• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • انسانیت کا جنازہ جمہوریت کے کاندھوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نازش ہماقاسمی

انسانیت کا جنازہ جمہوریت کے کاندھوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نازش ہماقاسمی

ڈاکٹر کا پیشہ انسانی خدمت کا بہترین مظہر ہوتا ہے اور لوگ ڈاکٹروں کو مہذب اور حقوق العباد کی پاسداری کرنے والا شخص تصور کرتے ہیں۔ ان سے بے لوث انسانی خدمات کی توقع اور ان کے بارے میں نہایت ہی صاف ستھرا ذہن رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کی ضرورت انسان کو کئی مرحلوں میں پیش آتی ہے، کبھی تو معمولی قسم کی بیماری کیلئے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور کبھی ایسا پیچیدہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی اور موت کے درمیان اگر کسی کو حائل سمجھا جائے تو وہ صرف ڈاکٹر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں برادران وطن ڈاکٹر کی ڈگری سے سرفراز انسانوں کو بھگوان کا روپ سمجھتیہے، انہیں بھگوان کا درجہ دیتے ہیں لیکن یہی پیشہ آج کل ملک عزیز میں سب سے زیادہ بدنام ہوگیا ہے، آئے دن اسپتال کے باہر لوگوں کو دھرنا دینا پڑتا ہے، کہیں ڈاکٹر کی کوتاہی سے کوئی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے اور کہیں اسپتال کی انتظامیہ غریب کیلئے اپنا دروازہ بند کرلیتی ہے۔ ایک جانب سرکاری اسپتالوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، خاطر خواہ نظم نہیں ہے تو دوسری جانب پرائیویٹ اسپتال اس قدر مہنگے ہیں کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں ۔ ایسے میں ڈاکٹرکا یہ مقدس پیشہ ایک داغ بن گیا ہے۔ عوام کو امید ہوتی ہے کہ ہم اسپتال جا کر علاج سے ٹھیک ہو سکیں گے لیکن جب اسپتال انتظامیہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے تو ڈاکٹری کے پیشہ سے گھن آنے لگتی ہے۔ انہیں آس ہوتی ہے کہ میری ماں، میری بیٹی، میرا بھائی ڈاکٹروں اور نرسوں کی زیر نگرانی بیماری سے شفا یاب ہوکر صحت مند ہوجائے گا لیکن چند روپیوں کی خاطر نرسوں اور ڈاکٹروں کی بیہودہ اور انسانیت سوز حرکتیں لواحقین کو رونے اور مریض کو مرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ وہ ڈاکٹر جن پر ان کے والدین کو فخر اور ناز ہوتا ہے کہ میرا لڑکا انسانیت کی خدمت کررہا ہے، وہی آج انسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے، مہذب طریقے سے عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے اورغریبوں کی غربت کا مذاق اُڑا کر فخریہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہہ رہا ہے۔ 

