وزیر اعظم ملک سے کیوں بے رُخی برت رہے ہیں؟

صفدر امام قادری مشہور مزاحیہ کردار راجو شریواستو نے اپنے انعامی مقابلے والے پروگرام میں اپنے گاؤں کے ایک دوست کی ممبئی گھوم کر واپس ہونے کے مرحلے میں ریلوے اسٹیشن پہ کئی طرح کی صلاحیں دی تھیں جس میں ایک بڑا مشہور جملہ یہ بھی تھا ’’ زیادہ شو بازی نہیں کرنے کا ، جوتے کو تکیہ بناکر سونے کا‘‘۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات ہندستان کے وزیر اعظم کو کوئی بتانے والا نہیں کہ وزیر اعظم ملک کے مسئلوں سے زیادہ دنوں تک بے خبر رہ کر وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکتا۔ نریندر مودی کو سیاحت پسند ہے ۔ دیس بدیس کا دورہ کرنا اور اسی سلسلے سے دوچار دن کے لیے اپنے وطن میں بھی وقت گزار لینا ؛ اس سے حکومت نہیں چل سکتی لیکن نریندر مودی اسی انداز سے حکومت چلا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم اور 2014 انتخاب کی سرگرمیوں میں نِت نئے لباس اور رنگ برنگے کپڑوں اور پگڑیوں سے انہوں نے جس طرح آغاز کیا تھا اس میں ماشاء اللہ اتنی ترقی ہوچکی ہے کہ اگر وہ کبھی اپنے عہدے سے علیحدہ ہوئے ، جمہوریت میں یہ مزہ سب کو چکھنا ہے تو ایک دن میں سات اور سترہ لباسوں کی خرید اور دھلائی میں ہی دھرم ایمان کے پیسے ختم ہوجائیں گے۔ ملک میں بڑےسے بڑا مسئلہ ہو ، وزیر اعظم کو چار جملے بولنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے جس سے وہ مسئلہ اپنے انتہائی درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ وزیر اعظم کا کردار نہیں ہوتا۔

وزیر اعظم کو ملک کے ہر اہم مسئلے پر عوام کو باخبر کرنا چاہیے کہ وہ کس نقطۂ نظر سے کون سا کام کررہا ہے اور وہ بہرطور لوگوں کا فائدہ چاہتا ہے۔ تین برس سے زیادہ ہو گئے ، آپ یاد کیجیے نریندر مودی نے ایسے کسی بھی مسئلے پر بروقت کوئی بات کہی ہو جس کا تعلق عوامی زندگی سے ہو، ہرگز نہیں ! نریندر مودی نے اپنے اردگرد بی۔گریڈ اور سی۔گریڈ کی ایک ایسی ٹیم بنا رکھی ہے جنھیں الٹے سیدھے جو بھی کام کرنے ہیں وہ کرتے رہیں گے مگر وہ سارے کام وزیر اعظم اور حکومتِ ہند کی پالیسی کے نام پر انجام دیے جائیں گے۔ ہر چار دن پر گئو رکچھا کے نام پہ دوچار مسلمان کہیں نہ کہیں مارے ہی جاتے ہیں ۔ جب سو دو سو ایسے واقعات اخبارات میں ظاہر ہوجاتے ہیں تب نریندر مودی ایک جملے کا بیان عوام کے سامنے لاتے ہیں کہ غالب کی زبان میں بار بار یہ کہنا پڑتا ہے
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ۔۔!

غیر ضروری قوانین بنانے میں بہت مستعدی دکھائی جاتی ہے مگر اس سلسلے سے کوئی واضح قانون بنانے کی ضرورت کسی کو سمجھ میں نہیں آتی۔ نریندر مودی دیس بدیس مارے مارے پھرتے ہیں مگر کوئی بتائے کہ ہندستان کی خارجہ پالیسی میں اس سے کس انداز کی اصلاح ہوئی۔ انھیں کسی بھی ملک میں جاکر وہاں کے دو چار دس ہندستانی تنظیموں کو بلا کر یا اور کچھ نہ ہو تو گجرات کے باشندگان کی میٹنگ کرکے اور ہندستان میں اس کی تشہیر کرکے یہ بتا دینا ہے کہ وزیراعظم پوری دنیا میں مقبول ہیں ۔ امریکہ سے دوستی کا نیا باب لوگوں نے ملاحظہ کیا جب نریندر مودی کے استقبال کے لیے ایک معمولی سے عہدے دار کو بھیجا گیا تھا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نریندر مودی کو امریکہ ایک معمولی کردار سے بڑھ کر نہیں سمجھتا۔

نوٹ بندی کے معاملے میں بھی جو دھماکہ خیزی کی گئی اور پھر بار بار اعلانات میں تبدیلیاں کی گئیں اور وزیر اعظم کے فیصلوں میں ردوبدل کی گنجائشیں پیدا ہوئیں ، اس سے افسوس ناک اور کون سی بات ہوسکتی ہے؟ جی۔ایس۔ٹی۔ کا نفاذ بھی ہوگیا مگراس کی تفصیلات اور زمینی صورت حال دونوں سے ایک ایسی گریز پائی ہے جس کا اندازہ کرتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ جمہوریت میں ایسے نمائندگان کہاں سے آجاتے ہیں ؟ شتروگھن سنہا نے ایک بار مذاق کرتے ہوئے اپنی سیاسی فراست کا اس طور پر مظاہرہ کیا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حقیقت میں اسکوٹر پارٹی ہے۔ نریندر مودی ، امت شاہ اور ارون جیٹلی۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئی چوتھا ہو تو اس کا نام بتایا جائے۔ ہندستان کی تاریخ میں کئی پارٹیوں نے حکومت کی مگر یہ پہلی پارٹی ہے جس نے پارلیمنٹ، کابینہ، سیاسی پارٹی اور عوام سب کو چھوڑ کر صرف تین لوگوں پر مشتمل حکومت سازی کا ایک نایاب نسخہ ڈھونڈ لیا ہے۔

تین لوگ جب حکومت چلائیں گے تو الگ الگ انداز کی مختاری سامنے آئے گی اور اقتدار کا کچھ ایسا نجی بٹوارہ ہوگا جس سے ملک اور عوام کو کبھی کچھ نہیں مل سکتا ہے۔ صلاح مشورہ، عوام کے درمیان کسی بڑے فیصلے کے پہلے برین اسٹارمنگ یا ماہرین سے تبادلۂ خیالات جیسے معاملات اب تقریباً ختم ہی ہیں ۔ تازہ مسئلہ صدرِ جمہوریہ کے انتخاب کا جب سامنے آیا تو یہ بات اور بھی ظاہر ہوگئی۔ یہ صحیح ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے ووٹ کی طاقت پہ جسے بھی چاہے گی اسے جتا سکتی ہے مگر آغاز میں جب یہ شگوفہ چھوڑا گیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی رائے عامہ استوار کرنا چاہتی ہے تو اولا ً تو بھاجپا نے قبول کیا مگر بعد میں وہ پیچھے ہٹتی چلی گئی اور اچانک ہی اس نے ایک ایسا نام پیش کیا جس کے بارے میں ہندستان کی کسی سیاسی جماعت کے کسی شخص کو اندازہ نہیں تھا۔ سب نے یہ مانا کہ سیاسی تکبر میں یہ بھاجپا فیصلہ لے رہی ہے ۔ دھیرے دھیرے یہ بھی اندازہ ہوا کہ اگلے گجرات کے انتخابات کی تیاری رامناتھ گووند کے حوالے سے کی جارہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سلسلے سے یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ہندستانی عوام میں اور اس کے مسائل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ، سیاسی مواقع کے استعمال کا ایک سلسلہ ہے جو وہ آزمارہے ہیں ۔ وہ 2019ء سے پہلے ہندستان کے سرمایہ کاروں کے چنگل سے آسانی سے نکلنے والے نہیں ہیں ۔ ابھی ترنگ، رنگ اور شوبازی میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ اس میں اضافے کا ہی امکان ہے چہ جائیکہ ملک کے عوام، سیکولر طاقتیں اور اقلیت آبادی بغاوت کے دہانے تک پہنچ جائیں ۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply