مہربان دوست۔۔عبدالرؤف

کبھی کبھار لکھنے کو موضوع نہیں ملتا، لاکھ کوشش کے باوجود آپ اک سطر نہیں لکھ پاتے، بلکہ دانتوں میں انگلی دبائے سوچتے رہتے ہیں کہ موضوع انتخاب کیا ہو؟
اکثر دماغ میں بہت سارے خیالات اک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں، لیکن کسی بھی خیال کو انتخاب کا جامہ نہیں پہنا پاتے۔

کچھ ایسا ہی معاملہ آج بھی میرے سامنے تھا، ایک تو بہت عرصے بعد طبع آزمائی کا موقع ملا تھا لیکن موضوع نہیں تھا کہ لکھوں کس پر؟ کچھ دیر سوچ کی دبیز تہہ  دماغ کے نہاں خانے میں ادھر اُدھر کی ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا لیکن پھر اچانک سے اک خیالی تصویر میرے دماغ کے نہاں خانوں میں  جھلملانے  لگی، وہ خیالی تصویر کسی اور کی نہیں بلکہ اک ایسی شخصیت کی تھی جو میرے لیے  اپنے اندر بے حد پُراسراریت رکھتی تھی، اس کا قد کاٹھ عام انسانوں جیسا تھا لیکن اس کی شخصیت قد آور تھی، وہ دیار غیر کا مسافر تھا لیکن وطن کی خوشبو نے اسے اپنا اسیر بنا رکھا تھا، اس کا مرکز و محور ہمیشہ اپنا وطن اور اس کے نوجوان رہے جن کے لیے وہ کچھ کرنا چاہتا تھا۔

میری بالمشافہ ملاقات تو ان سے کبھی نہیں ہوئی ،لیکن اک روحانی قربت ان سے ضرور تھی وہ ہمیشہ میرے دل ودماغ پر چھائے رہے، وہ شعبے سے اک وکیل تھے لیکن سچ کا پرچار ہمیشہ ببانگ دہل کیا، میں اگر متاثر ہوا تو ان کے جذبۂ ایثار سے جو بغیر کسی لالچ کے دیار غیر میں بیٹھ کر نوجوانوں میں قلم اور کاغذ کا جذبہ بیدار کرتے رہے اور ان میں سچ لکھنے کا حوصلہ پیدا کرتے رہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے اک غائبانہ شخص کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے  ملا دیے ہیں ، تو وہ شخص میرے لیے اک دبنگ حیثیت سے ہے اور میں بغیر کسی بناوٹ کے اسے اپنا اصل اور حقیقی ہیرو سمجھتا اور کہتا ہوں۔

وہ کون ہے اور کیا ہے؟ لگی لپٹی  رکھے بغیر، لفظوں کو سمیٹتے ہوئے اس کا اک مختصر سا تعارف جو مذکورہ بالا لفظوں میں کرچکا ہوں، وہ میرے محسن، میرے دوست بھائی، جن کی کاوشوں سے مجھے لکھنے کا حوصلہ ملا جو اس مکالمہ کے روح رواں اور اس مکالمہ گروپ میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔۔۔محترم جناب انعام رانا صاحب، جنہوں نے ہمیشہ ہم جیسے نوجوانوں کو اک حوصلہ دیا اور ہمیں اس پلیٹ فارم سے اک خصوصی مقام دیا، اگر مجھے لکھنے کا حوصلہ ملا تو وہ انعام رانا کی   کاوش(مکالمہ ) ہے، جس سے ہم جیسے نوجوان جو لکھنے کا ہنر تو جانتے تھے لیکن حوصلہ نہیں رکھتے تھے، لیکن مکالمہ سے ہمیں اک نئے سفر کا آغاز ملا اور ہم نے جہاں خود کو بہتر کیا وہیں ہم نے مکالمہ سے بہت کچھ سیکھنے کی بھی کوشش کی اور اس کا تمام تر سہرا انعام رانا کے سر ہے جنہوں نے دیارِ  غیر میں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت نکال کر نوجوانوں کے لیے اک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں نوجوان اپنی قیمتی آراء سے ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو زیر بحث لاتے ہیں، جہاں ہمیں قیمتی معلومات سے آگاہی ہوتی ہے وہیں ہمیں دوسرے ساتھیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔

کالم لکھنے کا مقصد کسی کی بیجا تعریف کرنا مقصود نہیں بلکہ اس دبنگ شخصیت کے حوصلے کو مزید بلند کرنا ہے تاکہ انعام رانا اک نئے جذبے اور نئے حوصلے کے ساتھ مزید اس جذبے کو وسعت دے، مجھ جیسے نابغۂ روزگار کو اس بات کا بھی ڈر ہے  کہ انعام رانا کسی موڑ پر آکر حوصلہ نہ ہار جائے، ان کے جذبۂ استقامت کو سلام ہے لیکن پھر بھی ڈر اور خوف کی اک ہیجانی سی کیفیت پورے جسم میں لرزہ سا طاری کردیتی ہے۔

ہم جیسے تشنہ طلب لوگ ہمیشہ خوف کے مہیب سائے تلے زندگی گزارتے ہیں کہ ہم کہیں اس سرمائے کو کھو نہ دیں جس سے ہم فیض حاصل کررہے ہیں،پہلی بار مکالمہ سے تعارف آج سے کوئی تین سال قبل ہوا ،جب مجھے اس مکالمہ نامی پلیٹ فارم پر کچھ تحریریں نظر آئیں جس کا میں کافی عرصے سے متلاشی اور سرگرداں تھا، میں نے یہاں اک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی تحریر لکھی جسے مکالمہ کے کسی ساتھی نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شائع کردیا جس سے مجھے کافی حوصلہ ملا اور میری خوشی کی کوئی انتہاء نہ تھی، اس کی وجہ میری اک عرصے سے دیرینہ خواہش رہی تھی کہ کبھی میں بھی لکھوں اور وہ کسی اخبار میں شائع ہو اور مجھے اس دن ایسا لگا تھا کہ جیسے میرا کوئی کالم اخبار میں شائع ہوگیا ہو، اس دن سے میں نے مکالمہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

میری تحریروں میں اتنی جان تو نہیں ہوتی لیکن تحریر شائع ہونے سے مجھے حوصلہ اور تسلی ضرور ملتی ہے اور اسی جذبے سے میں مزید اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے ساتھیوں کی تحریروں سے بھی استفادہ حاصل کرتا ہوں، جن میں سر فہرست عارف خٹک اور انعام رانا ہیں جن کی تحریریں پڑھنے سے جہاں ادب میں چٹخارہ پڑھنے کو ملتا ہے وہیں انعام رانا کی تحریروں سے قانونی موشگافیاں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہیں ۔

شروع میں انعام رانا سے کچھ مایوسی سی ہوئی ،وہ ان کی کچھ شرارتیں ہیں جو شروع میں مجھے سمجھ میں نہیں آئیں ، جیسے کبھی کسی مسلک کے عالم کو آڑے ہاتھوں لینا تو کبھی کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کو لتاڑنا تو کبھی کسی مخصوص گروہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا یا پھر کبھی کسی مخصوص مسلک کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرنا، ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے شروع میں کافی مایوسی ہوئی لیکن بعد میں ان باتوں کا عادی ہوگیا کہ یہ رانا کے مزاج کا حصہ ہے اور ان شرارتوں سے کسی کی دلآزاری کرنا مقصد نہیں بلکہ لوگوں کے مزاج کو دیکھنا ہے کہ وہ اس قسم کے معاملات پر اپنی کیا رائے رکھتے ہیں اور وہ اس تنقید پر مکالمہ پلیٹ فارم پر کیا انداز اپناتے ہیں اور جس مخصوص شخصیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے اس کے چاہنے والے جب اس تنقید کا جواب دینگے تو وہ کس مقام پر فائز ہونگے؟ یہ بھی اک انداز ہے لوگوں کو پرکھنے کا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں دعا ہے اللہ تعالیٰ  انعام  بھائی کو مزید فراخ دل بنائے تاکہ وہ کام کو سمیٹنے کے بجائے اسے اور آگے کی طرف لیکر جائیں اور ہم نوجوان اس سے اور استفادہ حاصل کریں، اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں مزید ترقی دے، قدم قدم پر ثابت قدم رہیں، مکالمہ کے ساتھ ان کی وابستگی قائم ودائم رہے،آمین!

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply