موت کے گہرے ہوتے سائے۔۔ذیشان نور خلجی

مرحوم کا نام محمد اسلم تھا۔ بہت پیارے اور شفیق طبعیت آدمی تھے۔ ہم لوگوں کی طرح یہ کورونا کو کوئی سازش نہیں سمجھتے تھے بلکہ دوسری بہت سی بیماریوں کی طرح ایک وائرل مرض ہی سمجھتے تھے۔ شاید اسی لئے سختی سے ایس او پیز پر بھی عمل کرتے تھے۔ پچھلے دنوں کی بات ہے اچانک انہیں بخار نے گھیر لیا اور پھر ساتھ ہی ان کا گلہ اور پیٹ بھی خراب ہو گیا۔ فیملی فزیشن سے چیک اپ کروانے کے بعد معلوم ہوا کہ انہیں ایک وبائی بخار ہوا ہے جو کہ دوائی لینے اور آرام کرنے سے دور ہو جائے گا۔ لیکن پھر چند دن کی علالت کے بعد یہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بہت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھے چنانچہ پورا شہر ہی جنازے پر امڈ آیا۔
صاحبو ! یہ صرف ایک میری ہی کہانی نہیں ہے بلکہ ان دنوں ہر دوسرا شخص ایسے ہی کسی مرحوم اسلم صاحب کو جانتا ہے جو کورونا وائرس کا شکار تو نہیں ہوئے تھے لیکن پھر ایک عام سے بخار کا سامنا کرنے کے چند دن بعد ہی زندگی کی بازی ہار گئے۔
تھوڑی سے کھوج کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک عرصہ سے اسلم صاحب کسی میجر مرض کا شکار تھے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ لیں کہ انہیں دل کی تکلیف تھی اور پھر ان کی موت بھی دراصل حرکت قلب بند ہونے سے ہی ہوئی۔
قارئین ! اگر خدا خدا کر کے کفر ٹوٹ ہی چکا ہے اور ہم لوگ پوسٹ کورونا سے ٹروتھ کورونا کی جانب قدم بڑھا ہی چکے ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی مان لینا ہو گا کہ کورونا وائرس دراصل مریض کے کمزور مدافعتی نظام پر حملہ کر کے اسے مزید کمزور کر دیتا ہے۔ اور پھر متاثرہ شخص کرونا سے مرے نہ مرے لیکن اپنے میجر مرض کے ہاتھوں چل بستا ہے۔ اور بالواسطہ طور پر ہی سہی، لیکن اس کی موت کا سبب کورونا ہی بنتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنی بات پر بضد ہی ہیں کہ ایسی اموات میں کورونا کا کوئی عمل دخل نہیں۔ تو پھر ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ چند نجی اداروں کو چھوڑ کر، حکومت یہ اعلان کر چکی ہے کہ پاکستان میں ٹیسٹنگ کٹس ختم ہو چکی ہیں۔ تو پھر ہم یہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ مرحوم کو سرے سے کورونا تھا ہی نہیں؟ اور کیا ہم اس حقیقت کو بھی جھٹلائیں گے کہ ان دنوں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جاننے والے پانچ چھ افراد موت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ کیا ہمارے قرب و جوار میں موت کی شرح غیر معمولی حد تک بڑھ نہیں گئی؟ تو پھر دوستو ہمیں ماننا ہوگا کہ بالواسطہ طور پر ہی سہی، لیکن درحقیقت ہمارے پیارے کورونا ہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور پھر ہمیں چاہئیے کہ حالات کی سنگینی کو سمجھیں کہ وہ خطرہ جو عید سے قبل ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا، اب ہماری شہ رگوں تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن ہم اب بھی احتیاط کا دامن تھام کر اس آفت کو چند لوگوں تک محدود کر کے اپنی جان بچا سکتے ہیں۔
ہم فرض بھی کر لیں کہ اسلم صاحب کرونا سے فوت نہیں ہوئے۔ لیکن ان کے جنازہ میں، کہ جہاں کسی قسم کے ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جاتا اور سوشل ڈسٹنسنگ کی یہ صورتحال ہوتی ہے کہ لوگ لواحقین کو ایسے زور زور سے جپھے ڈالتے ہیں کہ خوش قمستی سے اگر انہیں یا مقابل کو ابھی تک کورونا نہیں بھی ہوا تو بھی اب لازمی ہو جائے، ہم یہ کیسے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی کورونا کا کیرئیر نہیں ہو گا؟
میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہم جنازوں میں شریک نہ ہوں کہ ہمارا معاشرہ ایسی مذہبی روایات کا امین ہے۔ لیکن کیا ہم وہاں احتیاط سے کام نہیں لے سکتے؟ اور ویسے بھی ٹیسٹنگ کٹس تو ختم ہو چکیں۔ ایک آدھ دن میں ہسپتال بھی ہاؤس فل کے بورڈ آویزاں کر دیں گے تو پھر اب یہ ذمہ داری خود ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے کہ کیسے احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم خود کو اور اپنے پیاروں کو اس آفت سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments