سب سے بڑا مسئلہ/مظہر اقبال کھوکھر

تقرر ، تبادلے اور تعیناتیاں کسی بھی ریاست میں معمول کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ کیونکہ جہاں آئین اور قانون کی بالا دستی ہو، وہاں پورا سسٹم ایک خاص میكنزم کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سرکاری ملازمین کے تقرر و تبادلے اس سسٹم کے تحت بغیر کسی رکاوٹ اور حیل و حجت روبہ عمل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سب کچھ آئین اور قانون کے تحت چل رہا ہوتا ہے تو میرٹ کی بالا دستی یقینی ہوتی ہے اور پھر ادارے بھی مستحکم ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ریاست کس حد تک مضبوط ہے ، جمہوریت میں کس حد تک جمہوریت ہے ، ادارے کتنے مستحکم ہیں ، آئین اور قانون کی بالا دستی کہاں تک ہے اور میرٹ کی حقیقت کیا ہے ؟

اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ یوں تو پاکستان میں رہنے والا کوئی بھی شخص اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ یا پھر اگر آپ سرکاری ملازم ہیں یا آپ کا کوئی رشتہ دار  ملازم ہے تو سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ملازم کی بھرتی سے لیکر تبادلوں تک سیاستدانوں سے لیکر اعلیٰ  افسران تک کس طرح ہر کوئی اپنا اپنا حصّہ وصول کرتا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا پورا سیاسی ڈھانچہ تقرریوں اور تبادلوں پر کھڑا ہے۔ ایم پی اے ، ایم این اے سے لیکر مشیروں ، وزیروں تک اور گورنر ، وزرائے اعلیٰ  سے لیکر وزیر اعظم تک سب با اختیار ہونے کے بعد پہلا اختیار یہی استعمال کرتے ہیں کہ ہر جگہ اپنے من پسند لوگوں کو تعینات کرتے ہیں اور مخالفین کو کالا پانی کے علاقے میں بھیج دیتے ہیں۔

ہمارے ممبران اسمبلی کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ لاہور ، اسلام آباد میں ان کا سب سے بڑا مسئلہ پٹواری اور تھانیدار کا تبادلہ ہوتا ہے۔ گو کہ ان کے سكیل کم ہیں ، مگر اختیارات کے حوالے سے یہ دونوں ملازم بہت طاقتور ہیں۔ اس لیے ممبران اسمبلی ان کے ذریعے اپنی طاقت بڑھاتے اور پھر اس طاقت کو مخالفین کے خلاف اور اپنے حامیوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کسی محکمے میں اگر سیٹیں آجائیں تو سیاست کا ایک منظم نیٹ  ورک متحرک ہوجاتا ہے یعنی ان سیٹوں پر مال بھی بنایا جاتا ہے اور سیاست بھی چمکائی جاتی ہے۔ ہر بندہ اس بات سے واقف ہے جب بھی کسی محکمے میں سیٹیں آتی ہیں اور ٹیسٹ یا انٹرویو کا مرحلہ در پیش ہوتا ہے تو ہر شخص یہی کہتا نظر آتا ہے کہ سیٹیں تو فروخت ہو چکی ہیں۔ معاملات تو طے ہو چکے ہیں عوام کو محض بیوقوف بنایا جارہا ہے۔
سرکاری ملازمین ریاستی مشینری کے پرزے ہوتے ہیں جو کہ پوری ریاست کو چلاتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازمین میرٹ ، اہلیت اور كاركردگی کی بنیاد پر آگے آئیں تو ریاست بہتر انداز میں کام کر سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ رشوت ، سفارش اور پسند و نا پسند کے تحت آئیں گے تو ریاست کی کارکردگی کبھی بھی بہتر نہیں ہوسکتی۔ آج ریاست کی زبوں حالی کی ایک وجہ یہی ہے کہ ہمیشہ میرٹ کو پامال کر کے پسند و نا پسند کو ترجیح دی جاتی ہے۔ درجہ چہارم سے لیکر 22 ویں گریڈ تک ہر سیاستدان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا بندہ تعینات کرے ،اسی پسند و نا پسند نے ہمیشہ اداروں کو کمزور کیا۔ مگر پاکستان کی تاریخ اس طرح کے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کے نتائج نے ملک سنگین صورتحال سے دو چار کیا۔

آرمی چیف یقیناً بہت بڑا عہدہ ہے۔ طاقت اختیار اور دفاع کے حوالے سے كلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ لیکن اگر سب کچھ رولز اینڈ لاء کے تحت ہورہا ہو اور سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتی ہورہی ہو تو آرمی چیف کی تعیناتی ایک معمول کی کارروائی سے بڑھ کر نہیں۔ مگر ماضی کی روایت یہی ہے کہ ہمیشہ پسند و نا پسند کو سامنے رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے آرمی چیف کی تعیناتی کے دوران پچھلے کئی ہفتوں تک ملک ہیجان کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ملک کے تمام مسائل ختم ہوگئے ہیں۔ بھوک ، غربت بے روزگاری ختم ہوگئی ہے، مہنگائی کا نام و نشان نہیں رہا ، ڈالر اوقات میں آگیا ہے ، معیشت تندرست و توانا ہوگئی ہے، عوام خوشحال ہوگئے ہیں بس آرمی چیف کی تعیناتی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر اپنی اپنی پسند کے نام شیئر کئے جارہے تھے۔ تجزیے اور تبصرے کئے جارہے تھے۔ بہر حال اچھا ہوا کہ حکومت نے پہلی بار سینئر ترین جرنیل کو آرمی چیف تعینات کر دیا اور صدر مملكت نے بھی فوری طور پر سمری پر دستخط کر دیے جس سے تمام تر افواہیں اور چہ میگوئیاں دم توڑ گئیں۔ کیا ہی بہتر ہو اگر تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے آئین میں ترمیم کر کے ہر تین سال بعد پیدا ہونے والی ایسی صورتحال کا خاتمہ کر لیں تاکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح سینئر جرنیل خود بخود آرمی چیف بن جائے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ذاتی پسند و نا پسند شامل نہ ہو تو کسی بھی ریاست میں تقرریاں اور تبادلے معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply