• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • صرف جنوبی پنجاب ہی کیوں، مزید صوبے بھی بنائیے۔۔غیور شاہ ترمذی

صرف جنوبی پنجاب ہی کیوں، مزید صوبے بھی بنائیے۔۔غیور شاہ ترمذی

معروف کاروباری شخصیت خلیل احمد نینی تال والا نے ”صوبے کیوں ضروری ہیں؟“ کے عنوان سے 342 صفحات پر مشتمل کتاب لکھی تھی جس میں 200 کے نزدیک ممالک کے صوبوں کی تعداد، آبادی، رقبہ سمیت دیگر معلومات دی گئی تھیں۔ مثال کے طور پر انڈیا میں صوبوں کی تعداد29 ہے جبکہ 8 مرکز کے تحت علاقہ جات ہیں جنہیں یونینو کہا جاتا ہے۔ اس طرح ہم سے صرف 4 گنا بڑے ملک انڈیا میں صوبوں (ریاستوں) اور زیر انتظام علاقوں کی تعداد ہم سے ساڑھے آٹھ (8) گنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمار ایک صوبہ تھا آج وہ  6صوبوں پر مشتمل ایک ملک ہے جس کی آبادی ساڑھے سولہ  کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ ہم کم از کم بائیس کروڑ کی آبادی تک پہنچ چکے ہیں۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اسلای ملک مصر میں 232 صوبے‘ جاپان میں 48 ریجن (صوبے) اور پاکستان کے مقابلے میں آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹے ملک تھائی لینڈ کے 76 صوبے ہیں حالانکہ اُس کی آبادی صرف ساڑھے چھ کروڑ ہے۔ پُرتگال ایک عجیب ملک ہے کیونکہ 40 لاکھ کی آبادی والے اس ملک کو ایک ہزار نو سو چھتیس حکومتوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ ملک تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ لکسمبرگ جس کی آبادی 50 لاکھ سے کچھ کم ہے وہ 44 ٹکڑوں میں تقسیم ہے لیکن ان ملکوں کی ترقی کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ دنیا میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں۔ افغانستان 34 صوبوں کے ساتھ، الجزائر 48 صوبوں کی موجودگی میں اور بحرین 7 لاکھ 27 ہزار کی آبادی میں 5 صوبوں، امریکہ 52 ریاستوں کے ساتھ متحد رہ سکتا ہے تو ہمیں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر کے اکثر ممالک میں اقتدار میں عوام کی شرکت بڑھانے کیلئے نئے اور چھوٹے صوبے بنائے گئے تاکہ حکومت میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت اور اُن کا زیادہ سے زیادہ عمل دخل ہوسکے جبکہ پاکستان میں صوبے بنانے کی راہ میں واحد رکاوٹ 200جاگیردار اور چند کاروباری خاندانوں کے وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے 22 کروڑ پاکستانیوں کو غلام بنارکھا ہے۔

سنہ 1976ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے ظفر احمد انصاری کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں 22 صوبے بنادیئے جائیں تو صوبائی عصبیت ختم ہوجائے گی اور ملکی ترقی کا دروازہ کھل جائے گا۔ اسی رپورٹ کی  بنیادپر مختلف اوقات میں اہل نظر افراد میں پاکستان میں مزید صوبے بنانے کے موضوع پر بحث و مباحثے ہوتے رہے ہیں اور مختلف تجاویز سامنے آتی رہی ہیں۔ عوامی ذہن سازی کی اس طویل جدوجہد کے بعد کچھ عرصہ سے جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبہ کے قیام کی تحریک اور مطالبہ زور پکڑتا رہا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات سنہ 2018ء سے پہلے ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کو نیا صوبہ ”جنوبی پنجاب“ قائم کرنے کے حوالہ سے اپنے منشور میں جگہ بھی دینا پڑی اور اپنے ووٹروں سے اس کے قیام کے لئے وعدہ بھی کرنا پڑا۔ سنہ2018 میں عام انتخابات سے قبل سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سابق ارکان اسمبلی نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی تحریک کا اعلان کیا تھا۔تاہم گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل اس جماعت نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی اور جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے حکمراں جماعت کے ان ارکان کی طرف سے ڈیڑھ سال سے اپنے اس مطالبے پر عمل درآمد کے لئے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا لیکن جب یہ پارلیمنٹیرینز اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو عوام کی طرف سے اُن پر الگ صوبہ بنانے کے لئے اُن کے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں۔ چونکہ تحریک انصاف کی حکومت جنوبی پنجاب میں اپنے کمزور وزیر اعلیٰ کی وجہ سے خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اس لئے اپنی گرتی ہوئی  ساکھ کو سہارا دینے کے لئے نئے مجوزہ صوبہ ”جنوبی پنجاب“ قائم کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خاں نے فوری قانون سازی کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ساتھ جنوبی پنجاب کا صوبائی سیکرٹریٹ بہاول پور میں بنانے کااعلان کیا ہے۔ دوسری طرف عمران خان کے بعد اپنے آپ کو وزیر اعظم کا امیدوار سمجھنے والے شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ فی الحال مجوزہ صوبے کے انتظامی سیکرٹریٹ ملتان اور بہاول پور ہوں گے،ایک سیکرٹری ملتان تو دوسرا بہاول پور بیٹھے گا۔ وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب سیکریٹیریٹ کے قیام سے وہ لوگ جنہیں لاہور آنا پڑتا تھا اب ان کے مسائل اور معاملات بہاول پور اور ملتان سیکرٹیریٹ میں ہی حل ہو جایا کریں گے اور اختیارات صحیح معنوں میں نچلی سطح پر منتقل ہو جائیں گے۔

یہ ایک عجیب و غریب طرز اور مشکلات سے بھرپور انتظام ہو گا کیونکہ ایک صوبہ کے دو مختلف مقامات پر سیکرٹریٹ بنانے اور دو الگ سیکرٹریز بنانے سے مسائل کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ ان میں مزید خرابیاں اور نئی مشکلات پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ ”جنوبی پنجاب“ نامی نیا صوبہ بنانے کے پیچھے خلوص نیت کی بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہی کارفرما نظر آتی ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان کو معلوم ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان کی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کے مطالبات خصوصاً  جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ بنانے پر دھیان نہ دیا گیا تو ان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ دوسری طرف عمران خاں کے سابقہ دست راست جہانگیر ترین چونکہ عملی سیاست سے الگ ہو چکے ہیں اس لئے ان کی عدم موجودگی میں تحریک انصاف ہی میں اُن کے سیاسی حریف شاہ محمود قریشی نے پارٹی میں جنوبی پنجاب تحریک کا چیمپئن بننے کے لئے اس بل کو لانے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خاں اور شاہ محمود قریشی کے پاس اس اعلان سے اُن کے لئے ایک آپشن یہ بھی کھل چکا  ہے، کہ اگر حزب مخالف کی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے اس بل کی حمایت نہ کی تو پھر حکمراں تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے اپنے ووٹرز کو اس بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کرے گی کہ چونکہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تھی اس لئے وہ اس بل کو منظور نہیں کرواسکے۔

بڑے صوبے کا فائدہ ان جاگیردار خاندانوں کوہوتا ہے جن کو لوٹ مار کے لئے وسیع رقبہ مل جاتا ہے۔ ہمارے اکثر صوبائی وزرائے اعلیٰ نے اپنے پورے دور اقتدار میں آدھے صوبے کا بھی دورہ نہیں کیاہوتا۔ نہ ان مظلوم شہروں کو دیکھا ہے لیکن پھر بھی وہ یہاں کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔ اسی لئے تینوں بڑی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف نے ہمیشہ عوام کو نئے صوبوں کے نام پر بے وقوف بنایا اور ان کے قیام کیلئے نہ کوئی عملی کام کیا اور نہ ہی کوئی بحث مباحثہ۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور اداروں کے ساتھ عوام اس عمل میں شریک ہوں اور ایسا صرف تب ہی ممکن ہو گا جب عوام کو حکومتی معمولات میں زیادہ سے زیادہ ساجھے دار بنایا جائے۔ عوام تک اختیارات کی منتقلی کے لئے چھوٹے یونٹس بنائے بغیر عوام اور حکومت میں رابطہ ممکن نہیں ہے۔ چھوٹے صوبے بنانے سے انتظامی کنٹرول اچھا ہوتا ہے۔ حکومت عام آدمی کے مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں حل کرسکتی ہے۔ مزید صوبے بننے سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ پاکستان کو اگر 4 صوبوں کی بجائے 22 چھوٹے صوبوں میں تقسیم کر دیاجائے تو تمام نئے صوبوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کاجوش وولولہ پیدا ہوگا اور پاکستان بے مثال صنعتی ترقی کرے گا۔

آج ہم کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ لیکن کیا ہم جو مطالبہ کشمیریوں کے لئے کرتے ہیں وہ آدھے سے زیادہ پاکستانی عوام کو میسر ہے؟۔ کیا ہزارے وال، بہاول پور کے عوام، سرائیکی بیلٹ کے لوگ، کراچی کے باشندے، پوٹھوہاری عوام، بلوچستان میں آباد پشتون اور بروہی، سندھ کے بلوچوں کو وہ حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اور اپنے علاقے کے لوگوں پر مشتمل حکومت بناسکیں؟۔ کسی صوبے میں شہری پاپولیشن کی حکومت ہے توکسی میں ”دیہی پاپولیشن“کی۔ کہیں پاکستان کے آدھے رقبے سے بڑے صوبے میں آبادی اقتدار سے دور ہے تو کسی صوبے میں باقی تینوں صوبوں سے بڑی آبادی۔ ہمارے یہاں اتنی زیادہ قبائلی، لسانی، نسلی اور مذہبی تقسیم ہو چکی ہے کہ ہم ترقی کا سفر طے کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی لسانی خامیوں کی تلاش میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ آزادی کے ساڑھے 72 سالوں بعد بھی پورے ملک کے عوام آزادی کے لئے ترس رہے ہیں۔ یہ معاملہ صرف جنوبی پنجاب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں یہی صورت حال ہے۔ ملک بھر کے عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرے، اپنے حکمران خود چنے لیکن اسے یہ اختیار نہیں مل پاتا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اسمبلیوں میں اپنی مرضی کے نمائندگان بھیجنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ طے ہے کہ جب تک عوام اپنی تقدیر کے مالک نہیں بنیں گے پاکستان کی ترقی کا پہیہ روانی سے نہیں چل پائے گا۔پاکستان پر قابض اسٹیبلشمنٹ اور 200جاگیردار اور چند کاروباری خاندانوں کے پنجہ جبرو ظلم میں جکڑے عوام کو ”جاگیردار فلسفی“ دھمکاتے رہے ہیں کہ مزید صوبوں کا نام لیا تو زبان کھینچ لیں گے اور پاکستان کو سالگرہ کے کیک کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے۔ انہوں نے اپنے ظالمانہ کھیل کے لئے کچھ ”کاروباری ڈاکووؤں“ کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا ہوا ہے تاکہ اصلی جمہوریت کے قیام اور آزادی کی کوئی تحریک اور آواز نہ اٹھ سکے اور لوگ غلامی کو مقدر سمجھ کر چپ سادھ کر بیٹھ جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عوام کے مسائل کے حل کے لئے اگر تمام پارلیمنٹیرینز اور سیاسی جماعتیں واقعی ہی سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کے بعد صرف جنوبی پنجا ب ہی نہیں بلکہ مزید نئے صوبوں کی تشکیل کے لئے کمیشن قائم کیا جائے جو اس ضمن میں درکار قانون سازی کرے اور پارلیمنٹ کی تمام جامعتوں کے ساتھ ملک بھر کے عوام کو اعتماد میں لے۔ دوسری طرف سوسائٹی کے اہل نظر افراد اور لیڈران کا کام ہے کہ وہ اس سوچ پر مزید عرق ریزی کریں اور ملکی ترقی کے نئے راستے دریافت کریں۔ عوام کو جاگیردار حکمرانوں سے یہ توقع بالکل نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ نئے صوبے بننے دیں گے یا وہ عوام کو آزادی دیں گے۔ یہ تو عوام کو بلدیاتی اداروں کی آزادی بھی دینے کو تیار نہیں۔ یہ جاگیردار تو چاہتے ہیں کہ شہر ہو یا ٹاؤن، گاؤں ہویا بستی۔ ہرجگہ ان کی مرضی سے نالی اور گلی بنے جبکہ علاقے کا ہر ووٹر اُن کے رحم و کرم پر انہیں سلام کرنے کے لئے زندہ رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”صرف جنوبی پنجاب ہی کیوں، مزید صوبے بھی بنائیے۔۔غیور شاہ ترمذی

  1. پاکستان ریوولیشن پارٹی اسکے لئیے بالکل تیار طے اور ھر اس پارٹی سے تعاون کرنے کے لئے تیار ھے جو کم ازکم 22 صوبوں کی حمایت کرے
    ھمارا نعرا ھے اکر پاکستان کو مضبوط بنانا ھے تو مزید صوبے بنانے ھنگے
    پورے ملک پر مٹھی بھر جاگیرداری نظام ے قبضہ کیا ھوا ھے

Leave a Reply