ذاتی شناخت (2)۔۔وہاراامباکر

اپنی پرانی تصویروں کا البم کھولیں۔ ان میں آپ کون سے والے ہیں؟ یہ سارے کے سارے آپ ہی ہیں؟
شناخت کا تصور زیادہ پیچیدہ اس وقت ہو جاتا ہے جب ہم اپنی یا پھر کسی بھی شخص کی شناخت کی بات کرتے ہیں۔ جب کسی درخت کی یا بحری جہاز کی بات کی جا رہی ہو تو پھر یہ کہنا آسان ہے کہ یہ وہ شے نہیں جو پہلے تھی لیکن جب اپنی بات کی جا رہی ہو تو؟ مجھے تو یہ پکا یقین ہے کہ میں وہی ہوں جسے میرے والدین کچھ دہائیوں پہلے ہسپتال سے گھر لائے تھے۔ میں وہی ہوں جسے کالج میں کھیلتے وقت ماتھے پر چوٹ لگی تھی اور اس کو ثابت کرنے کے لئے ماتھے پر ٹانکوں کے نشان بھی ہیں۔ اور مستقبل میں وہ بوڑھا بھی میں ہی ہوں گا جس کی کمر جھک گئی ہو گی اور چہرے پر جھریاں ہوں گی (یا کم از کم امید تو ہے)۔ اور شاید آپ اپنے بارے میں بھی یہی تصور رکھتے ہوں کہ پیدائش سے موت تک آپ ایک ہی شخص رہیں گے۔
لیکن یہاں بحث کی جا سکتی ہے (اور کی گئی ہے) کہ واحد چیز جو زندگی بھر یکساں رہتی ہے، وہ صرف نام ہی ہے (اور کچھ کے لئے یہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے)۔
شخص کی تعریف طویل عرصے سے مسئلہ رہا ہے۔ آخر وہ لازمی صفت کیا ہے جو آپ کو آپ بناتی ہے اور تمام زندگی وقت کے ساتھ برقرار رہتی ہے۔ اس بارے میں ایک نظر کچھ خیالات پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے باڈی تھیوری ہے۔ زیادہ تر لوگ اس بارے میں یہی خیال رکھتے ہیں۔ اس کے مطابق ذاتی شناخت اس لئے قائم رہتی ہے کیونکہ آپ پیدائش سے موت تک ایک ہی جسم میں رہتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ ٹھیک ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی باڈی ٹرانسپلانٹ تو نہیں کرواتا۔ لیکن ایسا نہیں کہ آپ کا جسم تمام عمر ایک ہی رہتا ہے۔ آپ کی جلد کی بیرونی سطح سینکڑوں بار تبدیل ہو چکی ہے۔ خون کے سرخ خلیے چار ماہ ہی رہتے ہیں۔ آپ کی ہڈیاں بھی تبدیل ہوتی ہیں۔ آپ کے جسم میں کچھ بھی ایسا نہیں جو تمام عمر آپ کے ساتھ رہتا ہو۔ تھیسیس کے بحری جہاز کی طرح آپ فزیکلی تبدیل ہو رہے ہیں۔ تو پھر یہ جسم کتنا تبدیل ہو جائے کہ آپ کہیں گے کہ آپ کہیں گے کہ اب آپ پہلے والے نہیں رہے؟
اگر آپ بال کٹوائیں؟ یا وزن کم یا زیادہ کر لیں؟ یا داڑھی رکھ لیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں برنارڈ ولیمز نے سوچ کا تجربہ تجویز کیا تھا جو شناخت کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک پاگل سائنسدان نے آپ کو اور مجھے اغوا کر لیا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کل صبح وہ آپ کا سارا ذہنی مواد مجھ میں ڈال دے گا اور میرا آپ میں۔ عقائد، یادداشت، شخصیت، سب کچھ۔ پھر وہ بتاتا ہے کہ جب منتقلی کا یہ عمل مکمل ہو جائے گا تو وہ ایک جسم کو ایک لاکھ ڈالر دے گا جبکہ دوسرے پر تشدد کیا جائے گا۔ اس نے یہ انتخاب آپ کو دیا ہے کہ کس کو کیش ملے اور کس پر تشدد ہو۔ آپ کیا انتخاب کریں گے؟ آپ کا جواب شناخت کے بارے میں کچھ سراغ دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان لاک کا خیال تھا کہ انسان کا اہم حصہ اس کا جسم نہیں ہے۔ لاک کے لئے، وہ شے جو آپ کو آپ بناتی ہے، وہ فزیکل نہیں، آپ کا شعور ہے۔
لیکن لاک کو اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ہم اپنی تمام زندگی میں ایک شعور برقرار نہیں رکھتے۔ ہم روز سوتے ہیں۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو ہمارا شعوری وجود یاد رکھتا ہے کہ پچھلے روز ہم کون تھے۔ اس کی بنیاد پر لاک نے شناخت کی میموری تھیوری پیش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میموری تھیوری کے مطابق آپ کی شناخت وقت کے ساتھ برقرار رہتی ہے کیونکہ آپ کی زندگی کے مختلف مقامات یادداشت میں محفوظ ہیں۔ اور ہر یادداشت دوسری یادداشتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
ہم اپنی زندگی کے تمام لمحات یادداشت میں محفوظ نہیں کرتے۔ مثلاً، کیا آپ جاتے ہیں کہ پچھلے منگل کو آپ نے رات کو کیا کھایا تھا؟ لیکن ایک وقت تھا جب آپ کو یہ یاد تھا۔ شاید بدھ کی صبح کو۔ اور اسی طرح یادداشت کی زنجیر ہے جو آپ کو اس شخص سے باندھتی ہے جو منگل کی رات کو چنے کی دال کھا رہا تھا۔ اور اس پراسس کو ہم پچھلے منگل سے بہت پہلے تک لے جا سکتے ہیں۔
لاک کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو سکول کا پہلا دن یاد ہے تو پھر آپ کا اس شخص کے ساتھ یادداشت کا لنک برقرار ہے۔ آپ کی والدہ کو بھی یہ دن یاد ہو گا لیکن آپ کے سوا کوئی اور نہیں بتا سکتا کہ آپ کا اس روز کا اندرونی تجربہ کیا تھا۔ اس روز کتنا گھبرائے ہوئے تھے۔ نئے جوتے کیسے محسوس ہو رہے تھے۔ یہ آپ کی ہی یاد ہے اور چونکہ یہ آپ کی ہے اس لئے آپ وہی شخص ہیں جس نے اس یاد کا تجربہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میموری تھیوری کی تُک بنتی ہے لیکن اس کے ساتھ اپنی طرح کے مسائل ہیں۔ مثلاً، کسی کو اپنی پیدائش کے وقت کی کوئی یاد نہیں۔ اس کے اگلے دو سالوں کی بھی کوئی یاد نہیں۔
اگر شخصی شناخت میں یاد لازم ہے تو ہم میں سے کوئی بھی اس وقت تک وجود میں نہیں آیا تھا جب تک ہم نے اپنی پہلی یاد نہیں بنائی تھی۔ یعنی پہلے دو سال ہم نہیں تھے۔
اور اگر لاک کے نکتہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر لوگ اپنی شناخت رکھنا بند کر دیے ہیں جب ان کی یادداشت کسی وجہ سے چلی جائے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ڈیمنشیا کا شکار ہو جائے تو اس کی ماضی کو یاد کرنے کی صلاحیت کھو گئی لیکن کیا وہ اب شناخت بھی نہیں رکھتاا؟
یادداشت کی تھیوری میں زندگی کے آغاز اور اختتام کے وقتوں میں مسائل ہیں لیکن غلط یادداشت کا مسئلہ بھی ہے۔ یادداشت خود ناقابلِ اعتبار چیز ہے۔ عینی شاہدین کا ایک گروپ ایک ہی واقعے کی بالکل الگ کہانی سناتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ ہماری کونسی یاد کتنی ایکوریٹ ہے۔ اگر ایسا نہیں اور جو ہمیں یاد ہے، ویسا نہیں ہوا تھا تو کیا غلط یاد شناخت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے؟ کیا آپ جزوی طور پر مفروضاتی شخص ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شروع میں ایسا لگتا ہے کہ لاک کی میموری تھیوری میں باڈی تھیوری کے مقابلے میں کئی معاملات میں بہتر وضاحتی طاقت ہے کیونکہ شعور اور یادداشت جسم کی فزیکل تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رہتے ہیں۔ لیکن اس پر تھوڑا سا غور و خوض اس کے مسائل کو نمایاں کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بڑا سوال۔ کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ کس کو پرواہ ہے کہ پیدائش سے وفات تک ایک شخص کی اپنی ایک شناخت ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ بس اتنا ہی پتا ہونے کی ضرورت ہے کہ کام کرنے کہاں جانا ہے، بل کہاں ادا کرنے ہیں اور بس یہی کافی ہے۔
لیکن نہیں، یہ کافی نہیں ہے اور شناخت کا یہ بس کوئی تصوراتی معمہ نہیں ہے۔ یہ بہت اہم سوال ہے اور گہری اہمیت رکھتا ہے اور اس کا تعین بھی کرتا ہے کہ آپ زندگی کیسے گزارتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر اگر آپ آج بہتر مستقبل کے لئے محنت کر رہے ہیں تو اس کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ مستقبل کا وہ شخص آپ خود ہی ہوں گے۔
دوسرا یہ کہ، کیا آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے بارے میں آپ پر ذمہ داری عائد ہے؟ اگر وہ لوگ اپنی شناخت برقرار نہیں رکھتے تو پھر آپ کی ذمہ داری بھی برقرار نہیں رہے گی؟ اور یہی سوال دوسروں کا آپ کے بارے میں بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ کے باس نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ تین ماہ بعد تنخواہ میں اضافہ کر دے گا۔ لیکن تین ماہ کیا وہ وہی شخص ہے جس نے وعدہ کیا تھا؟ اور کیا آپ بھی وہی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وعدے کا کیا ہو گا؟ بلکہ جب آپ اپنی موجودہ تنخواہ لینے جائیں گے تو کیا اسے یہ کہنے کا حق ہے کہ آپ وہ تو ہیں ہی نہیں جس نے کام کیا تھا اور آپ کو کچھ بھی ادا کرنے کی ضرورت نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنی زندگیوں اور معاشرے کی توقعات اور ترتیب کی بنیاد اس پر رکھتے ہیں کہ افراد شناخت رکھتے ہیں جو تبدیل نہیں ہوتی۔ اور دوسرے یہی توقع آپ سے رکھتے ہیں۔ اور اس وجہ سے یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ آپ کو تنخواہ ملنے کی توقع ہے۔ آپ کو توقع ہے کہ لوگ اپنے وعدے وفا کریں گے۔ ہم جن چیزوں پر بھی یقین رکھتے ہیں، وہ بلاوجہ اور غیرمعقول نہیں۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply