ادب کسی بھی معاشرے کے انسانوں کے افکار، خیالات، جذبات و احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ادب معاشرے کی تہذیب و ثقافت کا ضامن بھی ہوتا ہے اور اس کا اظہار کبھی تحریری طور پر کیا جاتا ہے تو کبھی زبانی طور پر۔ ادب زندگی کا ایسا ترجمان اور نقاد ہوتا ہے جس کے چمنِ حیات میں خوشنما اور روشن خیال پھول جنم لیتے ہیں جو قارئین و ناظرین کے ذہن و قلب میں وسعت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے افکار و خیالات کو مثبت روشنیوں کی شعاؤں سے روشناس کرتے ہیں۔
اردو ادب کا آغاز چودھویں صدی میں شمالی بھارت سے ہوا۔ اردو ادب کی نثری اصناف میں ناول، افسانہ، داستان، مکتوب نگاری، ڈرامہ نگاری اور سفر نامہ شامل ہیں جبکہ شاعری میں نظم، غزل،مرثیہ، قصیدہ اور رباعی سرفہرست ہیں۔
ڈرامہ ادب کی ایک مقبول اور قدیم صنف ہے۔ ارسطو کے بقول “ڈرامہ انسانی زندگی کی عملی تصویر ہے۔” ایسی کہانی جس کی تکمیل لفظوں کے ساتھ ساتھ مجسم عمل کے ساتھ کی جائے، ڈرامہ کہلاتا ہے۔
ڈرامے کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ مغرب میں یونان کو ڈرامہ نگاری کے فن کا محور کہا جاتا تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی ڈرامہ نگاری کی تاریخ غالباً دو ہزار برس پرانی ہے جبکہ بعض محققین کے مطابق اردو ادب کا پہلا ڈرامہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نشر کیا گیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ڈرامے کی اصل روح میں بھی ترویج ہوتی رہی۔ اردو ڈرامے نے تھیٹر اور ریڈیو سے ٹیلی ویژن تک کا سفر قدرے روانی سے طے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد میڈیا کی ترقی نے عوام پر خوشگوار اثرات مرتب کیے۔ مصنفین طنز و مزاح، گھریلو مسائل، تاریخی و معاشرتی موضوعات اور روحانی و نفسیاتی الجھنوں کو سلجھانے کے لیے اصلاحی اور بامقصد ڈرامے تحریر کرتے ،جس میں ناظرین کے لیے اخلاقی و معاشرتی سبق پنہاں ہوتا۔ پاکستانی ڈراموں نے اس قدر تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں کہ ڈرامہ نشر ہوتے ہی زبانِ زدِ عام ہوتا۔
اگر ہم آج کے موجودہ دور پر نظر ثانی کریں تو آج بھی “پاکستانی ڈرامے” عروج کی منازل تیزی سے طے کررہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ڈرامہ نشر کرنے کے لیے ایک دو نہیں بلکہ دس کے قریب مشہور و معروف نجی چینلز ہیں جن پر بلاناغہ تین سے چار ڈرامے پرائم ٹائم یعنی “سات سے دس” بجے کے درمیان نشر ہوتے ہی مقبولیت کی سیڑھیاں پھلانگتے رہتے ہیں۔ ڈراموں کے ارتقائی دور سے آج کے دور کے ڈراموں میں اگر کوئی واضح فرق رونما ہوا ہے تو وہ صرف “معیار” کا ہے۔ انیسویں صدی میں ڈرامے اخلاقی و اصلاحی ترقی کے لیے پیش کیے جاتے تھے جبکہ آج کے دور میں ڈرامے صرف اخلاقی و اصلاحی زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ دورِ جدید کے ڈراموں میں مرد و عورت کی انتہائی بدترین تصویر پیش کی جارہی ہے۔ کبھی رشتوں کا تقدس پامال کیا جارہا ہے تو کبھی حلال و حرام کی تمیز سے بالاتر کہانیاں پیش کی جارہی ہیں۔ اگر ہم کچھ برس پیچھے جائیں تو ہمارے ڈراموں میں “عورت” کو مظلوم اور صابر جبکہ “مرد” کو ظالم و جابر دکھایا جاتا تھا۔ ساس کا کردار کسی سانپ سے کم نہ لگتا اور عورت ایک گھنٹے کی قسط میں آدھے سے زیادہ وقت روتی ہوئی ہی نظر آتی۔ مزید چند سال گزرنے کے بعد “معیار” پھر تبدیل ہوا۔ چھوٹی بہن بڑی بہن کی دشمن دکھائی جانے لگی، مرد اپنی بیوی کو نظر انداز کرکے سالی کے ساتھ محبت کرنے لگا، عورت اپنے شوہر کو نظر انداز کرکے دیور کے ساتھ نظر آنے لگی، دوست دوست کی دشمن بن گئی۔ غرض یہ کہ دیکھنے والی معصوم عوام کا ہر رشتے سے اعتبار اٹھنے لگا۔ مزید چند سال گزرے اور معاشرہ جدت کی طرف تیزی سے سفر کرنے لگا۔ ڈراموں نے بھی لحظہ بھر انتظار کیے بغیر اپنا “معیار” مزید بلند کیا اور یوں زوال کی ایک اور سیڑھی عبور کرلی گئی۔ اس دفعہ معیار میں تبدیلی کچھ اس طرح سے آئی کہ “عورت” کو مضبوط اور آزاد بنادیا گیا جبکہ “مرد” کو خاموش اور بے بس۔ بیٹی باپ کے سامنے بولنے لگی، بہن ننگے سر جینز پہن کر گھومنے لگی، بیوی مختلف مردوں کے ساتھ شوہر کے اعتراضات کو پسِ پشت ڈال کر کام کرنے لگی۔ ایک طرف پسند کی شادی کے لیے گھر سے بھاگنا جائز ہوا تو دوسری طرف طلاق دینا سب سے زیادہ آسان حل لگنے لگا۔ یہی وہ دور تھا جب ہر ڈرامے کے ٹائٹل پر ایک مرد دو خواتین یا دو خواتین اور ایک مرد کی تصویر بننے لگی۔ ڈرامے کی ابتدائی اقساط میں مرد ایک ہیروئین کے ساتھ رہتا پھر ایسی وجوہات بنادی جاتیں کہ طلاق دینا اور گھر توڑنا ہر مسئلے کا حل لگنے لگتا۔ پہلی ہیروئین کے گھر سے نکلتے ہی دوسری ہیروئین رونما ہونے کے لیے جیسے پہلے سے ہی تیار ہوتی۔ ڈرامے کے خوشگوار اختتام کے لیے دوسری شادی کرنا سب سے زبردست اختتام ہوتا۔ ایسے ڈراموں سے تنگ آکر نوجوان نسل بیزار ہوکر دوسرے کلچر کے ڈراموں میں دلچسپی لینے لگی اور یہ بدلتا ہوا رویہ ہمارے ڈرامہ میکرز کو شدید افسردگی میں مبتلا کرگیا۔ انہوں نے نوجوان نسل کو “اپنے پاکستانی ڈراموں” کی طرف واپس لانے کے لیے “معیار” مزید بلند کرلیا اور یوں زوال کی ہر حد بھی پار کرلی گئی۔ چائلڈ ریپ، ہراسمنٹ، لڑکیوں کے ساتھ زیادتی، زنا، تہمت ، ناجائز تعلقات، قتل، شراب نوشی اور حلالہ جیسے موضوعات ہمارے ڈراموں کا مرکز بن گئے۔ “اصلاح” کے نام پر بنائے جانے والے ڈراموں کا اولین نتیجہ یہ نکلا کہ گھر کے تمام افراد نے ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر تو ڈرامہ دیکھنا مکمل طور پر ترک کردیا مگر ساتھ ہی ساتھ انٹرنیٹ پر دیکھنا شروع کردیا۔ ڈرامہ تو سب ہی دیکھتے مگر ساتھ بیٹھ کر نہیں بلکہ اکیلے میں چھپ کر۔ ان اصلاحی ڈراموں نے نہ صرف گھر والوں میں انتشار پھیلایا بلکہ گناہ کرنے کا ہر راستہ بھی آسان کردیا۔ دورِ جدید کے ڈراموں نے اَن پڑھ اور بڑی عمر کی خواتین سے نوجوان نسل کی طرف رُخ موڑ لیا۔ عوام یہ سیکھنے لگی کہ شادی شدہ عورت نے غیر مرد کے ساتھ تعلقات قائم کیسے رکھنے ہیں، زنا کو بے وفائی کا نام دے کر زندگی کیسے گزارنی ہے، ایک لڑکی نے بیک وقت چار سے پانچ لڑکوں کے ساتھ چکر کیسے چلانے ہیں، بیوی نے شوہر سے دو قدم آگے کیسے آنا ہے، مرد نے گناہ کو غلطی کہہ کر گناہ کیسے کرنا ہے اور ایسے ہزاروں موضوعات کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام ایک طرف تو ڈراموں کو گالیاں دینے لگی اور دوسری طرف ان تمام منصوبہ بندیوں پر کھلے دل سے عمل کرنے لگی۔
ڈرامہ بنانے میں قصور وار کوئی ایک شخص نہیں ہے۔ ڈرامے کی بنیاد “مصنف” کی سوچ رکھتی ہے۔ ڈرامے کا سائبان “پروڈیوسر” ہوتا ہے اور اس کی تربیت “ہدایتکار” کرتا ہے جبکہ “کردار” سوچ کی بنیاد پر پروان چڑھتے چمن کے پھلتے پھولتے پھول ہوتے ہیں جن کی پرفامنس کو دیکھتے ہوئے ناظرین اپنے ذوق و شوق کے مطابق پھولوں کو یا تو عرش پر پہنچا دیتے ہیں یا فرش پر پٹخ دیتے ہیں۔ضرورت اس امر پر غور کرنے کی ہے کہ اس چمن میں دراصل قصوروار کون ہے؟ مصنفین اکثر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کہانی کو معاشرے کی سوچ اور بدلتے وقت کے مطابق لکھا جاتا ہے جس کو “اپنی مرضی اور اپنے معیار” کے مطابق لکھوانے میں پروڈیوسر کی سوچ شاملِ حال ہوتی ہے جو عام سی کہانی کو بھی کمرشل لیول پر ایسا پیش کرنے پر اُکساتے ہیں کہ ہر نظر اُس کہانی پر جامد ہوجائے۔ مصنف پروڈیوسر کے سامنے اکثر “مجبور” اور ہدایتکار کے سامنے “بے بس” نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دورِ جدّت میں بھی کوئی مجبور اور بے بس ہوسکتا ہے؟
دوسری طرف سوال یہ ہے کہ ہدایتکار اور پروڈیوسر ایسی کہانیاں کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ناظرین کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے یا کہانیوں کو تنقیدی نقطہِ نظر کے ساتھ پیش کرکے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے؟ ایک سوال ناظرین سے بھی۔۔۔ معاشرہ بگڑتا ہے تو ڈرامے بگڑتے ہیں یا بگڑا ہوا میڈیا ہمارے “معصوم” لوگوں کے “اچھے” معاشرے کو بگاڑ رہا ہے؟ جب مذہبی و روحانی موضوعات پر ڈرامے بنتے ہیں تو ہم ان کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ گلیمر کے بغیر صرف اچھی اور سلجھی ہوئی کہانی کو ہم دیکھنا پسند کیوں نہیں کرتے؟ اگر کسی کہانی میں لڑکی اپنا گھر بسانے کے لیے ڈتی رہتی ہے تو ہم ایسی کہانی کو پرانی اور عام کیوں کہتے ہیں؟ ڈرامے میں ماں بے بس ہوجائے تو ڈرامہ فلاپ ہے اور حقیقی زندگی میں کتنی اولادیں والدین کو بےبس نہیں کرتیں؟ ہم معاشرتی موضوعات پر بننے والے ڈرامے کیوں زیادہ دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور دلچسپی رکھنے کے باوجود اُن پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ اگر ہم خود ڈرامے دیکھ دیکھ کر ریٹنگز کے تمام ریکارڈ توڑ دیتے ہیں تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں میڈیا معاشرے میں بگاڑ پیدا کررہا ہے؟ غلط کون ہے؟ ہماری تہذیب؟ ہمارا معاشرہ؟ ہمارا میڈیا؟ ہمارے ڈرامے؟ یا سب سے بڑھ کر ہم خود؟
Facebook Comments
It’s an amazing writing about drama with different span of time. And writer fully justified this.