ملک میں کچھ دنوں سے ہورہے پے در پے واقعات نے ہندوستانی جمہوریت، ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ انسانیت کا جنازہ ہر دن کہیں نہ کہیں کسی غریب کے کندھوں پر نظر آتا ہے۔ ایک طرف دانا مانجھی اپنی غربت کی وجہ سے ایمبولینس کے پیسہ نہ جٹانے پر اپنی بیوی کو کاندھے پر اٹھا کر دس کلو میٹر تک کا سفر پیدل کرنے پر مجبور ہے تو وہیں کانپور میں ایک باپ ایمبولینس کا خرچ نہ اْٹھانے کی و جہ سے اپنے کندھے پر ہی اپنے بیٹے کی میت لے جانے پر مجبور ہے۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ گزشتہ روز ایک خبر اسی طرح کی آئی کہ ایک غریب لڑکے نے اپنی ماں کو اسپتال میں داخل کروانے کے لئے ایمبولنس کو فون کیا اور اسے یہ تک کہا کہ میں ایمبولینس کے پیسے پورے ادا کروں گا لیکن ایمبولینس والوں نے اس غریب کی آواز پر لبیک نہ کہی۔ ان بچوں کو مجبوراً اپنی بیمار ماں کو اسکوٹر پر اسپتال لے جاناپڑا اور اسپتال جاتے وقت اس کی ماں خالق حقیقی سے جا ملی۔ صرف اتنا ہی نہیں، جب انہوں نے واپسی کے لئے ایمبولینس طلب کی تب بھی اسپتال انتظامیہ نے انہیں ایمبولینس دینے سے انکار کر دیا۔ بے چارا غریب مجبوری کے عالم میں 12کلو میٹر تک مردہ ماں کو اسکوٹر کے ذریعے گھر تک لایا۔  افسوس ہوتا ہے ایسی اسپتال انتظامیہ پر۔۔۔ کیا اسپتال اسی لئے قائم کئے جاتے ہیں، کیا اسپتال کے قیام کا مقصد یہی ہے کہ محض پیسہ کمایا جائے؟ کیا اسپتال میں غریب کا علاج نہیں کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایک غریب کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو اسپتال تک ایمبولینس کے ذریعے لاسکے؟ کیا غریب ہونا اتنا بڑا جرم بن گیا ہے؟ اسپتال تو اسلئے قائم کئے جاتے ہیں کہ وہاں بلا تفریق مذہب وملت انسانیت کی فلاح کا کام کیا جائے، سسکتے لوگوں کے آنسوؤں کو پونچھا جائے، ناامیدی کو امید میں تبدیل کیا جائے ۔ لیکن حالیہ واقعات سے عوام نے انسانیت کا جنازہ اْٹھتے دیکھا ہے۔ کیا ڈاکٹر کو یہی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ غربت کے مارے ہوئوں کا علاج نہ کرے۔ اگر اس غریب کی جگہ کوئی حکومتی عہدیدار ہوتا تو کیا انتظامیہ اور ڈاکٹر اسی طرح کا معاملہ کرتے؟ ہندوستان ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہے۔۔۔ کیا ترقی یافتہ ممالک میں اسی طرح کے واقعات ہوتے ہیں جس سے پورا ملک شرمسار ہوجائے۔ ان تمام واقعات سے ہندوستان اور موجودہ حکومت کی جو عالمی پیمانے پر شبیہ داغدار ہوئی ہے، یہ کبھی نہ دھلنے والے واقعات ہیں جو ملک کی پیشانی پر ہمیشہ موجود رہیں گے۔ کیا یہی ترقی یافتہ ممالک کا شیوہ ہے کہ اپنے شہری کو عام سہولیات میسر نہ کراسکے ؛ محض چند روپیوں کے لئے ان کی جان سے کھلواڑ کرے، ان کی غربت کا مذاق اْڑائے۔ اگر ایسا ہی رہا تو مودی جی کا قول یقینا پورا ہوجائے گا کہ ہم دیش سے غربت کو ختم کردیں گے ۔ لوگ شاید اس وقت نہیں سمجھ سکے تھے اور خوش ہوگئے تھے کہ ملک سے غربت ختم ہوجائے گی۔ ہم آسودہ حالی کی زندگی گزاریں گے لیکن ان تمام شرمناک حرکتوں سے اب سمجھ میں آرہا ہے کہ غربت سے مراد غربت نہیں بلکہ غریب تھے۔ ملک سے غریب بے بسی کی موت مارمار کرکے ختم کردئے جائیں گے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دانا مانجھی کے واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے حکومت ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرتی لیکن نہیں، انہوں نے کارروائی مناسب نہیں سمجھی اور پے درپے ملک میں روزانہ کہیں نہ کہیں غربت کے مارے لوگ انسانیت سے عاری ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کے ستم کے شکار ہوکر انسانیت کا جنازہ جمہوریت کے کاندھے پر اْٹھانے پر مجبور ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت ان واقعات پر سختی سے نوٹس لے ، غریبوں کے لئے علاحدہ سیل قائم کرے ، ان کے لئے اسپتال میں خصوصی رعایت کی جائے اور جو زیادہ غریب ہے اور کچھ بھی ادا کرنے سے قاصر ہے اس کی مدد کی جائے۔ انہیں غربت کا طعنہ نہ دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کے حوصلے مزید بلند سے بلند تر ہوتے جائیں گے۔ انہیں غریب کی فکر سے زیادہ جس طرح اپنی جیب اور اسپتال کی عمارت کی فکر ہے، وہی رہے گی۔ وہ انسانیت کی خدمت کے بجائے جس طرح اپنے پیٹ کی پوجا کرنے میں مصروف ہیں اسی طرح مصروف عمل رہیں گے۔ لہذا مرکزی حکومت کو چاہئیے کہ وہ ریاستی حکومت سے سختی سے باز پرس کرے اور عوامی خدمات کے لئے قائم کردہ اسپتال میں عوام کی خدمات کو بحال کرے۔ ان کے استحصال سے باز رکھنے کی کوشش کرے، خصوصاً سرکاری اسپتالوں کا نظم و ضبط درست کیا جائے، اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو وقت کا پابند بنایا جائے، دوا کا معقول بندوبست ہو تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ ڈاکٹروں کو انسانیت کا مسیحا بنانے کی کوشش کی جائے، صرف انسان کا مسیحا نہیں۔ اس طرح کے معاملات پر صرف کمیٹی بناکر بٹھا دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹروں کو اس کا ذمہ دار بھی بنایا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(نازش ہما قاسمی بھارت میں مقیم سوشل ورکر ہیں جو سماجی حالات پہ فقط کڑھتی ہی نہیں بلکہ آواز بھی بلند کرتی ہیں۔ آپ “مکالمہ” کی باقاعدہ مصنفہ ہیں)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply