کرونا کا رونا۔۔ولائیت حسین اعوان

میں یہ تحریر اپنے شفیق دوست محترم نوید تاج غوری صاحب کے حکم پر لکھ رہا ہوں اس امید پر کہ شاید اس تحریر سے 2 بندے بھی کرونا جیسی موذی بیماری کو سنجیدہ لے لیں تو 2000 کا بھلا ہو جائے گا۔یہ تحریر،، بلکہ ذاتی معلومات اور مشاہدہ خصوصی طور پر ان کے لیے ہے جو تدبیر ،سبب ا،حتیاط کو چھوڑ کر فقط زبانی توکل کا فلسفہ دہراتے ہیں۔جو مشورہ نصیحت ماننےکے بجائے ہٹ دھرمی ضد اور مذاق پر قائم ہیں۔چونکہ میں خود سپین میں بیٹھا ہوں اس لیے پاکستان میں رہنے والے کسی بھی شخص سے زیادہ بہتر آنکھوں دیکھے حالات مشاہدات آپ کے گوش گزار کر کے آپکی سوچ کے دریچےکچھ کھولنے کی کوشش کر سکتا ہوں۔

فروری کے آخری ہفتہ میں اٹلی کے ایک صوبہ میں کرونا کی وجہ سے ایمرجنسی کا نفاذ ہوا، جس کا دائرہ دو ہفتے میں پورے ملک میں پھیل گیا۔

اس وقت تک کرونا وائرس کے متاثرین کے صرف 15 کیسز سامنے آئے تھے جو ایک مہینہ کے اندر 20 مارچ 2020 تک بڑھتے بڑھتے 41000 اکتالیس ہزار تک پہنچ گئے۔23 فروری تک صرف ایک شخص کی کرونا سے ہلاکت کی اطلاع تھی جو 20 مارچ تک بڑھتے بڑھتے 3400 تک پہنچ گئی۔

ایک ماہ میں اس قدر خوفناک اضافہ عوام اور حکومت کو ہلا کر رکھ گیا۔حکومت اس وقت کرونا کے سامنے مکمل بے بس ہے۔یہ سب اضافہ ایمرجنسی کے نفاذ ،مکمل لاک ڈاؤن اور لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پابندیوں اور صحت سے متعلق بے شمار حفاظتی اتنظامات کے بعد ہوا۔ساتھ لوگ خود بھی بہت محتاط اور حکومت کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ایک ماہ سے بچے گھر سے باہر نکل کر سورج تک دیکھنے سے قاصر ہیں۔ایک قید کی کیفیت ہے ،پورے ملک میں فیکٹریاں جو کہ معاشی مجبوریوں کی بِنا پر پرسوں تک کھلی تھیں وہ بھی اب بند ہونا شروع ہو چکی ہیں۔

اٹلی میں کل صرف ایک دن میں 450 اموات ہوئی ہیں۔۔۔۔یہی حالت سپین کی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اٹلی کے حالات کو دیکھتے  ہوئے بروقت حفاظتی اقدامات کیے جاتے، لیکن اپنے ملک پاکستان کی طرع یہاں بھی کچھ تاخیر سے حکومت نے انگڑائی لی۔

13 مارچ کو سپین میں ایمرجنسی کا اعلان ہوا۔سکول کالجز یونیورسٹی بند ہوئیں۔ہفتہ سے تمام کمرشل سنٹر دکانیں ریسٹورینٹس بار کیفے ٹیریا پارکس بند ہونا شروع ہو گئے۔اس دن سپین میں کرونا سے متاثر لوگوں کی تعداد 4200 کے قریب تھی جو 7 دنوں بعد 20 مارچ کو 17000 تک پہنچ گئی۔اس دن اموات کی تعداد 120 تھی تو 7 دن بعد اموات کی تعداد 850 ہو گئی ہے۔اور یہ بھی مکمل طور پر لاک ڈاؤن کے بعد۔اور سماجی میل ملاقات میں نہائیت احتیاط برتنے کے بعد۔اس وقت 80 فیصد دفاتر بند ہیں بہت ضروری کام گھروں سے آن لائین سر انجام دئیے جا رہے ہیں۔فوج اس وقت پورے ملک میں سول انتظامیہ کا ساتھ دے رہی ہے۔

سپین میں اس وقت Estado de Alarma مطلب ایمرجنسی یا لاک ڈاؤن ہے۔اس کی مختصر تصویر یہ ہے کہ۔۔

ماسوائے جنرل سٹورز فارمیسی گوشت سبزی فروٹ کی دکانوں کے سب دکانیں بند ہیں،سب کمرشل سنٹرز بند۔۔ٹرانسپورٹ 50 فیصد تک چل رہی ہے۔ہر سرکاری دفتر میں پبلک ڈیلنگ بند ہو چکی ہے۔کارڈ لائسنس پاسپورٹ کی تجدید کرانے کے لیے  بھی لوگوں کو ایمرجنسی ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا،ریسٹورینٹس مکمل بند ہیں۔صرف وہ کام کر رہے ہیں جن کی ہوم ڈلیوری ہے۔

بہت کم جگہ کام ہو رہا ہے۔لیکن بہت محتاط ہو کر۔۔ایک میٹر کا فاصلہ اور ماسک دستانے اور ہاتھوں کی بار بار صفائی کا خاص رکھتے ہوئے کام کیا جارہا ہے۔جس سٹور پر ایک وقت میں 100 بندہ خریداری کر رہا ہوتا تھا، اب وہاں پانچ پانچ سات سات بندوں کو باری باری داخل کیا جاتا ہے۔اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے کے پاس پڑے سینیٹائزرز کا استعمال ہر گاہک کے لیے  لازمی ہے۔ہر سیل مین ماسک دستانے استعمال کر کے پبلک ڈیلنگ کر رہا ہے۔ایک شخص دوسرے شخص کے پیچھے ایک میٹر سے زائد فاصلہ پر اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔گھر جا کر ہر شخص صابن سے بار بار ہاتھ دھو رہا ہے۔پینے کے لیے گرم پانی کا استعمال کیا جارہا ہے۔

بس میں ڈرائیور اور مسافروں کا فاصلہ 2 میٹر سے زائد کر دیا گیا ہے۔پہلے لوگ ڈرائیور والی سائیڈ مطلب فرنٹ دروازے سے داخل ہوتے تھے اور بیک سے اترتے تھے اب پچھلے دروازے سے ہی سوار بھی ہوتے ہیں۔سیٹ پر بھی مسافر ایک دوسرے سے فاصلے پر بیٹھتے ہیں۔

گھر سے ماسوائے بہت مجبوری کے باہر نکلنے پر پابندی ہے اور باہر نکلنے کی ٹھوس وجہ فراہم نہ کرنے والے کو فوری بھاری جرمانہ کیا جا رہا ہے۔مصافحہ بغل گیر ہونا مکمل ختم۔(ماسوائے ہم پاکستانیوں کے)حتی کہ “جوڑے” بھی پبلک پرائیویٹ جگہوں پر ایک دوسرے سے “ناراضی” والی کیفیت میں ہیں۔

لوگ خوفزدہ نہ پہلے تھے نہ اب ہیں۔حکومت کے اعلان سے پہلے چائنہ اٹلی کی صورت حال کا علم ہونے کے باوجود سپین والے بے خوف گھوم پھر رہے تھے۔لیکن مہذب اقوام کی طرح سپین والے بھی حکومت کی ہر ہدایت حکم پر عمل کرنا اور اس کے ساتھ تعاون کرنا اپنی اخلاقی قومی معاشرتی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

اس وقت کرونا پورے یورپ کے ساتھ ساتھ پوری  دنیا میں پھیل چکا ہے  اور یقین مانیں کہ احتیاط اور اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کے علاوہ پوری دنیا  کے پاس اس کا کوئی دوسرا علاج نہیں۔

اتنا  سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ چائنا میں وائرس پھیلتے ساتھ ہی یہ حکومتیں جاگ جاتیں تو شاید آج اتنے بُرے حالات نہ ہوتے اور یہی بات پاکستان کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے کہ کم از کم 10 دن پہلے احتیاطی تدابیر بشمول پی ایس ایل میچز پر پابندی،دفاتر ہوٹل ریسٹورینٹس  میں حفاظتی تدابیر پبلک  کی سرگرمیاں محدود اور  سماجی تقریبات پر پابندی کا خیال رکھا جاتا تو اس وقت افراتفری کی صورت حال نہ ہوتی۔

دکھ ہوتا ہے آج بھی سوشل میڈیا پر مختلف پریس کانفرنسز میں لوگوں کو ہجوم کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹا دیکھ رہا ہوں۔بسوں ویگنوں میں لوگ جوق در جوق سفر کر ہے ہیں۔کل جمعہ کے اجتماعات کا بھی پڑھ رہا ہوں کہ مختلف مساجد میں نماز جمعہ ادا کی جائے گی۔شادیاں بھی دھوم دھام سے جاری ہیں۔اور حد یہ ہے کہ کرونا کے سلسلے میں دی گئیں چھٹیوں  پر نوجوان طبقہ خوشیاں مناتے سڑکوں پر کرونا کے حق میں نعرے لگا رہا ہے۔حد ہو گئی ہے۔

آج بھی چائنا سے ایک عزیز دوست محترم سہیل اسد صاحب پاکستانیوں کے بارے میں یہی رونا رو رہے تھے کہ ان کی لاپرواہی غیر سنجیدگی بے احتیاطی اور حکومت سے عدم تعاون ہم سمندر پار پاکستانیوں کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔خدا کے لیے اپنا اور اپنے بچوں کا احساس کریں۔اپنے آس پاس رہنے والے انسانوں کا سوچیے۔آپکی ذرا سی لاپرواہی بے احتیاطی شاید آپ کی قوت مدافت بھرپور ہونے کی بنا پر آپ کو نقصان نہ پہنچائےلیکن آپ کے آس پاس رہنے والوں کی زندگی خطرے سے دوچار کر دے گی۔خدا کے لیے ایک مہینہ گھروں میں رہیں۔نمازیں گھروں میں ادا کریں۔سماجی تقریبات کا بائیکاٹ کریں۔سفر سے گریز کریں۔ایک دوسرے سے فاصلے پر رہیں ۔ورنہ تیار رہیں اور اٹلی سپین کے اعداد و شمار  ذہن میں رکھیں۔اگر آپکی غیر سنجیدگی جاری رہی تو اللہ نہ کرے کہ آج کے ہزار کیسز مہینے  میں      لاکھ تک نہ پہنچ جائیں۔

حکومتی احکامات پر عمل کریں کیونکہ جب جنگی حالات ہوتے ہیں تو سٹیٹ کا حکم چلتا ہے نہ کہ “میری مرضی”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دعا ہے کہ اللہ پاک تمام دنیا میں جلد اس وائرس کا خاتمہ فرمائے۔اور سب کو اپنی عطا سے جو علم فہم عطا کیا ہے حضرت  انسان اس کو استعمال کر کے اپنی فلاح کر سکے۔

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply