کورنا کے دنوں میں کرنے کے کام۔۔روبینہ فیصل

بالکل ٹھیک ہے۔۔جی بھر کر دعائیں کریں۔نہ ماننے والوں کا یہی اصرار تھا نا کہ تو نظر نہیں آتا، اب تو خدا نظر آرہا ہے، ذرّے ذرّے میں تو اس تشویش کی وجہ سے جتنے بھی سجدے جبینوں میں تڑپ رہے تھے،سب کر دیں۔۔۔خدا کے ننانوے ناموں میں ” قہا ر” فقط ایک ہی نام ہے، مگر قہر کی ایک جھلک ہی کافی ہے اور وہ بھی ایک ذرّے کے ذریعے۔ اس کے قہر سے پناہ مانگ لیں اور خدا سے ناطہ جوڑ لیں۔۔یہ سب کہہ رہے ہیں۔۔ بالکل ٹھیک۔۔مگر بنیادی سوال وہیں کا وہیں کھڑا ہے کہ کیا رب کو واقعی انسان کے صرف سجدوں سے غرض ہے؟ اور جب اسے محسوس ہو اکہ سجدے ذرا کم ہو گئے ہیں تو وہ اپنا قہر برسانے لگا؟

سوچیے! آج کل سوچنے کے لئے بہت وقت ہے۔ جواب آپ کو اپنے اندر سے ہی ملے گا۔۔ رب تو کہتا ہے اس کا گھر انسان کا دل ہے اور وہ اس کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔۔ تو سب لوگ مسجدوں، مندروں، گرجا گھروں اور گردواروں کو خدا کا گھر قرار دے کر صرف اس کی آرائش اور اسے ہی آباد کر نے میں کیوں لگ گئے۔۔بلاشبہ،ہر جگہ کی طرح ان مخصوص قرار دی گئیں مقدس جگہوں پر بھی خدا موجود ہوتاہے مگر انہیں آباد کرنے کے لئے انسانوں کو برباد کر و گے یا صرف انہی کو خدا کی رضا کا ذریعہ سمجھ لو گے تو خدا اپنے ننا نونے ناموں میں سے فقط ایک” قہار” چن لے گا۔۔

حضرت بابا فریدنے کہا تھا اسلام کے پانچ نہیں چھ رکن ہیں،چھٹا روٹی ہے۔ وہ روٹی جو ہر ایک تک پہنچنی چاہیے۔

وبائے کرونا کے یہ دن وہ ہیں جنہوں نے تمام انسانوں کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ پو ری بنی نوع انسان کے مقاصد اور عزائم ایک دن کی روٹی لانے، پکانے اور کھانے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔۔” کل کا دن بھی بھرے پیٹ کے ساتھ گزر جائے،”یہ سوال غریب کا تو تھا ہی آج امیر کا بھی یہی سوال اور فکر ہے۔ہر رات بڑے بڑے سرمایہ داروں کے بڑے بڑے خوابوں کی جگہ پیٹ بھرنے کے لئے ایک غیر یقینی صورتحال والے کسی بھی بھوکے ننگے کے چھوٹے چھوٹے خوابوں نے لے لی ہے۔اگر سب گروسری سٹورز بند ہو جائیں تو کیا ہو گا؟کسان کھیتوں میں اناج، مکئی، چاول اورپھل سبزیاں نہ اگا سکیں توکیاہوگا؟جن پرندوں اور جانوروں کا ہم گوشت کھاتے ہیں، وہ دستیاب نہ ہوں تو کیا ہوگا۔۔۔کل کیا ہو گا؟

اس کا جواب نہ محکمہ موسمیات کے پاس ہے، نہ کسی ملک کے سربراہ کے پاس اور نہ کسی معیشت دان، ڈاکٹر یا سائنسدان کے پاس ہے ،بالکل کسی ان پڑھ، غریب انسان کی طرح۔۔۔ سب یکساں لا علم، بے بس اور ایک جیسے اندیشوں میں گھرے،ایک جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔ یک رنگی۔ایسے میں جب مقابلہ بازی کرنے کے لئے اور کچھ نہیں بچا، نیچا دکھانے والی دوڑ ختم شد ہے تو اندر کے تقویٰ  کا مقابلہ شروع کر دو، اپنی روح کی صفائی شروع کر دو اور اس کے لئے اپنے اندر کے دیمک کو رگڑ رگڑ کر صاف کر ڈالو جن کی ترتیب کچھ یوں ہے:
تکبر اور جھوٹی انا (غور سے دیکھیے گا آپ خود کو عاجز کہتے ہیں مگر سچ بتائیں، خود سے سچ بولیں، کیا آپ ہیں؟ نہیں، آپ کی جھوٹی انا آپ کے قد سے بھی بڑی ہو تی ہے)۔حسد (آپ کہتے یہی ہیں کہ میں کیوں حسد کرنے لگا مگر غور کریں گے تو ایسا نہیں ہے، آپ بہت سوں سے بہت سے مقامات پر ہر وقت حسد کر رہے ہو تے ہیں)،منافقت(اس کی تشخیص سب سے مشکل کام ہے کہ ہم پور پور اس دلدل میں دھنسے ہو ئے ہیں کہ ہمارا معاشرہ،ہماری ٹریننگ سب اسی چھتری کے تلے ہو تی ہے، اس کو اپنے اندر کھوجنا اور اسے تسلیم کرنا اور پھر اس سے جان چھڑانا، کرونا سے جان چھڑانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے،کہ یہ ایک دفعہ داخل ہو جائے تو پھر انسانی دل میں مرنے تک زندہ رہتا ہے)،دھوکہ،(ہماری فطرت کا دوسرا نام ہی جھوٹ اور دھوکہ بن چکا ہے،دوسروں سے تو دور کی بات ہم خود سے جھوٹ بولتے ہیں اور سب سے بڑا دھوکہ ہم خود کو دیتے ہیں حالانکہ خدا کو پانے کا سب سے بہترین اور آسان طریقہ یہ ہے کہ خود سے ایماندار ہو جاؤ)۔ اپنے اندر جھاتی مار کر ان موٹی موٹی برائیوں کو تلاش کریں، گردن سے دبوچیں اور خود سے الگ کر کے کہیں دور پھینک آئیں۔

دوسرا اہم کام جو ہم کر سکتے ہیں،کہ خدا ہم سے خوش ہو جائے، وہ یہ ہے کہ ان لوگوں سے معافی مانگ لیں، جن کاہم نے جانے انجانے میں دل دکھایا ہے اور معافی مانگنے کے لئے لفظ معذرت یا سوری ہی ضروری نہیں بلکہ ایک میسج، ٹیسٹ یا وائس یا فون کال انہیں اس طرح کی کر دیں کہ ان کا حال چال بھی پوچھیں اور اپنا بھی بتائیں۔۔ اور یہی عمل ان لوگوں کے ساتھ بھی کریں جن کے بارے میں آپ کو لگتا ہے کہ انہوں نے آپ کا اعتماد توڑا، یا آپ کا دل دکھایا ہے۔۔انہیں اپنی ایک مسکراہٹ بھرے میسج سے یا کال سے یہ اطمینان دلوادیں کہ آپ کا دل صاف ہے، ایسا کرنے سے بال دوسرے کی کورٹ میں چلی جائے گی۔ آپ نے اپنے رب کو راضی کرنے کی طرف قدم بڑھا دئیے ہیں اب آپ کے گنہگار یا جن کے آپ گنہگار ہیں، اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ آپ کا ستقبال کیسے کرتے ہیں،وہ اگر ابھی تک دلوں پر پتھر باندھے بیٹھے ہیں یا ان کو اس وسیع کائنات میں اپنی بے وقعتی اور بے بسی کا اندازہ نہیں ہوا تو وہ آپ کی محبت، خلوص اور درگزری کے جذبے کو شک اور حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ایسا کر کے وہ آپ کا کوئی نقصان نہیں کریں گے بلکہ روٹھے رب کو منانے کا نادر موقع کھو دیں گے؟

پھر اپنے قلم سے روحانی علاج کے اس نسخے میں ایک اور چیز لکھ لیں کہ اس وقت اپنی روح کے ڈاکٹر بھی آپ خود ہیں اور روٹھے رب کو منانے والے مذہبی سکالر بھی آپ ہی ہیں۔۔ سب فیصلے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔۔

آپ اپنی الماریوں میں ڈھیروں کے حساب سے کپڑوں، زیورات،میک اپ، جوتوں، ٹائیوں اور پرسوں کا حشر تو   دیکھ ہی رہے ہیں بس ہو سکے تو اسی سے فطرت کے وسائل کی مساوی اور منصفایانہ تقسیم پر یقین لے آئیں۔ اس نے وسائل میں نا انصافی نہیں کی بانٹنے والوں نے کی تھی، جتنا ہو سکے انصاف اور عدل کرنے والے خدا کی زمین پر انصاف اور عدل شروع کر دو۔کوئی بھی حکومتی نظام ہو، آپ ضرورت سے زیادہ کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی کوخود پر حرام کر لیں۔

وبا کے دنوں میں کرنے کی ایک اور عملی چیز ہے جتنا بھی ہو سکے، کسی غریب،کسی سفید پو ش، رشتے دار یا اجنبی کی ان کے ہاتھ پھیلانے سے پہلے مالی مدد کریں،اس سے نہ ان کی عزت نفس مجروع ہو گی اور نہ آپ کی انا کے غبارے میں بے جا ہوا بھرے گی، اور خدا خوش ہو گا۔۔ بہت خوش۔وبا کے دن،یہ وہ دن ہیں جب سب انسانوں کا ایک ہی مسئلہ ہے۔۔جھوٹی انا،، جھوٹی عزت، جھوٹے نام، کی بجائے کسی کی بھی خودداری کو مجروع کئے بغیر کسی کی بھی مدد کر سکیں تو ضرور کریں۔۔ مان لیں اور جان لیں کہ اس سے زیادہ عذاب کے دن آپ کی زندگیوں میں پھرکبھی نہیں آئیں گے۔ اور جو لوگ ان دنوں میں خدا کی مخلوق کے لئے آسانیاں اور محبتیں بانٹیں گے وہ وہی ہو نگے جن کے دلوں پر خدا نے مہریں نہیں لگائیں۔ اور جو آج بھی اپنی جھوٹی انا،حسد اور منافقت کے حصار میں خود کو سچا اور دنیا کو جھوٹا کہتے رہیں گے، وہ لاکھ سجدے کریں، لاکھ گڑگڑائیں، ان کے دل کے قفل نہیں کھلیں گے۔اور خدا ان کو خود سے قریب نہیں ہونے دے گا۔

مان لیں! کہ خدا تک پہنچنے کا راستہ صرف اور صرف اس کی بنائی ہوئی مخلوق کے دل سے ہو کر گزرتا ہے۔اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب کی رضا اس کے بچوں کی خوشی میں ہی ہے۔ خدا کو خوش کرنا ہے تو اس کے بچوں کو خوش کرو۔۔ انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا کرو۔ جس بھی طرح کر سکتے ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرنا تو سب نے ہی ہے مگر آج جس طرح موت بازاروں اور گلیوں میں دندناتی پھر رہی ہے،یہ موت کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی لئے پھر رہی ہے۔ وہ سبق ہے انسانیت کا۔۔ جو آج اسے پڑھ گیا اور یاد رکھ گیا وہی خدا کے قرب کو پا گیا۔۔ ایسی آزمائشیں بار بار نہیں آتیں۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply