ہم سب مجرم ہیں ۔۔۔۔ قاسم سید

میں یو ایس ملٹی نیشنل کمپنی میں ایک اہم عہدے پر تھا، ایک رات دو ڈھائی سو پولیس اہلکاروں نے میرے پور ے گھر کو گھیر لیا۔ دندناتے ہوئے اندر داخل ہوئے، کنپٹی پر پستول رکھا اور تھانہ لے گئے۔ تین دن و رات ناقابل بیان جسمانی اذیتیں دیں ، سادے کاغذات پر دستخط کرائے، حزب المجاہدین سے تعلق ہونے اور دہشت گردی کی ٹریننگ لینے کا الزام لگایا ، 9کیس تھوپے گئے جن میں چار غداری کے تھے، این ایس اے لگایا پھر گینگسٹر ایکٹ تاکہ ضمانت نہ ہوسکے۔ آٹھ سال کی جدوجہد کے بعد رہائی ملی، رشتہ داروں اور سماج نے ساتھ چھوڑ دیا۔ میری بچیوں کو اسکول میں غدار کی بیٹیاں کہہ کر ذلیل کیا گیا ۔ رہا تو ہو گیا مگر زندہ لاش کی طرح ہو ں کئی بار سوچا کہ اگر صرف سانسیں آنے جانے کا نام ہی زندگی ہے تو اس سے موت اچھی، کیوں نہ خود کشی کرلوں۔ جہاں اپنے بیگانے شبہ کی نظر سے دیکھتے ہوں،وہاں کیا جینا۔ یہ واصف حیدر ہیں، کانپور کے رہنے والے ہیں، آٹھ سال بعد رہا ہوئے ہیں، زندگی کو سزا کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ ان کا تجربہ ہے کہ مخصوص فرقہ کے خلاف سٹیٹ کی پالیسی ہے، کوئی بھی پارٹی ہو یہ سب چلتا رہتا ہے۔ سٹیٹ اس لئے معاوضہ نہیں دیتی کیوں کہ وہ اسے غلطی نہیں مانتی اور ان حالات میں بے گناہ ’دہشت گردوں‘ کی باز آباد کاری کا سوال بھی نہیں اٹھتا ۔

محمد نثار کو 22سال کی عمر میں سن 1994میں کالج جاتے ہوئے راستہ میں ہی سے اٹھا لیا گیا، 43دن تک گرفتاری نہیں دکھائی کئی، بلاسٹ کیس لاد دیے گئے، 2004 میں سزائے عمر قید ہوئی، سپریم کورٹ تک مقدمہ آیا، بے گناہی ثابت کرنے میں 23سال لگ گئے۔ والد کا عید کے دن انتقال ہو گیا ، عید کیا ہوتی ہے، یہ گھر والے نہیں جانتے۔ ان پر دبائو ڈالنے کے لئے بڑے بھائی کو بھی صرف چار ماہ بعد اٹھا لیا گیا تھا۔ محمد نثا ر کو 2014 میں رہائی ملی تو دنیا بہت کچھ بدل چکی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگیاں اجڑ گئیں، سب کچھ ختم ہوگیا، زندگی کوقرض کی طرح گزارنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے ہم جانتے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ صرف کانفرنسیں کر کے روتے رہیں گے، کچھ ایسا کیا جائے کہ پھر کوئی نثار پیدا نہ ہو کیوں کہ ایسے سماج میں زندہ رہنا بہت مشکل ہے جہاں رشتہ دار بیگانے ، دوست انجانے اور پڑوسی اجنبی ہوجائیں ، ہم سماجی جہنم میں جی رہے ہیں۔ ہمیں اب کوئی نہیں پہچانتا ، سلام کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔ ہمارے راستہ سے گزر نا چھوڑ دیا۔ کیا محمد نثار کو ان سوالوں کا جواب ملے گا جو پوری جوانی جیل میں گزار آئے، ان کے 23سال کیسے لوٹیں گے ان کی خاموش آنکھوں میں سوال کی جواب دہی کون طے کرے گا؟

حاجی سلیم کی کہانی کچھ الگ نہیں۔ 2001کی ایک رات جب وہ بستر پر تھے کم و بیش دو سو پولیس اہلکاروںنے ریڈ کیا، چھتوں پر پولیس اہلکار کھڑے کر دئیے گئے اور کنپٹی پر گن لگا کر تھانہ لے آئے۔ ان کا سیمی سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر جوڑ دیا گیا، کئی مقدمات تھوپ دیے۔ کانپور فساد میں ملوث ہونے کاالزام بھی تھا کئی سالوں بعد رہائی ملی تو معاشی سوالات نے ذہن کو گھیر لیا ۔ بچے اسکولوں میں دیش دروہی کی اولاد کہے گئے ان کا شکوہ ہے کہ نہ ملت ساتھ دیتی ہے نہ ملی جماعتیں ، ہم سماج میں اچھوت بنا دیے گئے ہیں۔

اورنگ آباد کے عبدالواحد دس سال تین ماہ قید و بند میں رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کے ایس ٹی ایس چیف رگھو ونشی نے ان کی اور بہت سے دیگر مسلم نوجوانوں کی زندگیاںبر باد کردیں، میرے پرائیویٹ پارٹ میں کرنٹ لگایا جاتا، انتہائی ٹھنڈے پانی میں ڈبکیاں لگاتے، پھٹے سے پٹائی ہوتی ، اعتراف جرم کرانے کے لئے بھائی کو لایا گیا، ننگا کر کے کھڑا کر دیا جاتا، گھر کی عورتوں کوتھانہ میں بلاکر بے عزتی کرنے کی دھمکی دیتے تو میں ٹوٹ گیا، ٹارچر کے دوران گھنٹوں آنکھوں پر کالی پٹی باندھے رکھتے، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ میں دو سے تین سال کے اندر اندھا ہوجائوں گا۔

مہاراشٹر کے ہی شعیب جاگیر دار کے ساتھ کم ظلم نہیں ہوا ، مکہ بلاسٹ میں ملزم بنائے گئے۔ سی بی آئی تفتیش کی وجہ سے رہا ہوئے تھانہ اور جیل کی اذیتیں تو وہ جھیل گیے مگر مسلم سماج نے بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیںکیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے بچے کی موت ہوگئی تو جنازے میں صرف پانچ لوگ تھے، مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو محلے والوں نے منع کر دیا کہ تم سے بات کرنے پر ہماری مصیبت آسکتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ کوئی ملنے آتا ہے تو لوکل انٹیلی جنس اس کے پیچھے لگ جاتی ہے ،اور طرح طرح کے سوال کرتی ہے انھوں نے سوال کیا کہ آخر مسلمانوں کے لئے سرگرم مسلم تنظیمیں کھل کر سامنے کیوں نہیں آتیں اور آگے بڑھ کر کوئی لائحۂ عمل تیار کیوں نہیں کرتیں۔

ڈاکٹر یونس کو گجرات پولیس نے جے پور سے اٹھایا، بہت غریب ہیں، آج بھی کرایہ کا مکان ہے، بوڑھی ماں ہے، انھیں انکوائری کے لئے تھانے لے گئے، انھیں سنسنان جنگل میں لے گئے اور دھمکی دی کہ اگر ہمارے احکامات پر عمل نہیں کیا تو انکائونٹر کردیں گے۔ رات کو جج کے سامنے ان کے گھر پر پیش کیا گیا۔ سالوں مقدمہ چلا، سیمی میں ڈالا گیا، کل 13 لڑکے تھے ان میں سے دس باعزت بری ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتیں شادی شدہ ہونے کے باوجود بیوائوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بچے بن باپ کے گلیوں میں دھکے کھاتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر فروغ مخدومی مالیگائوں بم دھماکہ کے ملزم بنائے گئے۔ گیارہ سال بعد مکمل رہائی نصیب ہوئی، وہ بھی جب این آئی اے نے کیس اپنے ہاتھ میں لیا تو مہاراشٹر اے ٹی ایس کا سارا کچا چٹھا سامنے آگیا۔ اے ٹی ایس چیف رگھوونش برملا کہتے تھے: ہم جانتے ہیں کہ تم لوگوں نے نہیں کیا مگر پکڑنا ضروری ہے۔ کاندھے پر ستارے سجانے اور پرموشن کے لئے بے گناہوں کو پرندوں کی طرح شکار کیا جاتا ہے۔ ان کا سوال ہے کہ آخر ہیمنت کرکرے، تنزیل احمد جیسے جانباز آفیسر اور بے گناہ دہشت گردوں کے مقدمے لڑنے والے شاہد اعظمی ایڈوکیٹ کو کیوں قتل کردیا گیا۔

محمد عامر کم عمر نوجوان ہیں۔ 98 میں دہلی بم بلاسٹ کیس میں گرفتاری ہوئی۔ 14 سال قید بے گناہی کاٹ کر آئے۔ ٹارچر کے دوران ہاتھ پائوں کے ناخن نکالے گئے۔ ناقابل بیان اذیتیں دی گئیں۔ بوڑھا باپ چل بسا، اکیلی ماں نے بیڑہ اٹھایا۔ اس دوران حسب روایت سوسائٹی سے کوئی ہمدردی نہیں ملی، نہ کوئی رشتہ دار ملنے آیا، نہ کسی نے مدد کی۔ 2012 میں رہائی نصیب ہوئی۔ اس کا سوال ہے کہ آخر سماج ہم سے نفرت کیوں کرنے لگتا ہے۔ حکومت سند یافتہ دہشت گردوں کو ہتھیار ڈالنے پر مالی امداد دیتی ہے، ان کے لئے بازآبادکاری کا انتظام کرتی ہے، نوکریاں تک ملتی ہیں، مگر جن بے گناہوں کو دہشت گرد بنادیا گیا وہ باعزت رہا ہونے پر بھی بازآبادکاری کے حقدار نہیں۔ ایسا امتیاز کیوں؟ آخر ان کی زندگی سٹیٹ کے سبب ہی تو تباہی کے دہانے پر پہنچی ہے۔ وہیں جیلوں میں بھی بنیادی حقوق محفوظ نہیں۔ ٹارچر، قیدیوں کے ہاتھوں پٹائی عام بات ہے۔ ان کا تجربہ ہے کہ قانون مکڑی کا جال ہے جس میں پتنگے اور پھنگے پھنس جاتے ہیں، لیکن بڑے والے نکل جاتے ہیں۔

دہلی میں لگنے والی عوامی عدالت میں سماعت کے دوران یہ ان چند بے گناہ دہشت گردوں کی آپ بیتیاں ہیں جن کو سن کر ہر شخص رو پڑا، جس کے سینہ میں دل اور دل میں ایک فیصد بھی انسانیت کے لئے درد ہے۔ یہ داستانیں نئی نہیں، پہلی بار سامنے نہیں آئیں۔ اخبارات میں بیان ہوتی رہیں مگر ایک ساتھ اتنا درد انڈیل دیا جائے تو دماغ کی نسیں پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہم اپنے آپ سے بھی سوال کریں کہ کیا اس کا کوئی علاج ہے۔ کچھ لوگ دہشت گردی و غداری کے الزام میں گرفتار ہوں، ان کا مقدمہ بڑے وکیلوں کی معاونت سے لڑا جائے، کئی سال کی صبرآزما جدوجہد کے بعد وہ باعزت رہا ہوں، پھر دنیا کو بتائیں کہ دیکھئے یہ بے گناہ تھے اور عدالتوں نے باعزت رہائی دی۔

ابھی انصاف زندہ ہے، ہمیں عدلیہ پر بھروسہ ہے۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے، کردار بدلتے رہیں، واقعات کی نوعیت میں تھوڑی بہت تبدیلی آجائے۔ سماج کے رویہ میں سنگدلی و بے رحمی کے لئے کیا ہم بھی مجرم نہیں۔ جو سوالات ان بے گناہ ’دہشت گردوں‘ نے جہنم سے نکلنے کے بعد اٹھائے ہیں وہ ایک راستہ اور لائحۂ عمل نہیں دیتے۔ اگر یہ اسٹیٹ پالیسی ہے تو ہم عوامی دبائو نہیں بناسکتے۔ جو لوگ مقدمات لڑتے ہیں ان کی عظیم خدمات و قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے علاوہ بھی ملت سے زکوٰۃ و عطیات لے کر اجر و ثواب سمیٹنے کی آرزو رکھنے والوں کی ترجیحی فہرست میں یہ معاملہ کبھی آئے گا۔ کیا ہم ایسے معاملات میں جواب دہی طے کرنے، معاوضہ دلانے اور بازآبادکاری کی منصوبہ بندی کے لئے دبائو بنانے اور اسے منوانے کی حیثیت و صلاحیت سے معذور ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوجوانوں کے ساتھ ایسے سنگین و بھیانک مذاق کی اجازت کب تک دی جاتی رہے گی۔ ایک فرد جرم اپنے خلاف بھی ضمیر کی عدالت میں عائد کی جائے اور رات کی تنہائی میں اس پر سماعت کی جائے تو یقیناً ہم خود کو قصوروار اور مجرم سمجھیں گے۔ یہ ندامت آنسوئوں کے راستہ بہہ جائے تو خدائے ذوالجلال معاف کرسکتا ہے۔ خدا کے لئے اپنے دروازے پر ایسی دستک کا انتظار مت کرئیے جو آپ کا امن و سکون غارت کردے اور سماجی عزت و وقار پر گرد ڈالنے کا باعث ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply