جو رب ہے،وہی سب ہے۔۔کبریٰ پوپل

گلاس میں اگر مقدار سے زیادہ پانی ڈال دیا جائے تو وہ گر جاۓ گا کیونکہ اس میں جتنی گنجائش تھی وہ پوری ہوچکی, ایک ڈبے میں ہم بھلا کتنا سامان ڈال سکتے ہیں، زیادہ ڈالنے کی صورت میں وہ بند نہیں ہوسکےگا ۔
اسی طرح الله پاک نے انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا پیدا فرمایا ہے جسے قلب (دل)کہتے ہیں  ۔اس دل میں ہم کتنے غم ,راز ,خواہشات ،محبتیں ,ارمان اور احساسات لیے  پھرتے ہیں لیکن اس میں پھر بھی گنجائش باقی رہتی ہے، یہ سہتا چلا جاتا ہے پر کیونکہ الله نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کی ہے اس لیے دل کے ساتھ بھی یہی معاملہ رکھا ہے کہ ايک وقت ايسا بھی آتا ہے ،جب ہمت جواب دے جاتی ہے۔

انسان کے دن بھر کا حال احوال پیش آنے والے واقعات ،لوگوں کا روّیہ یہ ساری باتیں وہ دل میں رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی  اسےسُنے، وقت دے کیونکہ الله نے انسان کی تخلیق ایسے کی ہے کہ وہ مخاطب ہوتا ہے بولتا ہے اپنے جذبات کو لفظوں میں بیان کرتا ہے اور یہ صلاحیت اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے یہ بات انسانی فطرت میں شامل ہے کہ جب انسان کا دل بھر جائے تو وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہوتا ہے جو اسے صرف سنے ،کچھ لوگ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اپنے جذبات کاغذ پر لکھ ڈالتے ہیں، کچھ شعر و شاعری میں اظہار کرتےہيں ،ساز و موسیقی سے بھی دل بہلایا جاتا ہے یعنی ہر انسان مختلف راستے اپناتا ہے لیکن بدلے  میں نہ امید ہونے پر جب کوئی سننے والا نہ ہو ،آپکے جذبات کی قدر کرنے والا نہ ہو ،اور آپ ہر راستہ اپنانے پر بھی دل کا سکون نہ پا سکیں ، تو اس دل کے برتن میں موجود پانی چھلکنے لگتا ہے اور ہر کسی کے سامنے اپنا رونا روتا ہے اور لوگوں سے ہمدردی لینے کے چکر میں اپنا مذاق بنواتا ہے  ۔

اب وہ جو اپنے جذبات پر قابو پالیں اور سہتے جائيں کچھ نہ کہیں ، تو وہ اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں اور ایسی صورت میں سنگین امراض میں مبتلا ہوجاتے ہيں، اور دل و دماغ پر بوجھ بڑھتا رہتا ہے کیونکہ انسان کسی نہ کسی سے مخاطب ہونا چاہتا ہے اسکے دل میں جو باتیں ہیں اور اپنے احساسات جب تک کسی سے بیان نہ کریں وہ بےچین رہتا ہے ،انسان دنیوی کتنے ہی ٹوٹکے طریقے اور ہر طرح کا علاج ڈھونڈ لیں لیکن دلوں کا مالک ہی ان تمام مرضوں کی دوا رکھتا ہے اسی کے پاس ہر درد کا علاج ہے کیونکہ وہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے ۔الله پاک اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے :
يَعۡلَمُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَيَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَمَا تُعۡلِنُوۡنَؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏
ترجمہ: زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے

انسان اپنا “حال ِدل ” اسے سناۓ جو ہر وقت سننے کو تیار ہو ,جسے ہمارے جذبات کی قدر ہو جو بدلے میں مفید مشورے دے جو آپکی خوشی اور غم  میں ہر وقت آپکے ساتھ ہو،جو آپکے زندگی کے مقاصد میں انہیں حاصل کرنے میں رہنمائی  دے ۔ تو اب ایسی صفات کہاں ڈھونڈیں  اور کیا ایک شخص میں یہ سب موجود ہونا ممکن ہے ؟

الله ۔۔۔۔! میرا رب سب سے بہترین سننے والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے ,ہمارے دلوں کے بھیدوں سے وہی واقف ہے ۔جب ہمارا رب موجود ہے تو پھر کسی اور کا سہارا کیوں لیں ؟

وہ ہمیں سننے کے لئے دن میں پانچ مرتبہ بلاتا ہے اور پھر ان سوالوں , مشکلات اور پریشانیوں کا جواب قرآن کی صورت میں دیتا ہے نبی  ﷺ کو ہمارے لئے رہنما بنا کر بھیجا تاکہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اسکا بندہ ناکام نہ ہو ۔کوئی دنیوی سہارا لینے سے پہلے الله کا سہارا تھام لیں کسی دنیوی شخصیت کو اپنا Ideal بنانے سے پہلے نبی ﷺ کو اپنا  آئیڈیل بنائيں ۔اسی طرح ہمارے دل کو سکون میسّر آسکتا ہے ۔

ہمیں چاہۓ کہ اس عادت کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصّہ بنائيں ۔آج کی اس تیز رفتاراور شور والے ماحول میں پورے دن میں ایک ایسا حصّہ نکالیں کہ جب صرف آپ اور آپکا رب موجود ہو اور حال دل بیاں ہو ۔۔۔ اپنا سارا حال بتاديں چھوٹی سے چھوٹی بات ہو يا پھر کوئی  خواہش ہو ،ايک ايک بات بتائيں اسی طرح ہمارا اور اسکا تعلق مضبوط ہوگا اور ایسے ہی دل کا بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے ۔

الله نے اس دنیا کو مصائب کا گھر بنایا ہے یہاں قدم قدم پر مصیبتیں رکھی ہیں ، تو کیا وہ نہیں جانتا کہ  جب میرا بندہ ان تکلیفوں سے مات کھاۓ گا اس کا دل دکھے گا تو وہ کہاں جاۓ گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جس طرح جب بچے کو چوٹ لگتی ہے تو وہ روتے ہوۓ اپنی ماں کے پاس ہی آتا ہے وہ روۓ یا ہنسے اپنی ماں سے ہی لپٹ کر رہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے یہیں سکون ملے گا ۔
تو پھر وہ تو رب ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply