گزشتہ دو روز کے دوران بطور خاص 24 فروری کو جو کچھ ہوا، کیا وہ آپ کے لیے غیر متوقع تھا؟ معاف کیجیے گا، میرے لیے تو کم از کم متوقع تھا۔ آپ کو شاید یاد نہ ہو کہ دہلی الیکشن سے قبل میں نے اپنے ایک تجزیے میں اس کی پیش گوئی کردی تھی جس کا آغاز دہلی الیکشن کے دوران ہی ہوچکا تھا۔ یاد کیجیے، سرکار نے الیکشن کے دوران ہی اپنے سارے پتے شو کردیے تھے۔ سرکار شاہین باغ پر کرنٹ لگانے کی بات کرکے بتا چکی تھی کہ وہ پورے دیش کی سرکار نہیں ہے بلکہ اپنے 37 فیصد ووٹرز کی سرکار ہے۔ کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور گری راج سنگھ کے نفرت انگیز بیانات پر کوئی کاروائی نہ کرکے سرکار نے آپ کو یہ پیغام دے تو دیا تھا کہ اس دیش کے 60فیصد سے زائد لوگوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ سچ جانیے، بے چاری سرکار کا اس میں کیا قصور، وہ تو بار بار آپ کے کانوں میں بیٹھ کر خطرے کا الارم بجاتی رہی، حتیٰ کہ کپل گجر اور گوپال شرما کو ریوالور دے کر بھی شاہین باغ اور جامعہ ملیہ دہلی پولیس کی معیت میں بھیجا گیا، لیکن کمال ہے آپ نہ ڈرے اور نہ پیچھے ہٹے۔ اس طرح یہ پریوگ بھی ناکام رہا۔
پھر لاٹھی چارج ہوئی، آنسو گیس چھوڑے گئے، کچھ کیمیکل بھی عرق انفعال کی طرح آپ پر ٹپکائے گئے لیکن آپ ٹھہرے ڈھیٹ، آپ نے انہی تریاق کا ڈوز بنا کر اپنی قوت ارادی و قوت مدافعت کو مزید مضبوط بنا لیا اور شاہین باغوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ رہی سہی کسر آپ نے دہلی الیکشن میں بی جے پی کو “کرنٹ” لگا کر پوری کردی۔ آپ کہیں گے کہ دہلی الیکشن کی ناکامی کی جھنجھلاہٹ کا یہ نتیجہ ہے۔ میں اسے نہیں مانتا۔ اگر وہ جیت جاتے تو بھی دہلی میں وہی ہونا تھا جو گزشتہ دنوں ہوا چونکہ یہ معاملہ صرف دہلی کا نہیں تھا بلکہ راجدھانی سے ہندوستان میں ہونے والے تمام مظاہروں کو یہ پیغام دینا ہی منصوبے کا حصہ تھا کہ اس دیش میں عوام سے “اختلاف رائے” کا حق چھین لیا گیا ہے اور یہ کہ سرکار کا ورودھ، دراصل دیش کا ورودھ ہے۔ یہ فارمولا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ذرا گاندھی جی، مارٹن لوتھر کنگ یا نیلسن منڈیلا کی تحریکوں کو یاد کیجیے جنھیں ختم کرنے کے لیے سرکاروں کا آخری ہتھیار پولیسیانہ کاروائی ہی رہی ہے۔ لیکن سرکار براہ راست ان مظاہروں پر بغیر کسی جواز کے پولیس کاروائی نہیں کرسکتی جو پُرامن تحریک، احتجاج یا دھرنے کی شکل میں ہوں۔ سرکاروں کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، انھیں پوری دنیا میں خود کو “مسٹر کلین” دکھانے کے لیے کچھ بہانے ڈھونڈنے ہوتے ہیں جن کی آڑ میں وہ ان تحریکوں کو بدنام کیا جا سکے اور نتیجتاً ان پر پُرتشدد کارروائی کی جاسکے۔ بی جے پی کے لیے یہ بڑا آزمودہ نسخہ ہے، اس نے اس کا تجربہ اس سے پہلے گجرات میں کیا ہی تھا۔ چنانچہ اس نے شاہین باغ کے خلاف براہ راست کوئی پولیس کاروائی نہیں کی، بلکہ اس نے کاروائی کے لیے جواز فراہم کردیا۔ یعنی شاہین باغ کے سامنے اس نے اپنے بی جے پی کے ہندو ورکروں کو کھڑا کرکے اس پوری تحریک کو ہندو بنام مسلم کردیا۔ اور یہ کام خفیہ طور پر نہیں ہوا، بھیڑ کو جنونی بھیڑ میں تبدیل کرنے کے لیے خفیہ طور پر پمفلٹ بھی نہیں تقسیم کیے گئے نہ خفیہ میٹنگ ہوئی بلکہ بی جے پی کے بدنام زمانہ کپل مشرا نے دہلی کے موج پور میں ایک ڈی ایس پی کے بغل میں کھڑے ہو کر مظاہرین کو تین دن کے بعد نتیجہ بھگتنے کی دھمکی علی الاعلان کر ڈالی جس پر ان کے حمایتیوں نے “جے شری رام” کا نعرہ لگا کر اپنے جوش کا اظہار کیا۔ ڈی ایس پی صاحب کھڑے رہے چونکہ سامنے کھڑے شخص کا نام وارث پٹھان، شرجیل امام یا ڈاکٹر کفیل خان تھوڑی تھا بلکہ وہ بی جے پی کا کپل مشرا تھا جو شاید سرکار کے “پریوگ” کے آخری مرحلے کی نمائندگی کررہا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ کپل مشرا نے اس اعلان کے بعد نفرت کی ہانڈی چولھے سے اتار دی بلکہ ٹوئٹر سے ہر دو گھنٹے بعد وہ ایسی بے شمار ٹوئٹ کے ذریعے جعفر آباد میں چل رہے پروٹیسٹ کے خلاف اس ہانڈی کو نفرت کی آگ میں اُبالتا رہا۔ بالآخر یہ ہانڈی پریشر کوکر کی طرح پھٹی جس کے دھماکے سے پوری دہلی دہل گئی۔ پریوگ کیا جا چکا تھا، پتھر بازی شروع ہوئی، پٹرول پمپوں کو پھونک دیا گیا، گولیاں چلاتے ہوئے نوجوان سڑکوں پر اتر آئے اور ڈی ایس پی کے سامنے کپل مشرا نے جو دھمکی دی تھی کہ تین دن بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے، اسے عملی جامہ پہناتے ہوئےدنگائیوں نے ایک ہیڈ کانسٹبل کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
سوشل میڈیا کے بحر بے کراں میں سینکڑوں ویڈیو کلپس تیرنے لگے۔ ہر کلپ آدھا ادھورا تھا چونکہ ہر ویڈیو کلپس کے پیچھے اسے ریکارڈ کرنے اور پیش کرنے والوں کے ذاتی تحفظات بھی شامل تھے، وہ ہمیں وہی دکھا رہے تھے جو وہ دکھانا چاہتے تھے۔ روِش کمار نے اپنے تازہ ترین تجزیے میں بھی یہی بات کہی ہے کہ اس آندھی میں ہر ویڈیو پر یقین کرنے سے قبل اسے چیک کیجیے، اس کی صداقت پرکھیے، اس کا مقام، تاریخ اور وقت کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ماخذ کو بھی تلاشیے ورنہ ایسے وقت میں ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ fabricated videos کا جال بچھ جاتا ہے جسے پرکھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ بہرحال The Quint میں وزیر آباد مین روڈ پر سی اے اے کے حمایتوں کے ساتھ دو پولیس والے بھی مظاہرین پر پتھر برساتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جب کہ بقیہ پولیس والے شرپسندوں کے ساتھ چپ چاپ کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ANI کی ایک رپورٹ میں گلابی شرٹ پہنے ایک نوجوان کو سامنے مخالف گروہ پر گولی داغتے دکھایا گیا ہے جس کی شناخت پولیس نے کرلی ہے اوراس کا نام شاہ رخ ہے لیکن ٹوئٹر میں اسےسنگھی بتایا جارہا ہے چونکہ اس کے پیچھے جو بھیڑ کھڑی ہے، اس کے ہاتھوں میں بھگوا جھنڈا دکھایا جارہا ہے لیکن جے این یو کے نقاب پوشوں کی نقاب کشائی کرنے والی اور شاہین باغ کی عورتوں پر 500 روپے لینے کے الزام کا پردہ فاش کرنے والی معروف فیکٹ فائنڈنگ ٹیم AltNews نے پوری تفصیل سے اپنی ویب سائٹ پر شواہد کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ نوجوان Anti-CAA کے مظاہرین میں شامل تھا، اور بھیڑ کے ہاتھوں میں جسے بھگوا جھنڈا بتایا جارہا ہے وہ دراصل دوسروں طرف کے پتھروں سے بچنے کے لیے پلاسٹک کریٹس ہیں جو عموماً بیکری اور جنرل اسٹور میں دودھ کے پیکٹ، کولڈ ڈرنک اور اسی طرح کے دوسرے سامان رکھنے کے لیے دستیاب ہوتے ہیں، ان پلاسٹک کریٹس کو بطور ڈھال استعمال کرنے والے Anti-protesters کی ویڈیو اس ویب سائٹس میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بہرحال اسی لیے میں کہتا ہوں کہ بہت غور سے ویڈیو کو پرکھیے، خواہ وہ آپ کے تحفظات کی تائید کرے یا اس کی تردید، لیکن بہرحال بغیر اگر، مگر، لیکن وغیرہ کے نفرت پھیلانے والوں کی مذمت ہونی چاہیے، خواہ وہ ہماری ہی صفوں سے کیوں نہ نکلا ہو۔ خیر، سرکار اپنی چال چل چکی ہے، اس پورے جمہوری اور پُر امن احتجاج کو بڑی چالاکی سے اس نے “سڑک کا مسئلہ” بنا کر پوری تحریک کے اصل محرک کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ایک طرح سے سپریم کورٹ کا وہ بیان کہ “پہلے تشدد رکنا چاہیے، پھر سی اے اے پر شنوائی ہوگی”، اس نے بھی سرکار کی ایک طرح سے حوصلہ افزائی ہی کی۔ ونود دعا نے کتنی معرکے کی بات کی ہے کہ ایک طرف سی اے اے جیسا بڑا ایشوہے جس کا اثر ہندوستان کے مستقبل پر پڑنے والا ہے اور جس کے خلاف پورے ہندوستان میں دو ماہ سے احتجاج جاری ہے، کئی جانیں جا چکی ہیں، املاک تباہ ہوچکے ہیں جب کہ دوسری طرف ٹریفک جیسا معمولی ایشو؛ ان میں سے کون بڑا ہے؟
کیا سپریم کورٹ کے شایان شان یہ بات جاتی ہے کہ ایک اتنے بڑے ایشو کو چھوڑ کر وہ ٹریفک کھلوانے کو اولیت دے؟ ایک سوال اور اٹھتا ہے کہ کہیں سپریم کورٹ کا سی اے اے پر شنوائی کی تاخیر کے سبب عوام کا صبر چھلکنے لگا ہے؟ سپریم کورٹ کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا چاہیے، چونکہ اب اس ملک میں عوام کے لیے آخری امید ہے، اس کے بعد تو صرف خانہ جنگی ہی باقی رہ جاتی ہے۔ دہلی سرکار کو چھوڑیے، وہ اب ٹوئٹر سرکار بن چکی ہے، حالانکہ دہلی کے لوگوں نے اسے “کام کی راج نیتی” کے لیے ووٹ دیا تھا۔ اروند کیجریوال کا یہ بہانہ بھی عذر لنگ ہے کہ دہلی پولیس ان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن دہلی تو آپ کی ہے، اس کے عوام تو آپ کے ہیں۔ آپ تو دھرنے اور مظاہروں سے نکلے ہوئے نیتا ہیں، کیا وجہ ہے کہ آپ دہلی فسادات کے خلاف مرکزی سرکار کے خلاف دھرنے پر نہیں بیٹھتے؟ کیا وجہ ہے کہ شاہین باغ جا کر ان کے زخموں پر اپنے دو میٹھے بول کے مرہم نہیں لگاتے؟
کیا وجہ ہے کہ فسادات میں مارے ہوئے لوگوں اور زخمیوں کی چارہ جوئی کی کوشش تک نہیں کرتے؟ کیا وجہ ہے کہ کانگریس کی طرح آپ جامعہ ملیہ، جے این یو اور اب دہلی فسادات پر اپنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم بناکر عدالت میں سرکار کو چیلنج نہیں کرتے؟ صرف ٹوئٹر میں بیان بازی کرنے کے لیے آپ کے ووٹروں نے آپ کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ اس لیے خدا کے لیے پولیس کو کوسنے، سیاسی پارٹیوں سے امید لگانے اور سرکار کو دہائی دینے کی بجائے سارے پس منظر اور پیش منظر کی کرونولوجی سمجھیے کہ شاہین باغ کے لیے دہلی میں کس طرح تشدد کا اسٹیج سجایا جا چکا ہے، دنگوں سے بدامنی کے جواز فراہم کیے جا چکے ہیں، لہٰذا مجھے یہ کہتے ہوئے ذرہ برابر بھی جھجک نہیں ہو رہی ہے کہ اب دہلی پولیس امن قائم کرنے کے نام پر شاہین باغ پر جبر و تشدد کا پریوگ کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہے اور یہیں سے ہندوستان کے تمام شاہین باغوں اور مظاہروں کو پیغام دیا جائے گا کہ اب تمھاری باری ہے۔ ایسے حالات میں panic ہونے کی بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے جب آپ سوچیں گے تو یہی محسوس کریں گے کہ یہ لڑائی ریوالور، پتھر اور پلاسٹک کریٹس سے نہیں جیتی جا سکتی، بلکہ اب ہم اور آپ ایک ایسے دو راہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون سا راستہ منتخب کرنا ہے، جس میں سے ایک راستہ گھر کی طرف جاتا ہے اور دوسرا سردار جعفری کے اس شعر کی طرف رخ کرتا ہے:
اے وطن، خاک وطن یہ بھی تجھے دے دیں گے
بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں