کربلا کا جذباتی پہلو۔ نور درویش

روایتی ناصبیت ہو یا اُس کا کیموفلیجڈ یعنی چھپا ہوا ورژن، اس پر اللہ کا سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ یہ کبھی بھی واقعہ کربلا کے باطنی، روحانی اور جذباتی پہلو کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتی۔ اِس کے دلوں پر مہر لگا کر اِسے اس واقعے کے چند ظاہری پہلوؤں پر اس طرح پھنسا دیا گیا ہے کہ یہ کبھی اعلانیہ اور کبھی چھپ کر قاتلین آلِ محمدؑ کا دفاع کرتی رہے گی۔ میں نے یہ بھی غور کیا کہ اس طبقے کے سامنے جب بھی آلِ محمدؑ کی شان میں کوئی فرمانِ رسول(ص) نقل کیا جائے تو یہ کوشش کرتا ہے کہ پہے تو اُس کے رد کا کوئی راستہ نکالا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو یہ اس کی تاویل کچھ انداز سے کر دیتا ہے جیسے کہہ رہا ہوں کہ ہاں ایسا کہا تو ضرور گیا ہے لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھے۔ناصبیت کی روایتی شکل تو ایک طرف، میں جب اس کی جدید شکل کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ ایک نفسیاتی مریض کی طرح دکھائی دیتی ہے جو کھل کر اپنی حقیقت بیان بھی نہیں کرسکتا اور اُس کے اندر موجود قاتلینِ امام حسینؑ کے لیے ہمدردی کا جذبہ اُسے چین بھی نہیں لینے دیتا۔ میں نے اس طبقے کو ایک عجیب ہیجان کا شکار ہوتے محسوس کیا ہے، جب جب محرم میں آلِ محمدؑ کے خون کا اثر سر چڑھ کر بولتا ہے، جب مذہب و نسل سے بے نیاز، ہر حق پرست انسان “ہمارے ہیں حسینؑ” کہہ کر یزید ملعون پر لعن کرتا ہے۔ ایسے میں یہ ہیجان کا شکار طبقہ غمِ حسینؑ میں رونے والے کسی محبِ اہل ِبیتؑ کے پاس جاکر سب سے پہلے تو “حضرت حسین” کہہ کر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ بڑا ظلم ہوا لیکن پھر اگلی ہی سانس میں یہ بھی ضرور بتادیتا ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ موقع ملے تو ڈھکے چھپے الفاظ میں یزید ملعون کی وکالت کا فرض بھی ادا کردیتا ہے۔
۔
دوسری جانب جنہوں نے واقعہ کربلا کے جذباتی، باطنی اور روحانی پہلو سے خود کو جوڑا، وہ چاہے شیعہ تھے یا سُنی، ہندو تھے یا مسیحی۔ اُنہوں نے گلی گلی قریہ قریہ، چیخ چیخ کر بتلایا کہ وہ حسینیؑ ہیں اور یزید پر لعنت کرتے ہیں۔ اِن سب نے ا واقعہ کربلا سے جذباتی تعلق اُستوار کرنے کیلئے امام حسینؑ کی شخصیت کو “حسینؑ منی و انا من الحسینؑ” کی روشنی میں سمجھا۔ ان سب نے غور کیا کہ آخر کیا وجہ ہے جو 14 سو سال پرانے واقعے کا ذکر آتے ہی آنکھ میں آنسو آجاتے  ہیں ۔ کیا وجہ ہے جو 14 صدیاں بیت جانے کے بعد بھی یہ ذکر رکا نہیں بلکہ بڑھتا چلا گیا؟ ان سب نے سوچا کہ اگر یہ محض ایک حادثہ تھا، ایک سیاسی مسئلہ تھا تو اس میں جذبات و احساسات کا اس قدر طاقتور جذبہ کیسے پیدا ہوگیا جو ماند ہونے کا نام نہیں لیتا؟ ان سب نے غور کیا کہ آخر کیا وجہ تھی جو ایک گروہ چھ ماہ کے بچے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا؟ لہذا جب انہوں نے یہ غور کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو اور نرم کردیا اور جب دل نرم ہوجائے تو اُس کا تعلق حسینؑ سے مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ واقعہ کربلا کے اہم تین پہلوؤں میں سے ایک پہلو آنسو بھی ہے۔ اِس واقعے نے ہر ذی شعور اور دردِ دل رکھنے والے انسان کو آنسوؤں کا ایک خزانہ مہیا کیا ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ جہاں سفاکیت، سنگدلی اور اکھڑ مزاجی ہوگی، وہاں آنسو نہیں ہوں گے۔ لہذا کربلا اُس مکتب کا نام ہے جو انسانوں کے قلوب کو نرم کرتی ہے، انہیں سنگدلی سسے دور کرتی ہے اور سفاکیت سے پاک کرتی ہے۔ اازمائش شرط ہے، رونے والا شخص کبھی سنگدل نہیں ہوگا، سفاک نہیں ہوگا اور اکھڑ نہیں ہوگا۔
۔
چونکہ میں نے اس تحریر میں نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کا ذکر کیا ہے اس لیے میں نے کچھ دیر کے لیے تصور کیا کہ ایک شخص دورِ نبوری (ص) میں موجود ہے اور رسولِ کریم(ص) سے بے انتہا محبت رکھتا ہے۔ یہ شخص دیکھتا ہے کہ اُس کا رہبر و پیشوا اپنے نواسوں سے بے انتہا محبت کا اظہار کرتا ہے، کبھی اُنہیں اپنی پشتِ مبارک پر سواری کرواتا ہے، کبھی کوئی نواسہ حالتِ سجدہ میں اِس ہادیِ برحق کی پشت پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ سجدہ طویل کردیتا ہے، کبھی یہ شخص دیکھتا ہے کہ اُس کا رسول(ص) سب کو بتاتا ہے کہ “حسینؑ مجھ سے اور میں حسینؑ سے ہوں”، پھر یہ شخص یہ بھی دیکھتا ہے کہ مباہلہ کا میدان سجتا ہے تو اُس کا آقا اِسی نواسے کے ہمراہ تین دیگر ہستیوں کو لے کر مباہلے کے لیے روانہ ہوتا ہے، کبھی یہ شخص سنتا ہے کہ شافعِ محشر یہ بیان کررہے ہیں کہ “إنّ الحسين مصباح الهدى وسفينة النجاة”، یہ شخص دیکھتا ہے کہ اللہ کا رسول(ص) اپنے ایک نواسے کے لب اور ایک کی گردن کو چومتے ہیں، یہ شخص یہ بھی نوٹ کرتا ہے کہ قرآن میں اللہ اس ختم الرسل(ص) کی زبان سے اجر رسالت طلب کرنے کے لیے اپنے اقربا سے مودت کا تقاضا کرنے کو کہتا ہے، یہ شخص یہ دیکھ کر مغموم ہوجاتا ہے جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ جو نواسہ اپنے نانا کی پشت پر سواری کرتا تھا اُس کے مستقبل میں قتل ہونے کی خبر دینے ایک فرشتہ اِسی نانا کے پاس آیا ہے۔ پھر اچانک منظر بدلتا ہے اور یہ شخص سنہ اکسٹھ ہجری میں پہنچ جاتا ہے۔ دورِ نبوی میں یہ شخص اُس نواسہ رسول(ص) سے متعلق دیکھتا اور سنتا آیا، وہ سب اس کے ذہن میں محفوظ ہے اور پھر یہ واقعہ کربلا کو اپنی آنکھوں  کے سامنے بپا ہوتے دیکھتا ہے۔ یہ اُسی نواسہ رسول(ص) کو ذبح ہوتے دیکھتا ہے جس کی گردن کے بوسے رسولِ خدا(ص) لیتے رہے، اس نے اُس آلِ محمدؑ کو قتل ہوتے دیکھا جس سے مودت رکھنے کا تقاضا اُس نے قرآن میں دیکھا تھا، اس نے اُس نواسے کا سر تن سے جدا ہوتے دیکھا جو پشتِ پیغمبر(ص) کا سوار تھا اور اس نے اُن سیدانیوںؑ کو دربدر ہوتے دیکھا جن کا سایہ بھی کسی نے نہ دیکھا تھا۔ بس یہ شخص چیخ مار کر روپڑا اور روتے روتے اگلے منظر میں 14 صدیوں بعد کے زمانے میں پہنچ گیا۔
۔
اس نے دیکھا کہ جس نواسہ رسولؑ اور جس آلِ محمدؑ سے متعلق مناظر وہ دیکھ کر روتا ہوا اس صدی میں اکیلا پہنچا تھا، اُس نے کروڑوں انسانوں کو اپنے ارد گرد اس غم میں روتے، ماتم کرتے اور بیقرار ہوتے دیکھا۔ یہ سب وہی کچھ یاد کرکے رورہے تھے جو وہ صدیوں قبل دیکھ کر آیا تھا۔ اس کے آس پاس گریہ و ماتم کرنے والوں نے اس بتایا کہ یہ سب کبھی بھی آسان نہیں رہا، کبھی جبر کے ذریعے رونے کو روکا گیا، کبھی ماتم کرنے سے روکا گیا، ہمیں کربلا نہیں آنے دیا جاتا تھا، ہم ہر صدی میں قتل ہوتے رہے لیکن ہم آگے بڑھتے رہے، کوئی آنسو بہاتے ہوئے، کوئی ماتم کرتے ہوئے، کوئی تعزیہ اُٹھائے ہوئے اور کوئی علم تھامے ہوئے، آگے بڑھتا رہا۔ سب کو بتاتا رہا کہ “لا یوم کیومک یا اباعبداللہؑ “۔
پھر اس شخص کو ایک گروہ نظر آیا جو ان رونے والوں کو یہ بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ یہ ایک حادثہ تھا، کوئی سیاسی مسئلہ تھا۔ یہ دو خاندانوں کی جنگ تھی۔ اس شخص نے بہت کوشش کی کہ اس گروہ کو بھی اپنے صدیوں کے سفر کی روداد سنا کر اسے رلانے کی کوشش کرے لیکن اس گروہ کے آنسو خشک ہوچکے تھے۔ بس اس شخص نے اس گروہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور خود آگے پڑھ کر کروڑوں کے اُس مجمعے میں شامل ہوگیا جو اُس کی طرح صدیوں کا سفر طے کرکے آیا تھا۔
۔
اگلے دس دنوں تک آپ کو یہ گروہ ہر اُس جگہ نظر آئے گا جہاں کوئی حسینؑ کے غم میں آنسو بہا رہا ہوگا۔ آپ بھی اس گروہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ یہ اس کا ہیجان ہے جو اس کے دل میں قاتلین حسینؑ سے ہمدری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اسے اس کے نفسیاتی مرض کے ساتھ جینے دیں، آپ کربلا سے جذباتی تعلق برقرار رکھیں۔

عشق فقط یک کلام
حسین علیہ السلام!

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: میں اپنی سی ایک کوشش کی ہے کہ میں نامِ حسینؑ میں موجود اُس بے ساختہ جذباتی تعلق کا کچھ اظہار کر سکوں جو فقط نامِ حسینؑ سُن کر آنکھوں کو نم کردیا کرتا ہے۔ میں نے اس مقصد کے لیے یہ استعاری اور فرضی انداز اختیار کیا ہے۔ اُمید کرتا ہوں اسے اسی پیرائے میں پڑھا جائے گا۔ علماء سے پیشگی معذرت اگر کوئی کوتاہی ہوگئی ہو۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply