• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراء خیبر پختونخوا چھوڑنے پر کیوں مجبور ہیں؟-ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراء خیبر پختونخوا چھوڑنے پر کیوں مجبور ہیں؟-ثاقب لقمان قریشی

ملک کے چاروں صوبوں میں خواجہ سراء کمیونٹی کے حوالے  سے مختلف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ان رجحانات کے تاریخی اور علاقائی پس منظر ہیں۔ مثال کے طور پر جن صوبوں میں امن کی صورتحال ہے وہاں کی عوام کا خواجہ سراء کمیونٹی کے ساتھ رویہ مختلف ہے اور جو صوبے جنگ اور دہشتگری کی لپیٹ میں رہے ہیں وہاں پر بسنے والوں کا رویہ مختلف ہے۔ جن صوبوں کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا اثر و رسوخ ہے وہاں صورتحال اور ہے۔

مثال کے طور پر بلوچستان میں خواجہ سراء کمیونٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں خواجہ سراء کمیونٹی اپنی شناخت ظاہر ہی نہیں کرتی۔ خواجہ سراء کمیونٹی پر تشدد کے حساب سے پنجاب دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پنجاب کے جن شہروں میں صوفیا کرام کے مزارات ہیں وہاں خواجہ سراؤں کو عزت دی جاتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں دین کے فروغ میں خواجہ سراؤں نے صوفیا کرام کے ساتھ بہت کام کیا۔ پنجابی کلچر میں خواجہ سراء کمیونٹی اچھا تصور نہیں کیا جاتا لیکن تشدد بھی نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ چند سالوں میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے جو واقعات میری نظر سے گزرے ہیں وہ ان علاقوں میں ہوئے ہیں جہاں تعلیم کی کمی ہے۔

خواجہ سراؤں کے ساتھ جس  سلوک میں سندھ سب سے آگے ہے۔ کیونکہ سندھی کلچر میں خواجہ سراؤں کو مظلوم تصور کیا جاتا ہے۔ سندھی سمجھتے ہیں کہ خدا مظلوم کی دعا سنتا ہے۔ اس لیے سندھ میں خواجہ سراؤں سے بخشش دعائیں کروائی جاتی ہیں۔سندھ میں بھی خواجہ سراؤں کے حوالے سے دو قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ کراچی کی اردو بولنے والی کمیونٹی میں خواجہ سراؤں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اس لیے  سندھ میں خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والے تشدد کے زیادہ تر واقعات کراچی اور حیدر آباد میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

خیبر پختون خوا  کیونکہ لمبے عرصے سے دہشتگری کی لپیٹ میں رہا ہے۔ یہاں دین کی معلومات کو توڑ مروڑ کر عوام تک پہنچائی گئی ہے۔ اسی لیے  کے-پی میں لڑکیوں کے سکولوں کو بموں سے اُڑایا جاتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں آج بھی خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح ملک میں سب سے کم ہے۔

خیبر پختون خواجہ  سراء کمیونٹی پر تشدد کے حوالے سے ملک اور دنیا بھر میں بدترین تصور کیا جاتا ہے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کے قتل اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات کے-پی میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے اس صوبے میں خواتین اور خواجہ سراء کمیونٹی کے حوالے سے پہلے ہی تنگ نظری پائی جاتی تھی۔ اس کھیل میں سونے پر سہاگہ اس وقت ہوا جب پاکستان کی سیاست میں بارھویں کھلاڑی کا کردار ادا کرنے والی دینی جماعت نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کرنا شروع کیا۔

جماعت اسلامی گزشتہ چار برسوں سے نہ حکومت کا حصہ ہے اور نہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ جماعت اسلامی سیاسی طور پر اتنی بڑی جماعت نہیں ہے کہ اکیلے رہتے ہوئے اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ اس لیے یہ سیاسی طور پر غیر متعلقہ ہو رہی تھی۔ ملک میں مذہب کے چورن کی افادیت کو دیکھتے ہوئے جماعت نے ایک سیاسی کارڈ کھیلا اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مغرب کا ایجنٹ قرار دینے کی کوشش کی۔ مذہب کا یہ چورن بک تو گیا لیکن اسکے نتیجے میں خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں خیبر پختون خوا  میں خواجہ سراؤں کے قتل اور تشدد کے متعدد واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔

بات صرف تشدد تک نہیں رکی بلکہ اب خیبر پختون خوا  کے مختلف اضلاع میں خواجہ سراؤں کو ضلاع بدر کرنے کی مہم جاری ہے۔ چھ ماہ قبل میں نے خیبر پخون خوا  کی پولیس، عوامی رد عمل اور اخبارات کی کٹنگ شیئر کی تھیں۔

چند روز قبل ہماری دوست نادرہ خان نے پختون خوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی جس میں اس مسئلے پر عمران خان کو نوٹس لینے کا کہا۔ خواجہ سراء ڈیڑھ سال سے عمران خان اور وزیر اعلیٰ  سے اس مسئلے پر نوٹس لینے کا کہہ رہے ہیں۔ لیکن کوئی شنوائی نہیں۔
ہری پور کے ایک مقامی اخبار “ہری پور کی آواز” میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی جو کچھ اس طرح ہے۔
“ہری پور میں قائم گیسٹ ہاؤسز جرائم پیشہ افراد اور فحاشی کا اڈہ بن گئے ہیں۔ پولیس چھاپوں کے دوران مختلف افراد کو گرفتار بھی کرچکی ہے۔ لیکن ان گیسٹ ہاؤسز پر مکمل چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے ہری پور شہر میں آئے روز جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ گیسٹ ہاؤس مالکان دوسرے شہروں سے آئے خواجہ سراؤں کو جانچ پڑتال کے بغیر کمرے کرائے پر دے دیتے ہیں۔ جو رات بھر محفلیں سجاتے ہیں اور جب واپس لوٹتے ہیں تو اپنے ساتھ جرائم پیشہ افراد بھی لے آتے ہیں۔ شہروں میں واقع گیسٹ ہاؤسز میں جسم فروشی کا کاروبار بھی دیدہ دلیری سے کیا جا رہا ہے۔ جبکہ ان اڈوں اور خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر منشیات سرعام فروخت کی جاتی ہے۔ ہری پور میں آئس، چرس اور ڈانسنگ پلز وغیرہ کا کاروبار انہی اڈوں پر دوسرے شہروں سے آئے خواجہ سراء شوقیہ کرتے ہیں” پھر صاحب لکھتے ہیں کہ ڈی-آئی-جی ہزارہ اور ڈی-پی-او ہری پور اس خبر کا نوٹس لیں۔ان گیسٹ ہاؤسز میں سی-سی-ٹی-وی نصب کیئے جائیں اور کمرہ کرائے پر لینے والے خواجہ سراء کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے۔ پھر لکھتے ہیں کہ سر شام غیر مہذب لباس پہن کر مین بازار اور جی-ٹی روڈ پر گھومتے ہوئے نوجوان نسل کو گناہ کی دعوت دینے والے خواجہ سراؤں کو فوری طور پر ضلع بدر کیا جائے۔ تاکہ نوجوان نسل کو گناہ سے بچایا جاسکے اور پھر سے امن و امان کا بول بالا ہو۔”

اس پوری خبر میں کہیں کسی گیسٹ ہاؤس کا نام نہیں دیا گیا۔ نہ ہی ثبوت پیش کیے  گئے۔ پوری تحریر میں خواجہ سراؤں پر الزام تراشی کی گئی ہے۔ برائی کا سارا منبع خواجہ سراء کمیونٹی کو قرار دیا گیا ہے۔ جیسے انکوں ضلع بدر کرتے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

خیبر پختون خوا  کے مختلف اضلاع کے خواجہ سراء صوبہ چھوڑ چکے ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری  ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ نفرت آگ کی طرح خیبر پختون خوا  میں بسنے والی اقلیتی برادری، خواتین اور خواجہ سراء کمیونٹی کو اپنی لپیٹ میں رہی ہے۔ یہ آگ بڑھتے ہوئے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت حکومت اور سول سوسائٹی کو جماعت اسلامی کو نفرت کی سیاست سے روکنا ہوگا۔ صوبائی حکومت کو خواجہ سراء کمیونٹی پر ہونے والے پرتشدد واقعات کا سختی سے نوٹس لینا ہوگا۔ دین کی درست معلومات عوام تک پہنچانے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ اگر خیبر پختون خواجہ کے سارے خواجہ سراء صوبہ چھوڑ گئے تو پھر اسکے بعد کسی اور مظلوم کمیونٹی کی باری آئے گی پھر اسکے بعد کسی اور کی یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply