جیونا شر۔۔عزیز خان

جیونا شر
جیسا کہ قبل ازیں بھی لکھ چکا ہوں کے صوبہ سندھ کا ضلع گھوٹکی بھی تھانہ کوٹ سبزل کی حدود کیساتھ ملحقہ تھا۔اسی کے تھانہ اوباڑو میں ریتی ریلوے اسٹیشن کے ساتھ شر قوم آباد ہے۔شر بلوچ قوم کی سب کاسٹ ہے جن میں سے اکثر افراد چوری، رہزنی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ کام کاج اور زمیندارا میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے تھے ان کی زمینیں اکثر بنجر پڑی رہتی تھیں۔ یہ لوگ صبح سے لے کر شام تک اڈوں پر چائے پیتے اور چوری و رہزنی کا مال مالکان کو واپس کرکے اس کا بھونگا وصول کیا کرتے تھے۔ اس قوم کا سردار آغا شر اپنی قوم کے جرائم پیشہ افراد کی ہمیشہ سرپرستی کرتا تھا۔جب بھی وہ کسی تھانہ پہ پکڑے جاتے تو ان کو چھوڑا لیا کرتا تھا۔ سندھ پولیس نہ تو یہاں ریڈ کرتی تھی اور نہ ہی انھیں گرفتار کرتی تھی۔شر قوم کے جرائم پیشہ افراد سندھ میں واردات کے ساتھ ساتھ اکثر صادق آباد تحصیل میں بھی ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں کرتے تھے۔بعض دفعہ دس، دس افراد اتھانہ کوٹ سبزل و صادق آباد تحصیل کے دیگر تھانوں کی حدود میں وارداتیں کرتے تھے۔ان میں زیادہ تر آباد کار ان نشانہ بنتے تھے۔ یہ افراد آباد کار وں کے گھروں میں رات کو آتے اور اسلحہ کے زور پران سے مال مویشی و دیگر اشیاء زبردستی چھین کرلے جاتے۔واردات کے دوران یہ جرائم پیشہ افراداکثر اُن کی خواتین سے زیادتی بھی کرتے تھے مگر یہ وہ لوگ اپنی عزت بچانے کے لیے نہ تو پولیس کو شکایت کرتے اور نہ ہی کسی کو بتاتے۔
علاقہ تھانہ کوٹ سبزل میں مختلف گروہ وارداتیں کر رہے تھے۔ جن میں پتافی بلوچ، رند بلوچ، لونڈ بلوچ، چاچڑاور کوش بلوچ قابل ذکر ہیں۔ان گروہوں میں سے ایک گروہ کا سردار جیونا شر تھا۔ اس گروہ میں جیونا شر کا بھائی شاہ نواز عرف شانا شر اوراسکا چچازادبھائی حضور بخش شر بھی شامل تھے۔یہ تینوں تھانہ کوٹ سبزل اورتھانہ صدر صادق آباد کے مقدمات جن میں ڈکیتی وقتل جیسے سنگین جرائم شامل تھے کے اشتہاری بھی تھے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ متذکرہ بالاا قوام کے جرائم پیشہ افراد سندھ میں کم وارداتیں کرتے تھے جبکہ تحصیل صادق آباد اور پنجاب کے دیگر اضلاع میں آزادانہ اور دلیرانہ طور پر وارداتیں کرتے تھے۔سندھ پولیس کے اکثر افسران و جوان بھی ان سے ملے ہوتے تھے۔جو ان سے باقاعدہ طورپر وارداتوں میں لوٹی گئی رقم سے اپناحصہ وصول کرتے تھے۔ جب بھی پنجاب پولیس ان پر ریڈ کرنے کے لیے جاتی اور سندھ پولیس کے متعلقہ تھانہ کو اطلاع دی جاتی توسندھ پولیس کے کچھ جوان ان کو اطلاع کردیتے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھروں سے غائب ہوجاتے تھے۔اکثر ان پر کیے گئے ریڈ کے دوران یہ تمام جرائم پیشہ افراداکٹھے ہوکر مزاحمت کرتے اوراگر انھیں یہ معلوم ہو جاتا کہ یہ پولیس پنجاب سے ریڈکرنے آئی ہے تو یہ تما م جرائم پیشہ افراد پولیس پرفائرنگ کرنے سے بھی نہیں کتراتے تھے۔ان کی کوشش ہوتی تھی کے اپنے کسی فردکو گولی مار کر اشتعال پیدا کیا جائے۔فوری طورمساجدمیں اعلان کردیے جاتے تھے کے پنجاب سے ڈاکو انھیں لوٹنے کے لیے آگئے ہیں تمام لوگ باہر نکلیں اور ان سے مقابلہ کریں۔اس اعلان پر تمام جرائم پیشہ افراد اکٹھے ہو جاتے اوربھرپور مزاحمت کرتے اور اگر کسی جرائم پیشہ فرد کو گرفتاربھی کرلیا جاتا تو اسے چھڑانے کی کوشش بھی کرتے اور اکثر پولیس کی حراست سے چھوڑانے میں کامیاب بھی ہوجاتے تھے۔
قانون کے مطابق ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں پولیس کو ریڈ کرنے یا کسی ملزم یا مجرم اشتہاری کو گرفتار کرنے کے لیے صوبہ کے ہوم سیکریڑی سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔لیکن اسکا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ اور لمبا ہے کے پولیس ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے پہلے ایک چٹھی ہوم سیکریڑی پنجاب کے نام لکھی جاتی تھی۔ پھر ہوم سیکریڑی پنجاب ہوم سیکریڑی کے نام چٹھی لکھتا تھا جو متعلقہ آئی جی سے ہوتے ہوئے متعلقہ تھانہ تک پہنچتی اس طریقہ کار کافائدہ یہ جرائم پیشہ افراد خوب اٹھاتے تھے۔ سند ھ پولیس بھی کسی ملزم کو پکڑنے کی راہ میں اکثر رکاوٹ بنتی تھی اسی طرح اگرسندھ پولیس والے پنجاب میں ریڈکرنے آتے تھے تو پنجاب پولیس بھی سندھ پولیس کی معاونت نہیں کرتی تھی۔
میں نے ان مسائل کا آسان حل یہ نکالا کے تھانہ کوٹ سبزل سے ملحقہ تمام تھانوں کے SHO’sاور DSPصاحبان سے ملا قاتیں شروع کردئیں اورمیری یہ کوشش ہوتی تھی کے ہر پندرہ دن بعد تھانہ کوٹ سبزل پر ایک کرائم میٹنگ کرالی جائے تاکہ دیگر تھانہ جات کے SHO’sاور’s DSP سے تعلقات بہتر ہوسکیں۔ اس میٹنگ میں جرائم پیشہ افراد کی فہرستیں ایک دوسرے کو دی جاتی تھیں۔میٹنگ کیساتھ ان افسران اور ملازمین کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام بھی کیا جاتا تھا۔جس کا تمام خرچہ مجھے اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا تھاکیونکہ محکمہ پولیس میں کوئی ایسا فنڈ نہیں ہے جس سے یہ رقم لی جاسکے۔
ASPاللہ ڈینوخواجہ جو کہ صوبہ سندھ کے رہائشی تھے نے بھی اس سلسلہ میں میری بہت معاونت کی۔ADخواجہ ایک ایمانداراور بہادر پولیس آفیسر تھے۔جو آجکل آئی جی موٹر۔وے ہیں۔ وہ کئی دفعہ اپنی کلاشنکوف لے کر میرے ساتھ ریڈ پربھی جاتے تھے۔میراایک بیج میٹ نیاز چانڈیو جوکے ان دنوں SHOکند کوٹ تعینات تھا نے بھی سندھ پولیس کے باقی SHO’sکے ساتھ میرے تعلقات اچھے بنانے میں بہت مدد کی۔تھانہ کوٹ سبزل و تحصیل صادق آباد کے اکثر ملزمان کند کوٹ کے علاقہ کے رہائشی تھے اور وہاں آزادانہ طور پر گھومتے پھرتے رہتے تھے۔جب بھی مجھے کسی ایسے ملزم کی ضرورت ہوتی میں نیاز چانڈیو کو بتا دیتا تھاوہ انھیں پکڑ کرمیرے حوالے کر دیتا تھا۔ اسی طرح سندھ میں وارداتیں کرنے والے ملزمان میں سے پنجاب کا کوئی بھی ملزمیرے تھانہ یا کسی دیگر تھانے کا رہائشی ہوتا میں بھی ان کو پکڑکر نیاز چانڈیو کو دے دیتاتھا۔اس طرح میرے سندھ پولیس سے اچھے تعلقات ہونے کی وجہ سے صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کے جرائم پیشہ افرادکو یہ معلوم ہوگیا تھا اب سندھ اورپنجاب پولیس ایک ہو گئی ہے۔جسکی وجہ سے سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں سنگین جرائم میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ایک رات اسی طرح کی ایک واردات ہوئی جس میں کچھ مسلحہ افراد نے چک 206Pکے علاقہ میں دوران واردات عورتوں کی عصمت دری کی،اُن پر تشدد بھی کیا او راُن کی تین بھینسیں بھی زبردستی لے کر چلے گئے۔اگلے دن صبح مجھے واردات کی اطلاع ملی میں خود موقع پر پہنچا گیا جبکہ حسب دستور اس واردات کی بھی پولیس کوا طلاع نہیں دی گئی تھی۔مدعی عبدالستارکچھ بتانے کو تیار نہیں تھا۔ جب میں نے سختی سے پوچھا تو اس نے گذشتہ شب ہونے والی واردات کی تفصیل بھی بتائی۔ اس نے مزید بتایا کے ملزمان اور بھینسوں کا کھُرا سندھ کے علاقہ میں جیونا شر کے گھر کی طرف گیا ہے۔ وہ سب (واہر پارٹی)لے کر جیونا شر کے پاس گئے تھے جس نے ہمیں بے عزت کیا اور بھگا دیا۔میرے لیے بطور SHOاور انسان یہ انتہائی شرمناک اور تشویش ناک بات تھی کے ایک ڈاکو اوراشتہاری اتنی دیدا دلیری سے واردات کرنے کے بعد اس طرح کی بدمعاشی کر رہا تھا۔ میں نے وہیں سے تھانہ پر وائرلیس کی اور محرر کو کہا کے تھانہ کی تمام نفری کولے کر موقع پر پہنچ جائے۔ ASPخواجہ صاحب کو بذریعہ وائرلیس ساری بات بتائی مزید نفری کا کہاتاکہ جیونا شر کے گھر ریڈ کیا جاسکے۔ انھوں نے فوری طور پر SHOسٹی صادق آباد، SHOصدر صادق آباد، SHOبھونگ اور SHOاحمد پور لمہ کو میرے پاس نفری سمیت بھجوادیا۔میں تمام نفری کے ہمراہ جیونا شر کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔میں نے ذہنی طور پر یہ سوچ لیا تھا کے آج کچھ بھی ہو ایک دفعہ جیونا شر کا علاج کر کے آنا ہے۔ شر قوم کے بارے میں یہ مشہور تھا کے وہ پنجاب پولیس کو دیکھ کرشدید مزاحمت کرتے ہیں اور بلا دریغ اسلحہ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔کیونکہ انھیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پولیس ہوم سیکریڑی کی اجازت کے بغیر ریڈ کر رہی ہے نقصان کی صورت میں وہ پنجاب پولیس کے خلاف قانونی کاروائی بھی کرتے ہیں، ریلوئے لائن اور پنجاب آنے والی KLPروڈ بھی بلاک کردیتے ہیں۔
پلان کے مطابق میں نے نفری کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور مختلف راستوں سے جیونا شر کے گھر کو گھیرا ڈالا۔جیونا شر کا گھر کھلے میدان میں تھا اس نے اپنے گھر پر ایک جھنڈا بھی لگا رکھا تھاہم جیونا شر کے گھر کے قریب پہنچ کر رک گئے میں نے تمام ملازمین کو بذریعہ وائرلیس کہا کے اپنی گاڑیاں ادھر چھوڑ دیں اور پیدل گھیرا تنگ کریں۔ہم گھر کے قریب پہنچ گئے لیکن نہ تو اس طرف سے کوئی مزاحمت ہوئی اور نہ ہی فائرنگ۔جیونا شر کا گھر خالی پڑا تھا یہ گھر چار کچے کمروں پر مشتمل تھا۔باہر ایک سفید رنگ کی گھوڑی اور کچھ بھینسیں بندھی ہوئی تھیں۔ان میں سے تین بھینسیں مدعی کی بھی تھیں۔مدعی کے چہرے پر اپنی بھینسوں کو دیکھ کر جو اطمینان اور خوشی میں نے دیکھی وہ دیدنی تھی۔گھر کی تلاشی لینے پر کوئی اسلحہ برآمد نہ ہوا۔پولیس ملازمین نے مجھے بتایا کہ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ آپ نے سندھ پولیس کی مدد کے بغیر ریڈ کیااور آپکو کامیابی ہوئی۔ اگر انھیں بتایا جاتا تو شاید یہ لوگ مزاحمت کرتے اور اپنے دیگر جرائم پیشہ ساتھیوں کو بھی بلالیتے۔مجھے ساتھ آئے پرانے ملازمین نے مشورہ دیا کہ ان کے گھروں کو آگ لگا دی جائے پھر تماشہ دیکھیں۔سندھ یا کچہ میں اکثر پولیس ملازمین ڈاکووں اور جرائم پیشہ افراد کے گھروں کو آگ لگا دیتے ہیں۔یہ ایک خاموش پیغام ہوتا ہے جو جرائم پیشہ افراد اور پولیس کے درمیان جنگ کے آغازکا اعلان کرتاہے۔اسے ایک وارنگ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ جرائم پیشہ افراد آئندہ اُسSHOکے علاقہ میں واردات کرنے سے بعض آجائیں۔کیونکہ اس واردات میں ملزمان نے عورتوں کیساتھ زیادتی بھی کی تھی لیکن مدعی شرم سے یہ بات نہیں بتارہے تھے مجھے بھی غصہ تھا میں نے غلام قاسم کانسٹیبل (مرحوم)کو کہا کے آگ لگا دیں۔جونہی گھر کو آگ لگائی گئی کانے سے بنی چھتیں جلنا شروع ہوئیں تو دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔چھتوں اور کمروں کے کچے فرش میں چھپایا ہوا اسلحہ اور گولیاں دھماکوں کیساتھ پھٹنا شروع ہوگیا۔یہ ریڈ میرے لیے بہت بڑی کامیابی تھی پہلی دفعہ سندھ میں کسی مجرم اشتہاری کے گھر سے تین ڈکیتی کی بھینسیں برآمدکی گئیں جبکہ اس سے قبل لوگ اس کا بھونگا دے کر اپنا مال مویشی واپس لایا کرتے تھے۔یہ اُن جرائم پیشہ افراد کے لیے میری طرف سے ایک پیغام تھا کے آئندہ
میرے علاقہ میں واردات نہ کریں۔اس واقعہ کا میں نے مقدمہ درج کیا جس میں پہلی دفعہ خواتین سے زیادتی کی دفعات بھی شامل کی گئیں اب میرے اور اقوام شر کے جرائم پیشہ افراد کے درمیان جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply