کہانی ایک ڈاکٹر کی۔۔ محمد اسلم خان کھچی

روح پر لرزا طاری کردینے والا منظر، قیامت ٹوٹنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔
آج سوشل میڈیا پہ انڈونیشیا کے شہر جکارتہ کے ایک محترم ڈاکٹر ہیدیو علی کی تصویر نظر سے گزری۔ جن کی شاید یہ آخری تصویر ثابت ہو۔ اس  تصویر کو آپpicture of the centuryکہہ  سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ دردناک منظر آپ اپنی آنے والی زندگی میں کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔

یہ دنیا کا عظیم انسان ایک ڈاکٹر ہے۔ دن رات ایک کر کے کورونا وائرس کے مریضوں کا درد بانٹتے بانٹتے بالآخر خود اسی درد کا شکار ہو گیا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ بیماری خطرناک فیز میں داخل ہو چکی ہے اور اب بچنا مشکل ہے تو وہ اپنے گھر گئے تاکہ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی جنت کا آخری دیدار کر سکیں۔ اپنے معصوم بچوں کو جی بھر کے دیکھ سکیں ،جو کبھی ان کے سینے پہ سر رکھ کے سویا کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کیا کرتے تھے۔ بیوی جس کے ساتھ انہوں  نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسم کھائی تھی۔ بیوی کے پیٹ میں پلتا ایک معصوم جس کا اس نے نام بھی سوچ رکھا تھا۔ لیکن قدرت کچھ اور ہی کھیل کھیل گئی۔ شاید انسانیت کی بقا کے لیے قربانی مقصود تھی اور اس عظیم قربانی کیلئے قرعہ فال ڈاکٹر ہیدیو علی کے نام نکلنے والا تھا۔

تقدیر نے ایسای چال چلی   کہ ڈاکٹر صاحب اپنے گھر بھی داخل نہیں ہو سکتے تھے، بس دور سے ہی اپنے بیوی بچوں کو, اپنی دنیا کو ،حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور اپنے آخری سفر پہ روانہ ہونے کیلئے رخصت ہو گئے۔

یقین کیجیے۔۔۔
اس درد کو سمونے یا بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں مل رہے۔ منظر آنکھوں میں آتے ہی  بے بسی کی ہوک دل  سے اُٹھتی ہے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ آپ اْن بچوں ،بیوی   اور اْس عظیم انسان کے دل میں اٹھنے والے کہرام کا اندازہ لگائیے کہ کس چھلنی دل سے گیٹ کے باہر کھڑے اس نے حسرت بھری نظروں سے اپنی ہنستی بستی جنت کو دیکھا ہو گا۔ دل کے سارے ارمان دل میں ہی  دم توڑ گئے ہوں گے ۔ اْس بیوی کے دل میں سوزوغم کی کیا کیفیت ہوگی ؟ جس کی زندگی کا ساتھی 100 قدم دور کھڑے جنت میں ملنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ ان معصوم بچوں کے دل پہ کیا گزر رہی ہو گی جو آج یہ بھی نہیں کہہ  سکے۔۔ پاپا گلے تو لگا لو۔۔
لیکن۔۔بیوی کے دل میں یہ حشر ضرور بپا ہوا ہو گا کہ کاش آج ہی قیامت قائم ہو جائے اور آج ہی روزمحشر قائم ہو تاکہ ہم اگر دنیا میں نہ سہی جنت میں تو ایک ساتھ رہ سکیں۔
لیکن قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔
اسی لئے تو وہ فرماتا ہے کہ
میں بے نیاز ہوں۔۔
ہم اُس دکھ درد ,رنج و الم, یاس, حسرت بھری کیفیت کو بیان تو کر سکتے ہیں لیکن اْس المناک کرب کو محسوس نہیں کر سکتے۔کیونکہ ہم محسوس کرنے کی کیفیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ ہمارے دلوں پہ بےحسی کا قفل لگا چکا ہے،ہمیں کسی کے درد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لئے یہ ایک عام سی تصویر ہے جسے ہم چند دن بعد دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کے بھول جائیں گے ۔
ہماری نظر میں صرف ہمارے بچے ،بیوی اور ہماری جان ہی قیمتی ہے۔
ہم قوت برداشت سے عاری قوم ،اپنی جھوٹی انا کی تسکین کی پیاس بجھانے کیلئے اپنے مسیحاؤں کو گالیاں دیتے ہیں۔ ہمارا مریض اگر ہسپتال میں مر جائے تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔مارپیٹ کرتے ہیں ۔ہمارا ردِ عمل اتنا خوفناک ہو جاتا ہے کہ جیسے خدانخواستہ ڈاکٹر ملک الموت ہے اور اس نے ہمارے کسی پیارے کی جان قبض کر لی ہے ۔ میں نے اکثر ہسپتالوں میں کسی کی موت کے وقت ڈاکٹرز کو چھپتے دیکھا ہے۔ اس بات کا اندازہ مجھے چند سال پہلے ہوا۔ میرا جواں سال بھائی کینسر کی وجہ سے ہسپتال کی ایمرجنسی میں جاں بحق ہو گیا، جبکہ ڈاکٹرز نے پوری کوشش کی بچانے کی۔ لیکن بھائی کی زندگی کی ڈور کٹ گئی ۔ میں نے محسوس کیا کہ اچانک سارے ڈاکٹرز ایمرجنسی سے غائب ہو گئے ہیں۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ ہم اپنے مسیحاؤں کے ساتھ کتنا ظلم کرتے ہیں ۔ہم نے انہیں قاتل مسیحاؤں کا نام دے دیا ہے ۔کسی قوم کی اخلاقی پستی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ جتھوں کی صورت میں ہسپتال پہ حملہ کر کے مریضوں اور ڈاکٹرز کی جان لے لی جائے ۔ مریض کسی بھی تکلیف یا بیماری سے مر جائے۔ قصوروار ڈاکٹر ہی ہے۔ یہ ہماری بے حسی کی انتہا ہے۔

آج پاکستان کے ایک ڈاکٹر کی تصویر دیکھ کے دل دُکھا کہ وہ اپنے چہرے پہ سفید شاپنگ بیگ  لپیٹ کے ایک کورونا وائرس کے مریض کا علاج کر رہا ہے لیکن اسے کوئی Appreciate نہیں کرے گا ۔ہر کوئی یہ کہے گا کہ یہ ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہے۔۔ شرم آتی ہے مجھے ایسے معاشرے پہ کہ ہم اخلاقی طور پہ کتنی گری ہوئی قوم ہیں۔

میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر مجھے یا آپ کو خدانخواستہ وائرس ہو جائے تو ہمارے گھر والے ہمیں مرتا چھوڑ کے گھر سے بھاگ جائیں گے۔لیکن ڈاکٹر اپنی جان کی پرواہ کیے  بغیر ہمیں سنبھالے گا۔ہمارے درد کا مداوا  کرنے کی کوشش کرے گا ۔میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں اس عظیم ماں کو جس کا بیٹا شاپنگ بیگ  لپیٹ کے اس خطرناک سچویشن میں بھی اپنا فرض نبھا رہا ہے۔
لیکن ہم پھر بھی ڈاکٹرز کو بُرا بھلا کہتے ہیں، کیونکہ ہم خود کو سپریم سمجھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں معمولی سی بھی تکلیف ہو تو ڈاکٹر ہر وقت ہمارے سرہانے کھڑا رہے۔۔ایک ڈاکٹر سے 18 گھنٹے تک ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ ہر آنے والا مریض سپیشل پروٹوکول مانگتا ہے ۔ میں ڈاکٹرز کی  برداشت  کو داد دیتا ہوں کہ وہ ہمیشہ مسکراہٹ سے مریض کا درد دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں
پچھلے دنوں ڈاکٹرز نے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کچھ life savings kits کا مطالبہ کیا کر دیا کہ سوشل میڈیا پہ ایک طوفان بدتمیزی برپا  ہوگیا ۔ ۔ طرح طرح کے القابات سے  انہیں  نوازا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت چل نکلا ہے۔ کیا ہماری تربیت میں کوئی کمی ہے یا ہمیں جان بوجھ کے wisdom سے دور رکھا گیا ہے۔۔۔ Life savings kits مانگنا کونسا جرم ہے ؟
ایک ڈاکٹر آپ کی جان بچانے کیلئے کیوں خودکشی کرے ؟

کیا وہ بچے جن کا مستقبل ابھی شروع ہی نہیں ہوا،بیس سال کی سخت مشقت طلب ایجوکیشن کے بعد ڈاکٹرز بنے۔ بوڑھے والد کو امید ملی, سہارا ملا کہ بیٹا ڈاکٹر بن گیا ہے میری زندگی کی مشقتیں کم کرنے میں مدد کرے گا۔ ماں کو آسرا ملا کہ اب جی بھر کے کھانا کھا پاؤں گی۔
گھر میں بیٹھی معصوم بہن کو ایک تحفظ کا احساس ملا کہ بھائی ڈاکٹر بن گیا ہے۔ اب اس سے اپنی ساری فرمائشیں پوری کرواؤں گی۔
اتنے لوگوں کی امید کو آپ بے وجہ موت کی نیند سلانا چاہتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے مریض کو بچا دے اور اپنی جان دے دے۔ کیا آپ کی جان بہت قیمتی ہے اور اسکی جان بہت سستی ہے کیونکہ اسکا قصور یہ ہے کہ وہ ایک ڈاکٹر ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ پوری قوم ڈاکٹرز کے ساتھ کھڑی ہوتی اور حکومت وقت سے فوری انتظامات کا مطالبہ کرتی لیکن یہاں سب اُلٹا ہو گیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر روزانہ مرتا ہے اور روزانہ جیتا ہے۔ اس کے پاس آنے والا ہر مریض ایک نئی بیماری لے کے آتا ہے۔ کسی کو کانگو وائرس ہے, کسی کو سوائن فلو ہے۔ کسی کو ٹی بی ہے, کسی کو ایڈز ہے لیکن وہ مریض کو خوش دلی سے دیکھتا ہے۔ اس کے دکھ کا مداوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسے ہر مریض موت کا پیغام رساں لگتا ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے فرض سے روگردانی نہیں کرتا۔

آج کل کی مثال لے لیجیے۔ہر طرف “” نفسی نفسی “” کی گردان ہے ۔ آپ ہسپتال کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔پچھلے دنوں ملتان میں قرنطینہ قائم ہوا تو لوگوں نے باقاعدہ احتجاج کیا کہ ملتان میں ہماری جانوں کو خطرہ ہے۔ لیکن ایک ڈاکٹر ہی ہے جو سینہ تان کے بیماری کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہے اور وہ بھی سر پہ لفافہ  لپیٹ کے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر سال سینکڑوں ڈاکٹرز ہمارے مریضوں کے دیئے ہوئے وائرس سے موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن کبھی آپکا علاج رُکا ؟
بلکہ نئے آنے والے خوشدلی کے ساتھ ہمارا استقبال کرتے ہیں۔
کبھی ہسپتال جا کے دیکھیے, مریض کے ساتھ آئے وارثان اس ڈر سے مریض کو ہاتھ نہیں لگاتے کہ کہیں یہ بیماری ان میں منتقل نہ ہو جائے لیکن میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں ان ڈاکٹرز کو ,نرسز کو جو ہمارے پیاروں کو سنبھالتے ہیں۔معمولی سی تنخواہ پہ کام کرنے والے یہ ہمارے نوجوان ڈاکٹرز ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
انکی قدر کیجیے۔۔۔ یہ نفرت کے نہیں، سلیوٹ کے حقدار ہیں۔یہ ہمارے ہیرو ہیں،یہ ہمارا آنے والا کل ہیں،اگر یہ نہیں ہوں گے تو ہم بھی نہیں ہو گے۔میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں ان عظیم ماؤں کو جنہوں نے اتنے عظیم ہیرو پیدا کئے۔۔۔ جو ہمارے ہر درد کا مداوا ہیں۔
میں دنیا کے تمام ڈاکٹرز کو دل سے سلیوٹ پیش کرتا ہوں۔بس ڈر اس بات کا ہے کہ اس آسمانی آفت کورونا وائرس سے کہیں ہمارے یہ ہیرو ہمیں بچاتے بچاتے خود کو ہم پہ قربان نہ کر دیں۔
میری دعا  ہےکہ اللہ رب العزت ہمارے ان ڈاکٹرز کو اس موذی مرض سے بچائے رکھے۔۔۔
اللہ پاک سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔۔آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply