا ان مشکلات سے بچنے کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اس لیے معزز اور بہادر جج جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کی برطرفی کیلئے پنجاب بار کونسل میں بھی قرارداد پاس کی گئی ہے اور حکمراں جماعت تحریک انصاف نے بھی ان کے خلاف درخواست دی تھی ۔ اور اس کے بعد آج وفاقی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا گیا جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اس بابت صدر پاکستان کو خط بھی لکھ دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply