سن 1947ء سے لے کر آج تک ہندوستان میں 5800 سے زیادہ مذہبی دنگے ہو چکے ہیں،جن میں زیادہ تر جانی نقصان مسلمانوں کا ہی ہوا،صرف سن 1984 ء میں دہلی میں ہونے والے قتل عام میں مسلمانوں سے ہٹ کر سکھوں کو نشانہ بنایا گیا،جب 3000 کے قریب سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اس کے بعد شدت کے لحاظ سے بدترین سن 2000 ء کا گجرات کا قتل عام تھا، جس میں اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ مودی کی سربراہی میں 2000 سے زیادہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔
حالیہ دہلی کے فسادات بھی مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات کا تسلسل ہیں۔
مشہور بھارتی شاعر اور ادیب جاوید اختر مسلمان نہیں، بلکہ ایک ملحد ہیں،یعنی کسی بھی دین، مذہب یا دھرم پر یقین نہیں رکھتے، پھر بھی ان کی بیگم مشہور فلم سٹار شبانہ اعظمی ماضی میں یہ شکایت کرتی پائی گئیں کہ آج بھی ممبئی کے پوش علاقوں میں محض کسی کو نام کا مسلمان ہونے کی وجہ سے بھی نہ تو کوئی مکان کرایے پر دیتا ہے،اور نہ ہی کوئی مکان کسی مسلمان کو بیچتا ہے۔جاوید اختر بھلے آدمی ہیں،سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں،پھر بھی مختار عباس نقوی اور علمائے دیوبند سے تو بہتر ہیں ،جو بی جے پی کا جھنڈا سینے سے لگائے پھرتے ہیں ،پھر بھی دیش کے ‘گدار'(غدار) مانے جاتے ہیں۔یہی حال بالی ووڈ خانز کا بھی ہے۔سلمان خان،ارباز خان اور سہیل خان اپنی ہندو ننھیال پر فخر کرتے ہیں،تو شاہ رخ خان نے تو اپنی ہندو بیوی کی دلجوئی کے لئے گھر کے اندر مندر بھی بنا رکھا ہے،اس سب کے باوجود وہ کٹر ہندوتوا سوچ کے حامل ہندوؤں کو قبول نہیں،کچھ دن قبل وہ بھی یہ شکوہ کرتے پائے گئے،یہاں بچوں کے نام مسلمانوں کی طرح کے رکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ایسا ہی کچھ احوال مشہور ہندوستانی اداکار نصیرالدین شاہ کا ہے۔ان کے بھائی اور بھتیجے ہندوستانی فوج میں خدمات سر انجام دیتے رہے،خود ایک ہندو خاتون سے شادی کر لی اولاد کی تربیت کرتے وقت مکمل خیال رکھا کہ وہ اسلامی تعلیمات سے دور رہیں۔ان کے دعوے کے مطابق ان کی اولاد کا کوئی بھی مذہب نہیں ہے،لیکن انہیں بھی خدشہ ہے کہ کسی دن ان کے بچوں کو سڑک پر روک کر (lynching )ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس وقت موصوف بھگوا ہندوؤں کے بھالوں کی نوک پر ہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی بھارت نوازی کسی تعارف کی محتاج نہیں،بلاشبہ اگر شیخ عبداللہ بھارت کے خلاف ڈٹ جاتے تو بھارت کو کشمیر پر تسلط جمانے میں بہت مشکل ہوتی۔ان کی تمام تر بھارت نوازی اور نہرو جی سے دوستی کے باوجود ساری عمر نہرو جی نے شیخ عبداللہ سے جیل کی چکی پسوائی،اور ہمیشہ انہیں شک کی نظر سے دیکھا گیا،ان کےفرزند فاروق عبداللہ اپنے پدر محترم سے بھی آگے نکل گئے،حتیٰ کہ اپنی بیٹی بھی ایک ہندو نوجوان سے بیاہ دی،پھر بھی ہمیشہ ان کی ہندوستانیت پر سوال اٹھائے جاتے رہے۔اور وہ ہندوستانی میڈیا پر ہمیشہ چیخ چیخ کر اور بپھر کر اپنے آپ کو ہندوستانی کہلوانے کی کوشش کرتے رہے۔دوسرا کٹر بھارت نواز گھرانہ مفتی محمد سعید صاحب کا تھا،ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر کشمیر میں مخلوط حکومت چلانے کی کوشش کی،لیکن بھارتی میڈیا انہیں پاکستان کی خالہ کہہ کر پکارتا رہا۔پھر بھی بھارتی مقتدرحلقوں میں انہیں کبھی قبول نہیں کیا گیا۔
بالآخر ان سب بھارت نواز لیڈروں کو دودھ میں پڑی ہوئی مکھی کی طرح نکال کر قید خانوں میں پھینک دیا گیا۔اور کشمیر کی ریاست کو مکمل طور پر ہڑپ کر لیا گیا کم وبیش ان سب لوگوں کو سماج میں موجود کٹرفرقہ پرستوں کی کارستانیوں سے شاکی ہونے،اور برے سلوک کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں پاکستان چلے جانے کی صلاح دی جاتی رہی ہے۔اور اب ایسی باتیں کرنے والے عام لوگ نہیں رہے بلکہ قومی ہیرو کے طور پر شہرت رکھنے ہندوستانی کرکٹر ویرات کوہلی تک ان آوازوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
حال ہی میں فروری کے مہینے میں ہونے والے مذہبی دنگوں،جنہیں مسلم کش فسادات کہنا زیادہ مناسب ہو گا، میں بھارتی ریاست مکمل قوت کے ساتھ فرقہ پرست ہندوؤں کی پشت پر کھڑی رہی۔دہلی پولیس ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر پتھراؤ کرتی رہی ،گولی چلاتی رہی،مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کرتی رہی،اور مسلمان نوجوانوں کو ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر ،بھارت ماتا کی جے’کےنعرے لگواتی رہی،ایسی کارروائیوں کے دوران کئی مسلمان نوجوان جان کی بازی ہار گئے۔ہسپتالوں میں کئی جگہ ڈاکٹروں نے مسلمان مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھرن جنہوں نے دہلی پولیس کو غفلت کا مرتکب قرار دیا اور پولیس کی سخت سرزنش کی ،کا راتوں رات تبادلہ کر دیا گیا۔جبکہ بھارتی میڈیا مکمل طور پر فسادی ہندوؤں کا موقف پیش کرتا رہا۔دہلی کے بجرنگ بلی فین وزیراعلیٰ کیجری وال اس سارے فساد کے دوران چین کی بانسری بجاتے رہے۔ان کے نزدیک دہلی پولیس کیونکہ وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہے،اس لیے اس سارے جھگڑے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔آج کے دن تک کسی بھی اعلیٰ ہندوستانی حکومتی رہنما بشمول وزیراخلہ و وزیراعظم اس سانحے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے نہیں سنا گیا۔
اس وقت ہندوستان میں صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ آئے روز کسی نہ کسی جگہ مسلمان نوجوان کو سڑکوں پر باندھ کر مارا جا رہا ہے،ہندو انتہا پسند عام ہندوؤں سے مسلمانوں سے کاروبار نہ کرنے اور انہیں ملازمت پر نہ رکھنے کے حلف لے رہے ہیں۔دہلی میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چالیس سے زیادہ مسلمان مارے گئے ہیں،ان کے سینکڑوں گھر،دوکانیں،مساجد اور گاڑیاں جلا دی گئی ہیں۔ابھی تک مسلمانوں کی لاشیں گندے نالوں سے برآمد ہو رہی ہیں۔اس سے پہلے صرف دو ماہ پیشتر اُتر پردیش میں مظاہروں پر قابو پانے کے نام پر ستائیس مسلمانوں کو پولیس کی طرف سے چلائی گئی گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب پڑھا لکھا ہندو بھی بہت تیزی سے ہندتوا کے نظریے کا اسیر ہوتا جا رہا ہے۔
حالانکہ سرکردہ ہندوستانی مسلمان سیاست دان ،مذہبی رہنما ،اداکار، ادیب اور دانشور پاکستان کو بڑھ چڑھ کر گالیاں دیتے ہیں ،بُرا بھلا کہتے ہیں،پھر بھی بھارتی سماج میں دیش دروہی،گدار،دیش کے دشمن،پاکستان کے ایجنٹ اور گھس بیٹھیے پکارے جاتے ہیں،حالات اب ایسے نظر آ رہے ہیں کہ اگر یہ بھارتی مسلمان اپنی مسجدوں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ہی کیوں نہ رکھ دیں، پھر بھی بھارتی اکثریتی سماج جو کہ تیزی سے ہندو کٹر واد(انتہا پسندی) کا اسیر ہو رہا ہے،انہیں قبول نہیں کرے گا۔
Facebook Comments
بہت خوب۔ یقینا وہاں صورت حال بہت ہی خطرناک ہوگئ ہے