• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سچ، یقین، گمان، ہم پر رائے زَنی ،اندرونی ڈر اور نیک آرزوئیں۔۔حسین خالد

سچ، یقین، گمان، ہم پر رائے زَنی ،اندرونی ڈر اور نیک آرزوئیں۔۔حسین خالد

چند  ابہام ذہن میں پختہ کیے، ہم اپنے گمان کو یقین کی حد تک جی رہے ہوتے ہیں۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تھا، تب صرف ذہن میں ایک بات تھی، وہ یہ کہ مُجھے لکھنا ہے، اُس کے بعد لکھتے لکھتے، بہت سے اسباب کی وجوہات تلاش کرنے لگا، یہ سمجھ کر کہ مجھے ایک بہت اعلیٰ درجے کا لکھاری بننا ہے اور میرا کام ہر بات کی گہرائی میں اُترنا ہے۔ آج میں اِس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ مجھ میں وہ سکت نہیں کہ ضرورت سے زیادہ اپنے جگر کا درد برداشت کر سکوں، ہاں! اِتنا ضرور ہے، کہ  جو وعدے خود سے  کیے تھے، قلم اُٹھاتے وقت ،وہ ت مکمل ذمہ داری کے ساتھ نبھاتا رہوں گا، مگر خود پر بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک یقین کے ساتھ نبھاؤں گا۔

ابہام، یقین، گمان کو ہم ایک عمر تک ہم اپنے بیش قیمت ذخائر میں شُمار کر رہے ہوتے ہیں، اب اُس میں سے جو بچ جاتا ہے، وہ مِل جل کر ہمارے کِردار کی علامت بن جاتا ہے۔ اب ہر بدلتے شخص کے ساتھ اُس کے کردار کی صفات بھی بدلتی ہیں، اب وہ کس کو پالتا ہے، یہ اب اُس پر منحصر ہے۔ مجھے  زندگی میں  کچھ تلاش تھی تو میں نے لکھنا شروع کیا تھا، پھر آہستہ آہستہ اپنے آپ سے ہی تعارف ہوتا گیا۔ چند باتیں جو سچ ہوں اور اُن کا اُلٹ ذہن میں نہائیت پختگی سے گرفت میں ہو، اُن تمام باتوں میں سے کسی ایک بات کا دلیری سے سامنا کرنا آج بھی مُشکل لگتا ہے۔

اِس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے لکھنا تھا، اِس بات کو لے کر تو میں واضح تھا! لیکن مجھے کیا لکھنا ہے اور کیوں لکھنا ہے، اِس بات کو لے کر کہیں مجھے شفافیت خود میں نظر نہیں آئی۔ یعنی کہ  اپنے مقاصد سے مجھے خود ہی واقفیت نہ تھی، میں اگر خود بھی اُلجھ اُلجھ کر کوئی بات لکھوں گا، اِس نیت کے ساتھ کہ  مجھے پڑھنے والے کو ایسی حالت میں رکھنا ہے جیسے وہ کوئی پہیلی سُلجھا رہا ہو، اور میں اپنے بیان کی سمجھ اِتنی مُشکل بنا دوں کہ  وہ تنگ آکر دلچسپی ہی چھوڑ دے تو پھر میرے لکھنے کا مقصد، جو کچھ مرضی ہو ۔۔وہ اُدھر کا اُدھر ہی فوت ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دو سال لکھنے کے بعد یہ سیکھا ہے کہ  چیزوں کو آسان سے آسان بناؤ، اور جو جیسے ہے اُس کو وہ تسلیم کرو اور بیان کرو۔ بہت زیادہ گہرائی میں جاؤگے تو وہ باتیں نظر انداز کر جاؤ گے جہاں توجہ کا ہونا ضروری ہو۔ اب ہماری بات پر کون کیا رائے رکھتا ہے، کون ہم سے متفق ہوتا ہے یا کون نہیں ہوتا اور ہمیں کِس بات سے پریشان ہونا ہے، یا نہیں ہونا یہ تمام باتیں بعد کی ہیں۔ ( پچھلے جُملے میں پریشان کی جگہ فکر مند کا لفظ اِستعمال کر لیں)۔ خلاصہ یہ ہی ہے تفصیل کا کہ ، جو ٹھانی تھی کبھی جوش میں، فلاح کے لیے پُرعزم ہو کر پھر ڈٹے رہنا ہی بہادری ہے۔ نیک مقاصد اب بھی دِل میں چِھپے ہیں کہیں، بس وقت کے ساتھ ہی بیان ہونگے۔ اور، زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مَیں چند عزائم تو عبور کر چکا ہوں وہ شاید کسی اور کے لیے بے معنی ہوں یا نظر نہ آئیں۔ مگر، میں جب بھی اُن کامیابیوں کو دیکھتا ہوں، مجھ میں میرا اعتماد بحال ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply