یہ زہر پھیلنے نہ دیجیے۔۔ابھےکمار

یہ زہر پھیلنے نہ دیجیے۔۔ابھےکمار/آج سے 74 سال قبل جنوری کی سردی میں ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما  گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کر ڈالا ۔ باپو کے قتل کے الزام میں گوڈسے پر مقدمہ چلا اور اسے عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔گوڈسے کی اس مذموم حرکت کے بعد ملک میں بھگوا فرقہ پرست تنظیموں کے خلاف ایک ماحول بن گیا ۔ چونکہ گوڈسے کا تعلق ہندو مہاسبھا سے تھا اور وہ وی ڈی ساورکر کے رابطہ میں بھی تھے ، اس لیے عوام میں ان بھگوا تنظیموں کی مقبولیت کافی کم ہو گئی اور وہ مین سٹریم سے الگ تھلگ پڑ گئے۔ اس کے بعد سیکولر فورسز کو یہ لگا کہ اب بھگوا عناصر کبھی بھی دوبارہ سر اٹھا کر سامنے نہیں آئیں گے۔مگر سیکولرفورسز کی یہ خام خیالی تھی۔ رفتہ رفتہ بھگوا طاقتوں نے کام کرنا شروع کیا ۔ ا نہوں نے سیکولر فورسز کی موقع پرستی اور غفلت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اورتصویر بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا ۔ گوڈسے نواز طاقتیں آج اقتدار کی کرسی پر قابض ہیں اور ملک کی ساجھی وراثت میں یقین رکھنے والے لوگوں اور اس پر عمل کرنے والے افراد کو وہ غدار وطن، مسلم نواز ہندو کہہ کر دن رات گالی دیے  جا رہی ہے۔

آج صورت حال اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ بابائے قوم کے قاتل گوڈسے کے مجسمہ پر گل پوشی کی جا رہی ہے اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے اس کی آرتی اُتاری جا رہی ہے۔ یہ سب ملک کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ گوڈسے کے پستول سے نکلنے والی گولی سے بھی زیادہ خطرناک اس کی فرقہ وارانہ فکر ہے۔ گولی تو ایک انسان کی جان لے سکتی ہے، مگر نفرت، تفریق اور فتنہ کو بھڑکانے والا نظریہ پورے سماج اور ملک کو تباہ اور برباد کر سکتا ہے۔

ناتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری ،1948 کی شام پانچ بجے باپو کے جسم میں تین گولیاں  ماریں۔ یہ واقعہ تب پیش آیا جب وہ دہلی میں واقع بِرلا ہاوٴس میں عبادت کر رہے تھے۔ گوڈسے گاندھی کے افکار اور ان کی پالیسی سے کافی ناراض تھا۔ ا س کو لگتا تھا کہ گاندھی مسلمانوں کے مفاد میں اس قدر کام کر رہے ہیں کہ ان میں ہندو سماج اور بھارت کے ہِت کا بڑا بھاری نقصان ہو رہاہے۔ حالانکہ ان باتوں میں کوئی سچائی نہیں تھی۔ گوڈسے کی سوچ کے اوپر بھگوا شدت پسند تنظیموں کا اثر تھا۔ گوڈسے اپنی جوانی کے دنوں میں آر ایس ایس سے جڑا ہوا تھا۔ پھر وہ ہندو مہاسبھا کے قریب آیا ۔ اتنا ہی نہیں وہ مہاراشٹرا سے شائع ہونے والے مراٹھی روزنامہ “اگرانی” اخبار کا مدیر بھی تھا۔ اس کو لوگ پنڈت ناتھو رام گوڈسے کے نام سے بھی پُکارتے تھے اور وہ ساوکر کے کافی قریب تھا۔ گاندھی کے بارے میں گوڈسے نے بہت ساری غلط فہمیاں پال رکھی تھیں ۔ اسے یہ لگتا تھا کہ گاندھی مسلمان، مسلم لیگ کے رہنماوٴں اور پاکستان پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہیں، جبکہ وہ اس بات سے فکر مند نہیں ہیں کہ ہندوٴں کے خلاف قتل  و  غارت کرنے والے یہی لوگ ہیں۔

در اصل گاندھی اور سیکولر فورسز کو مسلم نواز کہنے والا گوڈسے ہی واحد شخص نہیں تھا۔ آج بھی اس طرح کی بات بھگوا عناصر کی طرف سے پھیلائی جاتی ہے کہ سیکولر لیڈرشپ مسلمان کے لیے کام کرتی ہے اور اسے ہندو سماج اور ملک کی زیادہ فکر نہیں رہتی۔ گوڈسے کا بھی یہی ماننا تھا کہ تقسیم ملک کے وقت مسلمانوں نے ہندوٴں پر ظلم اور زیادتی کی اور مسلم لیگ کی سرکار خاموش تماشائی بنی رہی۔ گاندھی سے گوڈسے کی ناراضگی اس بات سے تھی کہ گاندھی اپنی عبادت کے دورا ن قرآن بھی پڑھتے ہیں۔ گوڈسے کی غلط سوچ کی بنیاد میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی تھی کہ قدیم زمانہ سے ہندوستان ہندوٴں کے لیے مادر وطن اور   مقدس سرزمین رہا ہے۔ بھارت کی جو عظیم تاریخ ہے اسے بنانے میں صرف اور صرف ہندووٴں کا ہی رول رہا ہے۔ وہیں دوسری طرف مسلمان بھارت میں 10 ویں صدی کے بعد داخل ہوتے چلے آئے  اور انہوں نے” ہندو “ملک کے اوپر مسلم حکومت تھوپ دی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانو ں کو حملہ آور کہنے والوں میں صرف گوڈسے ہی شامل نہیں ہے، بلکہ  ملک کی حکومت کے عالیٰ منصب پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے بھی ہزار سال کی غلامی کی بات کہہ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا ۔

گوڈسے اور دیگر بھگوا فرقہ پرستوں کی نفرت انگیز سوچ اس وجہ سے ہے کہ ان کو یہ لگتا ہے کہ مظلوم تو صرف ہندو ہی ہو سکتا ہے اور ظالم صرف غیر ہندو، جیسے مسلمان، مسلم لیگ، پاکستان اور عیسائی ہو سکتا ہے۔ اگر بات تقسیم ملک کی ،کی  جائے تو یہ کہنا کہ دنگوں میں صرف ہندووٴں کا ہی خون بہا تو یہ سراسر غلط بات ہوگی۔ مگر گوڈسے کو صرف ہندو خون بہتا ہوا دِکھ رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ خون ہندو کا نہیں بہا، اور نہ ہی خون مسلمان اور سِکھ کا بھی بہا تھا۔ صحیح معنوں میں کہا جائے تو خون مظلوموں کا بہا اور ظلم اور زیادتی کرنے والے طاقتور لوگ تھے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں ہندو کے ساتھ ظلم کیا گیا ہوگا، اور کسی علاقہ میں سِکھ، عیسائی ، مسلمان اور دیگرکے ساتھ۔ دراصل تقسیم ملک بھارت میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے ایک المیہ تھا، جس میں خون انسان کا بہا اور خون اس لیے بہا کہ ہندوستان کے لیڈران نے اپنی کرسی کی پرواہ زیادہ اور معاشر ہ اور ملک کی پرواہ کم کی تھی۔ اگر ان لیڈروں نے اقتدار میں سب کو شریک کرنے اور کمز ور سے کمزور طبقات کو اس کا حق دینے کی کوشش سچے دل سے کی ہوتی تو آج ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

یہ بات بھگوا تنظیم  سمجھنا نہیں چاہتی ہے کہ بھارت کی اصل طاقت یہاں کے لوگوں کے مابین اتحاد ہے۔ لوگوں کودھرم کے نام پر لڑانے سے ایک مخصوص سیاسی جماعت ہی مضبوط ہو سکتی ہے، مگر سماج اور ملک اندر سے کمز ور ہوتا ہے۔ یہ بات فرقہ پرستوں کو کون سمجھائے کہ یہ ملک جتنا ہندوٴں کا ہے اتنا ہی مسلمان اور دیگر مذہبی گروپ کا ہے۔ اس ملک کے وسائل پر جتنا حق عالیٰ ذاتوں کا ہونا چاہیے اسی طرح پسماندہ ، دلت، آدی واسی سماج کے لوگوں کو بھی حق ملنا چاہیے۔ جس طرح مرد کو تمام حقوق دیے گئے  ہیں، اسی طرح خواتین کو بھی حقوق ملنے چاہئیں ۔ یہ کہنا کہ یہ ملک صرف ہندووٴں کا ہے، یہ بات ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کرتی ہے۔ کیا ملک کی آزادی میں ہندووٴں کے علاوہ دیگر سماجی گروپ کے لوگوں نے قربا نی نہیں دی تھی؟ کیا بھارت کی تاریخ صرف آریائی، ویدک اور ہندو تہذیب تک ہی محدود ہے؟

ہرگز نہیں۔۔ در اصل بھارت کی تاریخ صرف ہندو تہذیب کی داستان نہیں ہے، بلکہ اس میں بدھ مت، جین مت، اسلام، عیسائت، پارسی اور سِکھ دھرم کی بھی عظیم داستان  شامل ہے۔ جہاں بھارت میں آریائی، ویدک اور سنسکرت تہذیب اہم ہے، اسی طرح بھارت میں دڑاوڑ کلچر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس ملک میں دھر کو ماننے والوں سے لے کر دھرم کو نہ مانے والوں تک کی تاریخ اور افکار شامل ہے۔ افسوس کی بات کہ سیاسی فائدہ کے لیے باپو کے قاتل گوڈسے کے حامیوں کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے ان کو بچایا جا رہا ہے۔ یہ سب رجحانات ملک کی مشترکہ وراثت کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔ آئیں ایک بار پھر ہم باپوکے یوم شہادت پر عہد کریں کہ ہم گوڈسے کی زہر یلی سوج کوپھیلنے سے روکیں گے اور اس کے حامیوں کو سماج میں الگ تھلگ کرنے کے لیے پوری کوشس کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply