وبائی صورتحال اور میڈیا کا کردار۔۔عبداللہ لیاقت

۲۰۱۹ کے آخر میں ایک وبا نے پوری دنیا کے نظام کو درہم برہم کر دیا۔ کرونا وائرس کے خاتمے  کیلئے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے پورے عالم نے نت نئے طریقے آزمائے لیکن اس کے باوجود   کم و بیش 145216414 لوگ اس کا شکار ہوئے اور اس میں سے -3079390 لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ چین سے اٹھنے والی اس وبا نے پوری دنیا کو کچھ ایسے   اپنی زد میں لیا کہ ایٹمی ہتھیاروں پر اکڑنے والی قوموں کے پاس وینٹیلیٹرز کی کمی ہو گئی۔ اور وہ دنیا جو دن رات انسانیت کو حیران کر دینے والی ایجادات کر رہی تھی ایک دم سے ساکت ہو گئی۔ لوگ سڑکوں پر دم توڑنے لگے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا کچھ حشر کا سا سماں تھا۔ کاروبار زندگی مکمل طور پر منجمد ہو کر رہ گئے تھے۔ خوف تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اگرچہ اب دنیا اس مرض کے ساتھ جینا سکھ چکی کافی حد تک لیکن ابھی بھی وبا ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔

جدید معاشروں میں میڈیا کا ایک بہت ہی اہم کردار ہے بالخصوص جب سے الیکٹرانک میڈیا اپنی کامیابی کے عروج پر ہے اور سوشل میڈیا اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔ پہلے وقتوں میں جو خبریں ہفتوں بعد پتہ چلتی تھیں ،آج جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہیں۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ قوموں کی اجتماعی نفسیات اور روّیوں کی تشکیل میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم اور بنیادی ہوتا ہے۔ کیوں کہ جو کچھ آپ آج سکرین یا بڑے پردوں پر دیکھتے ہیں بہت ہی قلیل وقت میں وہ معاشرے میں رونما ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ سو ہم زمانہ حال میں جب اپنے قومی روّیے میں تشّدد، اخلاقی گراوٹ، اقدار کی پامالی اور بہتان طرازی کے بڑھتے ہوئے تناسب کو شّدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں تو ان منفی عوامل کی کھوج ہمیں سب سے پہلے جدید میڈیا کے دروازے پر لا کھڑا کر دیتی  ہے۔

چونکہ میں نے موضوع میں سے دو اہم چیزوں کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے تو حقیقی بحث کی طرف واپس آتے ہیں کہ وبا کے دوران میڈیا کے کیا فرائض تھے یا ہیں اور وہ کس حد تک پورے ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں میڈیا کا آگاہی کردار نہایت اہم ہے۔ میڈیا عوام کی درست معلومات تک رسائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ آج کی جدید دنیا میں لوگوں کے پاس معلومات کے بے شمار وسائل دستیاب ہیں۔روایتی میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا اب پوری دنیا سے تازہ ترین خبریں آپ کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ مگر خبر کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنا یقیناً ایک انتہائی مشکل سنگِ میل ثابت ہو رہا ہے۔ وبائی صورتحال میں افواہوں ،مفروضوں ، فیک نیوز یا غلط معلومات کا سامنے آنا صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتا ہے اور ہم نے دیکھا کہ یہ پچھلے کچھ عرصے میں ہوتا بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے فیک نیوز کی روک تھام کے لیے مصروف عمل ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ حقائق کو فروغ دیا جائے اور غلط معلومات کو فوری “فلٹر آؤٹ” کیا جائے۔

حقائق کے تناظر میں کرونا وبا عالمی میڈیا کا بھی ایک کڑا امتحان ہے۔ میڈیا تاریخ کو ریکارڈ کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سےمیڈیا اداروں کی جانب سے ہائی ریٹنگ کے چکر میں ایسی معلومات بھی سامنے آتی ہیں جن کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ کورونا وائرس کے حوالے سے ایک جانب مریضوں کی تعداد میں اضافے اور اموات سنسنی خیز خبر بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔ مگر اس کے برعکس صحت یابی کی شرح یا پھر دیگر مثبت خبروں کی اُس طرح پذیرائی نہیں کی جاتی جو حق ہے۔ اور معاشرے کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب ہو سکتی ہے۔ میڈیا عوام میں آگاہی کو فروغ دے سکتا ہے کہ خود کو اپنے گھروں تک محدود رکھنے سے کیسے وائرس سے خود کو اور دیگر لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے،ہاتھوں کو دھونے یا جسمانی صفائی کی کیا اہمیت ہے۔

چین نے اگر کورونا وائرس کے خلاف کامیابیاں سمیٹی ہیں تو اس میں چینی میڈیا کا بھی ایک کلیدی کردار رہا ہے۔چینی میڈیا نے نہ تو سنسنی پھیلائی اور نہ ہی عوام کو مایوس کیا بلکہ شفافیت ،غیر جانبداری اور حقائق کے تحت بروقت تمام لازمی امور سے عوام کو آگاہ رکھا۔چینی میڈیا نے ایسے تمام افراد کو ہیروز کے طور پر پیش کیا جو انسداد وبا کی کوششوں میں مصروف رہے جن میں طبی عملے سمیت امدادی کارکنوں کا تذکرہ قابل ذکر ہے۔اسی باعث عوام کے مورال میں بھی اضافہ ہوا اور آگاہی کے فروغ سے انہیں وائرس کی تباہ کاریوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں مدد ملی۔ اگر مغربی میڈیا کی بات کریں تو چند اداروں کی توجہ کا نکتہ آج بھی وائرس کا ماخذ اور سازشی نظریات پر بات کرنا ہے۔اس سے قطع نظر کہ وائرس سے متعلق سائنسدان اور ماہرین ہی حتمی رائے دے سکتے ہیں ،میڈیا ادارے بھی وائرس کو “سیاسی رنگ” دینے میں بھرپور مصروف ہیں۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ مغربی معاشروں میں ایشیائی باشندوں کے خلاف امتیازی سلوک کے کئی واقعات سامنے آئے اور دوسرا کئی ممالک کی ساکھ کو بھی منفی رپورٹنگ کے باعث نقصان پہنچا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عالمگیر وبا کی روک تھام میں جہاں ہم عالمی ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون پر زور دیتے ہیں وہاں دوسری جانب میڈیا اداروں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور وبا کے خلاف جنگ میں صحت عامہ کے تحفظ سے اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں میڈیا انسانیت کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے اپنے آگاہی کردار سے انتہائی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جب عوام متحد ہوں گے تو کسی بھی چیز کا حصول دشوار نہیں ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف بھی فتح کے حصول کے لیے پوری دنیا کو ایک متفقہ لائحہ عمل اپنانا ہو گا، آپسی سیاسی اختلافات اور الزام تراشی کی مزید گنجائش نہیں ہے۔ عالمگیر وبا کو شکست دینے کے لیے عالمگیر تعاون بنیاد ہے۔اگر وائرس بناء کسی تمیز اور تفریق کے امیرغریب،چھوٹے بڑے ، ہر ایک کو نشانہ بنا رہا ہے تو ایسے دشمن کے خلاف جیت کے لیے انسانیت بھی بناء کسی تمیز کے یکساں اور مشترکہ ردعمل کا مظاہرہ کرے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply