• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • یکساں سول کوڈ اور مسلمانوں کا باہمی اتّفاق : مولانا محمّد سعید قاسمی

یکساں سول کوڈ اور مسلمانوں کا باہمی اتّفاق : مولانا محمّد سعید قاسمی

حالیہ کچھ دنوں مین ملکی حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ہے۔ ہر طرف چائے خانوں،نکڑ اور چوراہوں سے لیکرعوام وخواص کی محفلوں تک میں صرف اور صرف’’ طلاق‘‘ اور’’ مسلم پرسنل لاء‘‘ موضوع بحث ہے۔

ملک کی متعصب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس موضوع پرخوب چٹخا رے لے لے کر گرما گرم بحث اور ڈیبیٹ ہو رہا ہے ۔اس وقت بڑا تعجب ہوتا ہے جب ہماری آنکھیں یہ دیکھتی ہے کہ اسلامیات کی ’’ابجد‘‘ سے بھی ناواقف لوگوں کو ٹی وی چینلس والے ماہرین اسلامیات کی حیثیت سے مدعو کرتے ہیں اور وہ اسلام کی من مانی تشریح وتوضیح کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ جو شخص اسلام کی موافقت میں بولنا چاہتا ہے، ٹی وی اینکر اسے بولنے کا موقع ہی فراہم نہیں کرتے۔ خیر، ہر ایرے غیرے اس موضوع پر اپنی علمی قابلیت جتلانے کی کوسش کر رہا ہے اور اسلامی قوانین وضوابط پر بے بنیاد الزامات کی بوچھا ر اور بے جا تنقید کر کے ارباب اقتدار،میڈیااور نا م نہاد حقوق نسواں اور جنسی مساوات کے حامیوں کی طرف سے داد و تحسین لوٹ رہا ہے۔یہ نام نہاد مفکرین اور روشن خیال لوگ، حکومت کے ذریعہ’’ مسلم پرسنل لاء ‘‘ میں مداخلت اور’’ یکساں سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کی کوششوں میں، اپنا کردار ادا کر کے مسلم دشمنی اور اسلام بیزاری کا مکمل ثبوت دیرہے ہیں۔

’’مسلم پرنسل لاء‘‘ میں مداخلت اور ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کی کو شس سے’’ مرکزی حکو مت‘‘ نے جہاں مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دیا ہے؛ وہیں خوشی کی بات یہ ہے کہ اس عمل نے مسلم قائدین کے عملی انجماد و تعطل کو بھی ختم کردیا، ہر ایک کو ایک پلیٹ فارم پر لا گھڑاکر دیا ہے اور آج ہرقائد اور ہر فرد کے اندر ایک نئی روح اور نیا جذبہ پھونک دیا ہے۔ مسلمانوں کی تمام ملی تنظیموں کے قائدین اور زعماء نے جس طریقہ سے اس اہم اور سنگین مسئلہ پر اپنے اتحاد کا ثبوت دیا اور جس بیباکی سے ’’لا ء کمیشن‘‘ کے سوالنامہ کے بائیکاٹ کا اعلان کیااور’’ مسلم پرسنل لاء‘‘ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی اور مداخلت کی کوشس کو بیک زبان حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسترد کیا، یقیناًآ ب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔’’پریس کلب آف انڈیا‘‘ سے اٹھی اس آواز پر مسلم قوم کے ہر ہر فرد نے لبیک کہتے ہوئے دستخطی مہم کو ایک ملک گیر تحریک میں تبدیل کر دیا ہے، کیا مرد اور کیا عورت، سب کے سب اس مہم میں برابر کے شریک ہیں ۔ ان کا یہ عمل قابل تعریف ہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مسلمان سب کچھ تو برداشت کر سکتا ہیں، کسی بھی قسم کی قربانی دے سکتے ہیں؛ لیکن اپنے ملی تشخص اور دین و مذہب پہ آنچ آنے نہیں دینگے۔یقیناًمسلمانوں کا یہ طرز عمل اور جذبہ جانثاری ملک کے ارباب اقتدار کے دماغوں کو جھنجھوڑ دیا ہوگا اور ان کو ضرور بالضرور اپنے موقف کے سلسلہ میں نظرثانی کر نے اور سوچنے پر مجبور کیا ہوگا۔اللہ تعالی اس میں دوام و ثبات پیدا فرمائے۔آمین!

یہ بات یاد رہے کہ صرف ’’لاء کمیشن‘‘ کے سوالنامہ کا بائیکاٹ اور دستخطی مہم ہی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے؛ بلکہ اس قسم کے ناپاک عزائم سے نمٹنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ایک طویل مدتی منصوبہ بندی اور موجودہ جذبے کو سرد پڑ نے سے روکنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور صرف اور صرف مظاہرے اور جلسے پر اکتفا کیا؛ تو ہو سکتا ہے کہ وقتی فائدہ مل جائے اور حکومت ہمارے اس اتحاد اور تصلب فی الدین کے جذبے کے سامنے عارضی طور پراس کو سرد بستے میں ڈال دے؛ لیکن مستقبل میں اس قسم کے خطرات کا خدشہ باقی رہے گاہے جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کی متعدد کوششیں ہوئی تھیں اور آج پھر ہماری کچھ معصوم بہنوں کے بھولے پن اور مجبوری اور کچھ نا عاقبت اندیش مردوں کے کرتوتوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ،آزاد خیا ل و دین بیزار افراد اور نام نہاد جنسی مساوات(Gender Equality) کے علمبردار، اسلامی شریعت کو فرسودہ زمانہ کا قانون بتلاکر ،اس میں ترمیم اور دخل اندازی کا جواز پیش کررہے ہیں اورحکومت ہند طلاق ثلاثہ کی آڑ میں عورتوں کی حق تلفی اور ان پر ظلم و زیادتی کارونا روکر مسلمانوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے ؛ اس لیے ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس حوالے سے کچھ مضبوط لائحہ عمل تیار کرکے اس کو انجام تک پہونچائیں، چاہے ہمیں حکومت وقت سے بات چیت اور گفت و شنیدبھی کرنی پڑی؛ تو ہم اپنا قدم پیچھے نہ ہٹائیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم صرف حکومت وقت کوہی مورد الزام نہ ٹھہرائیں؛بلکہ یہ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنے آپ کا احتساب کریں اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا ہم نے عورتوں کو وہ تمام حقوق دئیے ہیں جو اسلام نے عطا کیا ہے۔آج عورتوں کے اس باغیانہ تیور کے پیچھے کہیں نہ کہیں ہمارا طرز عمل بھی کار فرماہے۔ ہمارے سماج میں اب بھی سیکڑوں مطلقہ اور بیوہ عورتیں ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی ہیں اور اس بے بسی اور بدحالی کے عالم میں کسی فریاد رس اور ہمدرد کی متلاشی ہیں ۔کیا ہم نے ان عورتوں کی فریاد کی طرف ہم نے کبھی توجہ دی، ہم نے ان کے مصائب و الام کو دور کرنے کوشش کی، عام طور پر اس حوالے سے ہم ناکام ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تمام مسلم تنظیموں اوردانشوران قوم و ملت سے میں یہ گزارش کروں گا کہ وہ امت کے تئیں اپنی ذمے داری کو پوری ایمانداری و اخلاص کے ساتھ انجام دیں۔امت مسلمہ میں شریعت کے احکام کے تعلق سے بیداری پیداکی جائے اور احکام شرعیہ کے مصالح و حکم سے امت کے تمام افراد کو روشناس کرایاجائے۔عورتوں میں دینداری اور دینی تعلیم کے حوالے سے اہم پیش رفت کی جائے۔نکاح و طلاق و دیگر عائلی مسائل کے حوالے سے بیداری مہم چلائی جائے۔مطلقہ و بیوہ عورتوں کے نکا ح کی حوصلہ افزائی کی جائے۔جہیز جیسے ملعون رسم و رواج سے معاشرہ کو پاک کیا جائے۔شادی و بیاہ کے اندر اسراف اور نام و نمود سے احتراز کیا جائے؛ تاکہ پھر کوئی عورت ان اسلام دشمن بھیڑیوں کا شکا ر نہ ہو،ورنہ تو مستقبل میں ماضی کی شاہ بانو اور موجودہ سائرہ بانو جیسی متعدد عورتیں حکومت کی آلۂ کار بن کر امت مسلمہ کے لئے خطرہ بنتی رہیں گی اور ہمیں پریشانی میں مبتلا کرتی رہیں گی اور ہم اپنی طاقت وقوت کو احتجاج اور مظاہرے کی نذر کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply