کشمیر ۔ جنگیں (36)۔۔وہاراامباکر

کشمیر کے تنازعے پر دوسری پاک بھارت جنگ جولائی 1965 میں آپریشن جبرالٹر سے شروع ہوئی۔ پاکستان نے 1000 سے 1200 تک کے نیم فوجی دستے انڈین کشمیر میں بھیجے۔ اس آپریشن کی پلاننگ بہت اچھی نہیں کی گئی تھی۔ اور مقامی آبادی سے رابطہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت تک (پاکستان اور انڈیا، دونوں کی توقع کے خلاف) کشمیری بڑی حد تک پروانڈیا تھے۔ پاکستان انڈیا باقاعدہ جنگ اگست کے آخر تک شروع ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان نے اس پر پہل کیوں کی؟ اس کو اندازوں کی غلطی کہا جا سکتا ہے۔ اول تو یہ کہ پاکستان کا خیال تھا کہ چین کی جنگ کی شکست نے انڈین آرمی کو کمزور کر دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ سری نگر میں 1963 کے آخر میں گڑبڑ شروع ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ حضرت بل سے موئے مبارک کی گمشدگی تھی۔ (انڈیا انٹیلی جنس بیورو نے اس کو جنوری 1964 کو ڈھونڈ لیا اور مذہبی راہنماوں کی طرف اس کے اصل ہونے کی تصدیق ہو جانے کے بعد یہ مظاہرے ختم ہوئے)۔ تیسرا یہ کہ نہرو کی 27 مئی 1964 کو وفات کے بعد پاکستان کا خیال تھا کہ لال بہادر شاستری نہرو کے برعکس کشمیر میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے کہ یہاں پر جنگ چھیڑ دیں گے۔ چوتھا یہ کہ پاکستان کو امریکہ سے ہتھیار ملے تھے جن میں پیٹن ٹینک بھی تھے۔ اپریل 1965 میں رن آف کچھ میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد پاکستان فوج کا خیال تھا کہ ان کے پاس ہتھیار انڈیا سے بہتر ہیں۔ پانچواں یہ کہ پاکستان کا خیال تھا کہ کشمیریوں کی بھاری اکثریت پروپاکستان ہے۔ یہ وجوہات تھیں جن کی بنا پر پاکستان کا خیال تھا کہ آپریشن کامیاب ہو گا۔ اور اس وجہ سے جولائی 1965 میں لائن آف کنٹرول پر ہونے والی بھاری گولہ باری آپریشن جبرالٹر کا آغاز تھی۔
اسی پلان کے تحت پاکستان کی باقاعدہ آرمی نے اگست کے آخر میں آپریشن شروع کیا جو آپریشن گرینڈ سلام تھا۔ اس کا مقصد انڈین جموں و کشمیر حاصل کرنا تھا۔ پاکستان نے ابتدا میں بڑا علاقہ حاصل کر لیا جس میں چھمب ڈسٹرکٹ تھا۔ پاکستان کے پلان کے برعکس پاکستانی فوج کو مقامی آبادی کی طرف سے کوئی سپورٹ نہیں ملی جس کی وجہ سے پیشقدمی رک گئی۔ مقامی آبادی نے پاکستان سے آئے لوگ گرفتار کرنے میں مدد کی۔
ایک اور بڑا اندازہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب چین نے عالمی دباوٗ کی وجہ سے انڈیا کے خلاف دوسرا محاذ کھولنے سے انکار کر دیا۔
انڈیا نے چھ ستمبر کو غیرمتوقع طور پر جموں میں پاکستانی فورس کے بجائے سیالکوٹ اور لاہور پر حملہ کر دیا۔
جنگ بندی بائیس ستمبر کو ہو گئی۔ جنوری 1966 میں تاشقند کے مقام پر امن معاہدہ ہوا (جسے تقدیر کی ستم ظریفی کہا جا سکتا ہے۔ یہی شہر تھا جہاں سے روس نے برٹش انڈیا کے خلاف گریٹ گیم پلان کی اور کھیلی تھی)۔ امن معاہدے کے تحت افواج جنگ سے پہلی کی حالت میں چلی گئیں۔ (اس معاہدے کو دونوں ممالک میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا)۔ یہ جنگ بے نتیجہ رہی۔ اس کے سائیڈ ایفیکٹ ہوئے۔ نومبر 1965 کو آخری بار اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں “انڈیا پاکستان کوئسچن” پر بات ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جنگ کی ابتدا میں ایک کردار رن آف کچھ تنازعے کا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے اس پر دونوں ممالک کا تصفیہ کروانے کی حامی بھری۔ اس پر مقدمہ 1968 میں مکمل ہوا۔ اقوامِ متحدہ نے اس علاقے کا دس فیصد پاکستان کو دے دیا۔ پاکستان اس فیصلے سے ناخوش تھا کیونکہ اس کے خیال میں یہ زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ انڈیا اس فیصلہ سے ناخوش تھا کیونکہ اس کے خیال میں یہ تمام علاقہ اس کا تھا کیونکہ کچھ کے حکمران نے انڈیا سے الحاق کیا تھا۔ انڈیا کو سفارتی ناکامی ہوئی تھی کہ اس کی کوششوں کے باوجود پاکستان کی 1965 کے ایکشنز پر مذمت نہیں کی گئی۔
اس کے بعد سے انڈیا میں اقوامِ متحدہ کے بارے میں خاصے منفی خیالات پائے جاتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری پاکستان بھارت جنگ 1971 میں ہوئی۔ یہ کشمیر پر نہیں تھی۔ اس کے نتائج میں سے ایک شملہ میں ہونے والا امن معاہدہ تھا۔ جس میں کشمیر کے مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ انڈیا کے نکتہ نظر سے 1972کے شملہ معاہدے کے بعد اقوامِ متحدہ میں انڈیا پاکستان کوئسچن کا معاملہ ختم ہو گیا۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ چونکہ معاہدے میں لکھا ہے کہ “پاکستان بھارت تعلقات اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور اصولوں کے مطابق ہوں گے”، اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کا انڈیا پاکستان کوئسچ ابھی طے نہیں ہوا۔
اس جنگ کا دوسرا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام آباد اور آزاد کشمیر کے شہر راولاکوٹ کے درمیان کہوٹہ کے مقام پر پاکسان نے نیوکلئیر ہتھیار حاصل کرنے کا پراجیکٹ شروع کر دیا۔
اس کے علاوہ 1982 میں پاکستان نے نقشے میں شمالی علاقہ جات کو کشمیر کے نقشے سے نکال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامکمل نقشے کی وجہ سے 1983 میں سیاچین کا تنازعہ شروع ہو گیا۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی اور تنازعہ اس قدر بے کار ترین ہو۔ لیکن یہ دونوں ممالک کو بہت مہنگی پڑی ہے (اور پڑ رہی ہے)۔ مئی 1983 میں انڈیا نے یہاں پہلی بار فوجی داخل کر دئے۔ پاکستان کو اگست میں اس کا معلوم ہوا۔
جنوری 1986 سے پاکستان اور انڈیا اس علاقے سے افواج نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ روزانہ کا خرچ کروڑوں روپے ہے، انسانی جانوں کا ضیاع عام ہے۔ یہ ایک “غیرانسانی جنگ” ہے جو یہاں کے فوجیوں کے لئے زیادتی ہے۔ یہاں جنگ تو نہیں کی جا رہی لیکن سیاچین تنازعہ یہ بتاتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں ایک دوسرے پر بھروسے کی کس قدر کمی ہے اور یہ کہ پاکستان اور بھارت معاملات حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے خواہ اس کی خود ہی کتنی بھاری قیمت چکانا پڑے۔
اس گلیشئیر کو ہم ایک لٹمس ٹیسٹ کہہ سکتے ہیں۔ اگر نئی دہلی اور اسلام آباد ایک دوسرے پر عدم اعتماد پر قابو پا کر یہ تنازعہ طے کر سکتے ہیں تو پھر ہی یہ توقع کی جا سکے گی کہ اہم معاملات پر پیشرفت کر سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مئی 1998 میں انڈیا نے راجستھان میں پوخران کے علاقے میں پانچ نیوکلیائی ٹیسٹ کئے۔ اس سے کچھ روز بعد پاکستان نے چاغی پر چھ ٹیسٹ کئے جس کے بعد یہ دونوں ممالک اعلانیہ نیوکلیائی طاقت بن گئے۔
اگرچہ انڈیا اور پاکستان، دونوں ذمہ دار ممالک ہیں اور کوئی توقع نہیں رکھتا کہ ان کو کبھی استعمال کیا جائے گا لیکن کشمیر میں اس حوالے سے ایک خوف موجود ہے۔ کئی کشمیری ایسا سمجھتے ہیں کہ اگر کبھی نیوکلئیر ہتھیار استعمال کیا گیا تو وادی کشمیر میں ہو گا۔ کیونکہ، ایک تو یہ کہ پاکستان اور انڈیا اپنی انا اور تنازعے میں ہمیشہ سے کشمیریوں کا خون بہانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے رہے۔ دوسرا یہ کہ بلند پہاڑوں میں گھری وادی ایک بیسن کا کام کرتی ہے جس سے نیوکلئیر ہتھیار کے مضر اثرات ان ممالک تک نہیں پھیلیں گے۔ یہ تاثر درست تو نہیں لیکن کشمیریوں میں عام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مئی 1999 میں کارگل کے علاقے پر ڈیڑھ سو کلومیٹر کی لائن آف کنٹرول میں پاکستان نے آپریشن کیا۔ اگرچہ پاکستان اس کا انکار کرتا ہے لیکن اس میں ناردرن لائٹ انفینٹری نے حصہ لیا تھا۔
دراس کارگل کا علاقہ دنیا کے سرد ترین مقامات میں سے ہے۔ دراس کو دنیا کا دوسرا سب سے سرد شہر کہا جاتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان سردی میں اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ مارچ 1999 میں اس سے فائدہ اٹھا کر کارگل، دراس اور بٹالک سیکٹرز پر لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف مختلف مقامات پر آٹھ سے بارہ کلومیٹر کے علاقے پر اہم پوزیشنز لے لیں۔ اس کا مقصد سری نگر لیہہ روڈ حاصل کر لینا تھا۔ یہ سیاچین اور انڈیا چین بارڈر میں عسکری سپلائی کے لئے بہت اہم سڑک تھی۔
انڈیا نے اس کا سخت جواب دیا جس میں فضائیہ بھی استعمال کی گئی۔ ایک ہزار لوگوں کے جانی نقصان کی وجہ سے ہم اسے باقاعدہ جنگ کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان مشکل پوزیشن میں تھا۔ اگر باقاعدہ فورس یا فضائیہ استعمال کی جاتی تو اس کا مطلب یہ تسلیم کر لینا ہوتا کہ قابض افراد اس کے فوجی ہیں۔ کارگل کی مقامی آبادی سے بھی مدد نہیں ملی۔
عالمی دباوٗ پاکستان پر آیا اور پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہی وہ وقت تھا جب انڈیا اور پاکستان بامعنی مذاکرات کر رہے تھے جس میں بیک چینل کے ذریعے کشمیر کے آخری حل کی بات بھی کی جا رہی تھی (یہ مشرا اور نیاز نائیک کا چینل تھا)۔ اس کے بعد یہ ختم ہو گئے۔ دوسرا اثر یہ ہوا کہ اب انڈیا اور پاکستان کی افواج اس علاقے میں تمام سال اور ہر قسم کے موسم میں رہتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ اس سے یہ بالکل واضح ہو گیا کہ کشمیر کا ملٹری حل موجود نہیں۔ چوتھا یہ کہ نیوکلئیر ہتھیار ہونے کے باوجود پاکستان اور انڈیا روایتی جنگ لڑ سکتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply