گدھے۔۔فوزیہ قریشی

دوسری دفعہ کا ذکر ہے, کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں  ۔۔ کسی گئے گزرے زمانے کی بات ہم نہیں کر رہے۔۔۔ ہم تو اسی زمانے کی بات کر رہے ہیں ۔ہاں جی! اسی زمانے کی۔

ایک گدھے کو جنگل سے شیر کی کھال مل جاتی ہے اور وہ اس کو پہن کر جانوروں کو ڈراتا ہے۔ بعد میں خوش ہو کر وہ ڈھینچوں، ڈھینچوں شروع کر دیتا ہے۔ اس کی پہچان ہونے پر جنگل کے جانور اسے مار، مار کر جنگل سے نکال دیتے ہیں۔ مگر گدھا چالاکی سے کھال ساتھ لے آتا ہے اور شہروں میں شیر بن کر رہنا شروع کردیتا ہے۔ شہر والے نقلی گھی کھا کھا کر اصل اور نقل کی پہچان بُھول چکے تھے۔ اس لئے وہ انہیں سچ مُچ کا شیر سمجھ لیتے ہیں ۔ گدھوں سے انسیت کی ایک وجہ ان کا لذیذ گوشت بھی کہہ سکتے ہیں جو ان دو لاتوں والے گدھوں کے دماغوں پر چڑھ چکا تھا کیونکہ بہت سارے شہروں میں یہ دو لاتوں والے شوقین گدھے ۔۔۔ چار لاتوں والے گدھوں کا لذیذ گوشت کھا کھا کر موٹی عقل والے بن چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آسانی سے گد ھے کو شیر مان لیا ۔اس طرح گدھوں کی نسل بڑھتی گئی۔ اب ہر طرف ان کا چرچا تھا ۔۔۔ پھر ان گدھوں نے اپنی سُریلی آواز سے سب کا دل بہلانا شروع کردیا۔۔ لیکن یہ تو ان کی خوش فہمی تھی  جبکہ جنگل کے سبھی جانور ان کی آوازوں سے تنگ تھے۔ کیونکہ ان کی وقت بے وقت کی راگنی نے سب کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ لیکن اب وہ ایسے خطے میں تھے جہاں ان کی قدر کرنے والے چار کے ساتھ ساتھ دو لاتوں والے گدھے بھی پائے جاتے تھے ۔ یہاں انہیں ایک مفید اور خوبصورت جانور سمجھا جاتا تھا۔ ویسے بھی غور کیا جائے تو رنگ رُوپ میں اس کا کوئی ثانی نہیں اور عقل اور سمجھ میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ سب جانوروں کے بچے اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں لیکن گدھا وہ واحد ذہین و فطین جانور ہے جو اپنی ماں سے آگے چلتا ہے۔۔ بلکہ ہر سمت میں جا سکتا ہے ایسے میں کوئی اس بد مست کو قابو نہیں کر سکتا۔ اب تو اِس کی سیاسی بصیرت کے سبھی قائل ہیں لیکن بیچارہ مار کھا گیا تو صرف اپنی آواز سے۔ ۔ ویسے   آوازیں تو آجکل سیاست دانوں کی بھی گدھوں جیسی ہی ہیں لیکن لاتیں چار کی جگہ دو ہیں۔

جلسوں اور اسمبلی کے لاؤڈ سپیکر میں جب یہ دو لاتوں والے حسین و فطین گدھے صَدا لگاتے ہیں تو لگتا ہے کوئی دو لاتوں والا گدھا ڈھیچو ڈھیچو کر رہا ہے۔۔
اوہ یاد آیا آواز تو پاپ سٹار سنگرز کی بھی گدھوں جیسی ہی لگتی ہے۔  وہ الگ بات ہے،آج کی نسل ان کی پھٹی جینز اوردراز گیسوؤں کی دیوانگی میں آواز کو شاید  غور سے نہیں سُن پاتی۔۔
اوہ ہم کہاں سے کہاں نکل گئے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جناب واپس آتے ہیں انہی  حسین و فطین گدھوں کی طرف۔۔
گدھا بہت فصیح البیان جانور ہے اک بار بولنا شروع ہو جائے تو خدا کی پناہ  ۔ پھر اِسے چُپ کروانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ۔۔
پیارے دوستو!
غور کریں تو آپ کے آس پاس بھی گدھے ہی گدھے دن دن بھر  د ناتے پھر رہے ہیں ۔
جن میں سرِ فہرست “سیاسی گدھے” ہیں۔ مزے کی بات ہے سارے ایک ہی پارلیمنٹ میں پائے جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر طرح طرح کی بولیاں سُناتے ہیں ۔۔ بس ایک بار کبھی کان دھر کر سنو تو سہی کہ “یہ کہتے کیا ہیں؟”
کبھی کسی ٹرالے کا ذکر تو کبھی کسی ڈِنکی کا ۔
ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا تو اِن کے دائیں، بائیں ہاتھ اور پاؤں کا کام ہے۔
آواز تو ویسے ہی اِن کی سریلی ہے ۔اِسی سُریلی آواز میں اپنی حکومت کی کارکردگی  کی داستان سنانا بھی ان کا دن رات کا وتیرہ ہے۔۔۔
ان میں سے اکثر گدھے رات بھر کے جاگے ہوتے ہیں ان کو پارلیمنٹ سے بہتر سونے کی جگہ گھر میں بھی میسر نہیں آتی  ۔شاید  یہی وجہ ہے کہ انہیں جہاں جگہ ملتی ہے یہ قیلولہ فرما لیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک  شاہی گدھا آثار قدیمہ اور فرعون سے مماثلت رکھنے کی وجہ سے زبردستی ریٹائرڈ کروایا گیا ۔ ورنہ اس کی وطن سے محبت اسے مزید چند سال اپنی خدمات پارلیمنٹ کے اندر اور باہر انجام دینے کی مہلت دے سکتی تھی لیکن کسی کمبخت نے اس بیچارے کی نہیں سنی۔۔
دوسری قسم مذہبی گدھوں کی ہے۔ جن میں اعلیٰ نسل ” پیر گدھوں” کی سمجھی جاتی ہے۔ جن کا کام معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور پیسے بٹورنا ہے۔
اب آتے ہیں چار لاتوں والے گدھوں کی طرف جن کی بڑھتی مانگ نے لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلز میں ان کے لذیذ گوشت سے بنی کڑاہی، قورمہ، بریانی اور تکوں کی تو بات ہی الگ ہے اور اس کو کھانے کے بعد ٹانگوں میں ایک مخصوص قسم کی طاقت محسوس ہوتی ہے۔۔ جو شاید  کسی وٹامن سے بھی نہیں ملتی۔
غرض کہ  گدھے کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ یہ جنوبی ایشیا کے ایک پاک خطے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ جہاں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply