مشرف دور سے شروع ہونے والا بجلی کا بحران پاکستانی قوم کیلئے کبھی نہ ختم ہونے والا ہریکین ثابت ہورہا ہے۔مشرف کے بعد ایک زداری سب پر بھاری بن گیا۔پانچ سالہ دور حکومت میں سینکڑوں ڈرامے قوم کو دکھائے گئے۔کہیں رینٹل پاور پلانٹ خبروں کا حصہ رہے تو کہیں مینار پاکستان پر ہاتھ والی پنکھیاں پکڑ کے مداری کا تماشہ کیا گیا۔مگر کیسی بدقسمتی ہے میرے ملک کی جس پر کروڑوں کے الزامات تھے اسی کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔2008 سے بحرانوں نے پاکستان پر ایسے یلغار کی جیسے چند دن سے سمندری طوفان نے امریکہ کا رستہ دیکھا ہوا ہے۔ بجلی تو تھی نخرے والی زرداری کے راج میں آٹا چینی گھی اور گیس نے بھی عوام کو منہ لگانے سے معذرت کرلی۔زرداری کی وفاق میں عملداری اور خادم اعلیٰ کے پنجاب میں گڈگورنس کی بہت ہی اعلیٰ مثال اس وقت بھی قائم ہوئی جب اچانک ہی گندم کی بوائی کے موقع پر ڈی اے پی اور یوریا کھاد بازار سے ناپید ہو گئی ۔وفاق سمیت صوبائی حکومت کھاد کی فراہمی میں بری طرح ناکام نظر آئی۔دو چار بوری کھاد کیلئے بھی ممبران اسمبلی کی سفارش ناگزیر ہوگئی۔
الغرض کبھی آٹا نہیں کبھی چینی نہیں کبھی گھی نہیں تو کبھی کھاد نہیں۔پھر ساری دنیا نے گیس کیلئے عوام کو سارے ملک میں لمبی لائنوں میں لگتے دیکھا۔ پھر تجربہ کار لوگوں کی حکومت آئی ۔اور بحران پربحران تجربہ کاروں کے تجربے کو منہ چڑاتے رہے۔کہیں آلو کا بحران کہیں ٹماٹر نایاب۔کبھی آٹا غائب تو کبھی چینی ۔کبھی پیٹرول نہیں تو کبھی گیس۔ سمندر میں جب ہریکین بنتا ہے تو اس کا طریقہ کار سورج کی گرمی سے پانی کا گرم ہونے سے بخارات اور بخارات سے بادل ہوا وغیرہ جس میں تیزی اور شدت انسان کو بے بس کرکے اپنا آپ منواتی ہے۔مگر ملک عزیز میں مہنگائی کا طوفان حکمرانوں کی بدنیتی کی توانائی سے طاقت پکڑ کے منہ زور طوفان میں بدلتا ہے۔عوام کی کمزور ریڑھ کی ہڈی کو کڑکڑاتا ہوا چیخیں نکلوا کے چھوڑتا ہے۔ اندھیر نگیری چوپٹ راج اسی کو کہا جاتا ہے،کہ جس دولتمندکا جب جی چاہے کسی بھی انتہائی ضرورت کی چیز کو ذخیرہ کرکے طلب اور رسد میں عدم توازن پیدا کر دے۔
چینی مافیا 20سے 30روپے فی کلو میں بننے والی چینی کو پچاس روپے فی کلو بیچنے سے انکار کر دے۔ملک میں گندم کے ضرورت سے زائد ذخائر کے باوجود آٹے کیلئے عوام کی قطاریں بنوادے۔ کسی بھی زندگی بچانے والی دوا کو اپنی من چاہی قیمتوں پر فروخت کرے اور ہمارے ارباب اختیار ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر نظر آئیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوۓ ہیں۔ہمارے منصوبہ ساز کیا ہوۓ کیوں وقت سے پہلے آنے والے بحران کا ادراک نہیں کیا جاتا۔آخر اتنی وزارتیں کس کام کی ؟ ابھی کل کی بات ہے جب بجلی کے نرخ اچانک چار روپے فی یونٹ کے بڑھا دئیے گئے کیا عوام کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگنے کی کوئی اطلاعات ہیں جب آپ عوام کی آمدنی نہیں بڑھا سکتے تو کم از کم اشیاۓ ضروریہ کے نرخ تو قابو رکھیں۔کب تک عوام کے اعصاب کا امتحان لیا جاتا رہے گا۔پیٹرولیم کی پرائیویٹ کمپنیاں اپنے حصے کا کوٹہ درآمد نہیں کرتیں اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔کیا اس وقت ملک جن حالات سے دوچار ہے یہ وقت اس طرح کی کوتاہیوں اور کوتاہیوں پر چشم پوشی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ہماری وزارت پیٹرولیم اس بات کی وضاحت کرنا پسند کرے گی کہ اتنی سنگین غلطی پر کسی پرائیویٹ کمپنی سے کیا باز پرس کی گئی ہے؟ آنے والے دنوں میں چینی کا بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے اور حکومت بھنگ پی کے سو رہی ہے۔
ابھی تو پنجاب کی چند شوگر ملز نے چینی سینتالیس روپے کلو فروخت کرنے سے انکار کا ٹھینگا دکھایا ہے تو مارکیٹ میں چینی پانچ سے سات روپے کلو مہنگی ہوگئی ہے اگر سارے شوگر مل مالکان اس ایجنڈے پر جمع ہوۓ تو آنے والے چند دنوں میں یہ مسئلہ حکومتی ڈھول کا پول مکمل طور کھول کے سامنے لے آۓ گا۔ کیا ٹریڈکارپوریشن کی ذمہ داری صرف سرمایہ داروں کے مفاد کا تحفظ ہی ہے یا انکی نظروں میں عوام بھی کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب بیوروکریسی کیلئے ہمیشہ برا کریسی کا لفظ استعمال کرتے آۓ ہیں۔مجھے اب ان کے اس لفظ کی سمجھ آنےلگی ہے۔ چینی کا بحران ہر سال سر اٹھاتا ہے مگر حکومت اس حوالے سےکوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتی کیونکہ یہ سارا کھیل حکومتی وزیراعظم سے اپوزیشن تک سب کے ذاتی مفاد کا کھیل ہے شوگر ملز پر شریف خاندان، زرداری، ترین، گجراتی چوہدریوں سمیت سب قابض ہیں ملکی ضروریات پوری کرنے کے بجاۓ ہر سال چینی ایکسپورٹ کی جاتی ہے جس پر حکومت سبسڈی بھی دیتی ہے عوام کا خون نچوڑ کے جمع کیا گیا پیسہ حکومت کے خزانے سے نکل کر حکومت اور اپوزیشن کی جیب میں پہنچ جاتا ہے پھر چینی کی کمی کا بہانا کرکے چینی درآمد کی جاتی ہے۔ جان بوجھ کے عالمی مارکیٹ سے زیادہ قیمت دی جاتی ہے اور پھر سے سبسڈی کا کھیل شروع ہوتا ہے اور عوام کی رگیں کچھ اور نچوڑ لی جاتی ہیں۔ پنجابی کہاوتہے کہ” اندھی پیس رہی ہے اور کتے چاٹ رہے ہیں” مگر عوام زندہ باد مردہ باد، آوے جاوے کے چکر میں جوتے بھی کھا رہی ہے پیاز بھی۔ اس سال بھی ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں 64لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی اور سبسڈی کی مد میں کروڑوں روپیہ ڈکار گئی ہےاشرافیہ، اور اب چینی درآمد ہوگی عوام کی بچی کھچی کھال کھینچی جاۓ گی سرمایہ دار کی تجوری مزید بھر جاۓ گی۔
اسی چینی کو ذخیرہ اندوزی کےذریعے نایاب کیا جاۓ گا پھر عوام کی عزت نفس اگر کہیں کچھ بچی ہو تو، اس سے کھیلا جاۓ گا۔عوام چار دن قطاروں میں لگنے کی عیاشی کا لطف لیں گے۔لکھنے والوںکو نیا موضوع ہاتھ آۓ گا۔وزیر شزیر بمعہ اپوزیشن بیان بازی کھیلیں گے چینل کے ہاتھ نیا مشغلہ آۓ گا اینکرز کو چند دن سیاستدانوں کو لڑانے کا موقع ملے گا ،خادم اعلیٰ کچھ مزید فوٹو سیشن کروالیں گے ۔اتنے میں کوئی نیا بحران کوئی نیا حادثہ ہو گذرے گا ۔کہانی پھر الف سے دہرائی جاۓ گی ۔اگلے ایک سال تک چینی عوام کو میسر رہے گی تآنکہ سبسڈی کا سیزن شروع ہو جاۓ گا۔ بزرگ کہتے ہیں کسی جنگل میں شیر کی مطلق العنان بادشاہت باوزن آمریت قائم ودائم علی شاہ ہوتی تھی کہ کچھ غیر ملکی مندوبین نے جنگل باسیوں سے ملاقات کی اور ان کو جمہوریت کے خواب دکھاۓ جب خواب پختہ ہوۓ اور ساتھ میں عقل وشعور کی شدید ترین کمی ہوئی تو عوام نے جمہوریت کے لئے جدوجہد شروع کر دی ۔پکڑ دھکڑ ہنگامے ہوۓ آخر ایک لانگ مارچ کے ذریعے آمر کو نوے دنوں میں انتخاب کا وعدہ پورا کرنا پڑا۔جمہوریت کی کرم فرمائی سے حکومت اس بندر کے حصے میں آئی جسکا واحد تجربہ درخت پر چڑھ کے تیزی سے اپنی جگہ تبدیل کرتےرہنا تھا۔ اب جب بھی عوام کو کوئی مشکل پیش آتی تو عوام اپنے نمائندوں کا وفد اپنے حکمران کے پس بھیجتی مگر حکمران چھلانگ لگا کے درخت چڑھتا اور کبھی اس شاخ کبھی اس شاخ جھولتا رہتا۔اور لفافہ صحافی کراۓکے دانشور مخصوص چینل اسکی پھرتی اور مہارت کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے رہتے۔ آخر کار تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام نے احتجاج شروع کردیا۔ بندر بھاگا بھاگا عوام کے پاس پہنچا اور پوچھا کیا مسئلہ ہے کیوں روڈ بلاک کر کے بیٹھے ہو ؟ عوام نے دست بستہ عرض کیا جناب پیاز سبزی میں ڈالنے والی چیز کے بجاۓ جہیز میں دینے والی آئٹم بن چکی ہے۔جب پیاز خریدنے کے قابل ہوۓ ہیں تو ٹماٹر پہنچ سے دور ہوگئے۔ابھی پیٹرول اور چینی کی قلت سے کچھ شر پسند ہمیں ڈرا رہے ہیں۔
خدارا ہم غریبوں پر کچھ رحم کیا جاۓ پرائس کنٹرول والوں پر ٹھنڈے پانی کا جگ پھنک دیں تاکہ انکی آنکھ کھل سکے جناب آپ کو حاکم اس لئے چنا تھا کہ آپ ہمیں ہماری کھوئی ہوئی عزت دوبارہ دلا سکیں۔ہمارا جنگل بھی ترقی یافتہ بن سکے مگر حضور ہم تو نانِ جویں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔کچھ کریں سرکار۔ بندر نے لمبی چھلانگ لگائی اور ایک اونچے درخت کی شاخ سے جھولتے ہوۓ ایک تاریخی خطاب کیا اور فرمایا کہ دیکھو جب بھی سیلاب یا کو ئی قدرتی آفت آۓ میں وہاں دوتین دن کے اندر اندر لانگ شوز اور ہیٹ سمیت پہنچتا ہوں۔کسی کی عزت لٹ جاۓ تو کیمرے سمیت اس تک پہنچتا ہوں ۔ باقی رہی چیزوں کی کمی بیشی تو بطور مسلمان ہمارا تقدیر پر ایمان ہے کہ اچھی ہو یا بری منجانب اللہ ہوتی ہے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا۔یہ کہتے ہی بندر نے چھلانگ لگائی اور دوسرے درخت پر پہنچ کے کہنے لگا گولی مارو ان مسائل کو میری آنیاں جانیاں دیکھو ہیں جی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں