سو شل مِیڈیا پر یہ بحث چل رہی تھی کہ منٹُو کے افسانے فُحش ہیں۔ چند ایک اِس رائے کے حق میں، اور چند مُخالفت میں دلائل دے رہے تھے۔ میری بیوی جَل کر بولی، ”ایک منٹ کے لیے اِس فیس بُک کو چھوڑیں، اور میری بات سُنیں۔“
مَیں نے لکھا: ”جنہوں نے منٹُو کو پڑھا بھی نہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ منٹُو فُحش ہے۔“
”ظفر! میں آپ سے کچھ کَہہ رہی ہوں۔“ زوجہ کو شاید کوئی ضروری بات کرنا تھی۔
”ہاں بولو، مَیں سُن رہا ہوں۔“
”بچوں کی وَین والا، پیسے بڑھانے کی بات کر رہا ہے۔“
ایک خاتُون نے اِس بحث میں حصہ لیتے لکھا: ”منٹُو اِتنا بھی فُحش نہیں، اُس پر یہ الزام بالکل غلَط ہے۔ آپ میرا افسانہ مَلمَل کی کُرتی پڑھیے۔ منٹُو تو کُچھ بھی نہیں، جو مَیں نے لکھ دِیا ہے۔“
ساتھ ہی خاتُون نے اُس بے کار کہانی کا لِنک پیسٹ کر دیا۔ پھِر اگلے دَس پندرہ کمنٹس اُس کی ”مَلمَل کی کُرتی“ اُدھیڑنے والوں کے تھے۔
”آپ فیس بُک کو چھوڑیں گے یا نہیں؟ آپ دو منٹ کے لیے میری بات تو سُن لیں۔“
مَیں تھوڑا جھنجھلایا۔ ”سُن تو رہا ہوں، آگے بھی تو بولو۔“
”اُف خُدایا! مَیں اپنی بات پوری کر چُکی۔ اب آپ بتائیے، وَین والے کو کیا کہنا ہے؟“
”وَین والے کو کیا کہنا ہے؟“ میرا دھیان سیل فون کی سکرین پہ تھا۔
اِس دوران میں ایک فیس بُک فورم کا ایڈمن، اِن باکس میں آ ٹپکا کہ اُس کے فورم پر بھی تھوڑی نظرِ کرم کر لِیا کروں۔ اَخلاقی طور پہ یہ بُری بات ہوتی، اگر مَیں اُس کی معصُومانہ خواہش رَد کر دیتا۔ اُس فورم پرجدید شاعری اور تنقیدی مُحرکات جیسے ثقیل موضُوع پر مُکالمہ ہو رہا تھا۔ ایک شاعر دوست کو اِن باکس پیغام بھیجا، موضُوع کے اعتبار سے کُچھ نُکتے سمجھا دیے، تا کِہ سیر حاصِل بحث کی جا سکے۔
”کھانا تیار ہے، پہلے کھانا کھا لیں۔ یہ فیس بُک اِدھر ہی ہے۔“
ہر منکوحہ کا مسئلہ یہ ہے،کہ وہ خاوند کو کبھی خُوش نہیں دیکھ سکتی۔ لہذا مَیں نے تکرار سے بچنے کے لیے کَہہ دِیا، ”لے آؤ کھا لیتا ہوں۔“
ایک صاحب نے میری ایک پوسٹ پر بے جا تنقید کی تھی۔ اُس کو جواب دینا بہت ضروری تھا۔ مَیں نے تھوڑا چبھتا نوٹ لکھا۔ مقصد یہ تھاکہ میرا تبصرہ پڑھ کر اُسے مِرچی لگے۔ یہی ہوا۔ وہ مشرق کی مثال دیتا، مَیں مغرب کو نِکل جاتا۔ ٹرولنگ کا اپنا مزہ ہے۔ ایسے میں میرے لَبوں پر بڑی حسِین مُسکراہٹ چھا گئی، جسے بے تکلُف دوست شیطانی مُسکراہٹ سے تعبیر کرتے ہیں۔
”کھانا ٹھنڈا ہو چُکا۔“
بیگم کی آواز سُن کر مَیں نے نِگہ اُٹھائی، تو دیکھا۔ وہ بغور مُجھے تَکے جاتی تھی۔ مجھے یقین تھا، میری مُسکراہٹ کا کچھ اور مطلب لے رہی ہو گی۔ شاید یہ کہ مَیں کسی لڑکی سے چَیٹ کر رہا ہوں۔ مَیں نے لہجے میں حلاوت اُنڈیلتے ہوئے صفائی پیش کی۔
”ایک فورم پر لِٹریری ڈِبیٹ ہو رہی ہے، وہاں۔۔۔“
”ہاں ہاں! مَیں جانتی ہوں۔ مَیں آپ کو نہیں جانوں گی، تو اورکون جانے گا!“
مَیں نے اُس کا طَنز پی کر محبَت سے پُوچھا، ”اچھا! تو جانِ من، تُم کیا کَہہ رہی تھیں؟“
”کب؟“ بَنو نے اَن جان بننے کی اَداکاری کرتے ہوئے پُوچھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے، وہ وَین والے کی بات کر رہی تھیں ناں؟“ مَیں نے یاد دِلانے کی کوشش کی۔
”وہ تو شام کی بات ہے۔“
کیسے کیسے جھُوٹ بولتی ہیں، یہ بیویاں۔ تھوڑی دیر پہلے کہی بات کو شام کی بات کر دیا۔
”اچھا چلو! جب کی بھی بات ہے، وہ کیا بات تھی کہ وَین والا کرایہ بڑھانے کا مُطالبہ کر رہا ہے؟ اور کیوں بھئی؟“
میرے بچوں کی ماں کچھ کہنے لگی تو چھوٹی بیٹی، بھائی کی شکایت لے کر آ گئی۔ اُدھر فیس بُک پہ مُطرِبہ کا اِن باکس پیغام آ گیا۔ مُطرِبہ کو بھی مَیں اُس وقت ہی یاد آتا ہوں، جب میری زوجہ عین میرے سر پر سوار ہوتی ہے۔ ماں کا دھیان بیٹی پر تھا۔ یہ موقع غنیمت جان کر مَیں نے جلدی سے ٹائپ کیا: ”ویٹ۔“
یہ بے وقوف لڑکیاں سچو یشن کو سمجھنے سے قاصِر ہوتی ہیں۔ جب رُکنے کو کہا، تو ذرا ٹھہر جاؤ بھئی۔۔ لیکن نہیں، مُطرِبہ نے لکھا: ”کیا وائف سَر پہ کھڑی ہے؟“
مَیں نے بظاہر گھر والی کو مُسکرا کے دیکھتے ہوئے ٹائپ کیا: ”مَیں کھانا کھا رہا ہوں۔“
ننھی شکایت لگا کے جا چُکی تھی۔ ”ہاں اب بتاؤ بھی کہ وَین والے کا کیا مُعاملہ ہے۔ اِس کے علاوہ اور کیا ضروری بات ہے؟“ مَیں نے مُطرِبہ سے بچنے کے لیے فیس بُک کو لاگ آف کِیا۔
محترمہ نے بیزاری سے کہا، ”آپ کھانا کھائیے،کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ بتائیں، چائے ابھی لے آؤں، یا ٹھہر کے پئیں گے؟“
”چائے بھی لے آؤ ، لیکن اِس سے پہلے یہ بتاؤ، تُم نے مُجھے زِچ کرنے کے لیے وَین والی بات گھڑ لی تھی؟ جب دیکھ رہی ہو، مَیں بِزی ہوں، ضرور تنگ کرنے کا کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے؟“
وہ جاتے جاتے ٹھہر گئی۔ غُصے سے مُجھے دیکھتے ہوئے اِطلاع دی، ”وَین والا کل سے نہیں آئے گا۔ صُبح جلدی اُٹھیے گا اور بچوں کو سکول چھوڑکر آئیے گا۔“
اُس کے غُصے کے جواب میں، مَیں ہنس پڑا۔ داناؤں کا قول ہے کہ میاں بیوی میں سے ایک، غُصے میں ہو، تو فریقِ ثانی کو تحمل سے کام لینا چاہیے۔ ”کیوں وَین والے کو کیوں روکا؟ اگر کرایہ بڑھانے کی بات تھی، تو بڑھا دیتیں۔ منہگائی بھی تو بہت ہو گئی ہے۔۔۔۔ اور سُنو! یہ منہگائی‘ کو اکثر لوگ ’مہنگائی‘ کَہہ دیتے ہیں، اور لکھتے ہیں، یہ غلط ہے۔“
”ظفر! میرے پاس اِتنا دماغ نہیں ہےکہ آپ پہ خرچ کروں۔“
”کیوں جی؟ ایک تو تُمھارے عِلم میں اضافہ کر رہا ہوں، اور تُم ہو کِہ۔۔۔۔“
”آپ کی بڑی مہر بانی۔۔۔ مُجھے آپ جاہل ہی رہنے دیں۔“
اَب مُجھے غُصہ آ گیا۔ ”اگر مَیں پانچ دس منٹ کے لیے انٹر نیٹ پہ تھا، تو اِس میں ایسے ری ایکٹ کرنے کی کیا بات تھی؟ میرا کام ہی ایسا ہے، مُجھے معلُومات کے لیے سوشل مِیڈیا کی مدد چاہیے ہوتی ہے۔“
”پانچ دس منٹ؟“ شِری مَتی نے ایسے آنکھیں پھاڑ کر اِستِفسار کیا، جیسے مَیں ایک گھنٹے سے مصروف تھا۔
”تو اور کیا؟ زیادہ سے زیادہ آدھا گھَنٹہ۔“
”آپ نے گھڑی دیکھی ہے؟“
”ہاں! کئی بار دیکھی ہے۔ گھڑی دیکھنے کے کیا مَعنی؟“
”آپ شام پانچ بجے سے نیٹ پر ہیں۔“
”پانچ بجے سے نہیں، ساڑھے پانچ یا پونے چھ کی بات ہے۔۔۔ تو؟“
”تو؟۔۔۔ تو اِس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔“
مَیں نے اُس کا دعویٰ جھُٹلانے کے لیے وال کلاک پہ نظر کی۔ وہ مُدعی کو سچا بتا رہا تھا۔
”یہ گھڑی ٹھیک ہے؟“
”جی ٹھیک ہے۔ آپ نے چھ گھَنٹوں میں پانچ دس گھڑیاں ہی ہمارے ساتھ گُزاری ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔“ میری نِصف بِہتَر گلو گیر لہجے میں یہ کَہہ کر چلی گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں