امریکی جج صاحب۔۔محسن علی خان

جج صاحب کا نام فرانسسکو کیپریو ہے، نِک نیم فرینک ہے، کچھ لوگ کیپری بھی کہتے ہیں، جو زیادہ فرینک ہیں وہ فرینکی بھی کہتے ہیں۔ لیکن ہم چونکہ پاکستان میں ہیں، توہین عدالت کے ڈر سے، بھاری جرمانہ، جیل یاترا سے بچنے کے لئے اور اپنی سرکاری نوکری بچانے کے لئے میں تو ان کو محترم جج صاحب ہی کہوں گا۔

جج صاحب کے نام اور میٹھے اندازِ گفتگو میں سے جو اطالوی (اٹلی) جزیروں کی خوشبو آتی ہے وہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ امریکہ جیسے مواقعوں کی جنت والے ملک میں جہاں دنیا بھر سے امیگرینٹ آتے ہیں اور بہت کم وقت میں امریکی معاشرہ میں اپنا نام اور مقام بنا لیتے ہیں۔

جج صاحب کے والد کا نام انتونیو کیپریو تھا جو کہ اٹلی کے ایک قصبہ“ تینو“ سے ہجرت کر کے امریکہ آۓ پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ شادی کی، بچوں کی پرورش کی، اور جج فرینک جیسے خوبصورت انسان کا تحفہ امریکی معاشرہ کو دیا۔

جج صاحب کی عمر اس وقت لگ بھگ چوراسی سال ہے، لیکن اپنی دل موہ لینے والی مسکراہٹ، خوش اخلاقی اور زندہ دلی کی وجہ سے ساٹھ سال کے دِکھائی دیتے ہیں۔ جج صاحب اک پہلوان، استاد، وکیل، جج، فیملی مین اور سب سے بڑھ کر ایک ایسے انسان ہیں جن کے دل میں رحم دِلّی اور مدد کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اپنے سامنے آۓ ہر مجرم کو جب عزت دیتے ہیں تو مجرم اپنے کئے ہوۓ جرم پہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی شرمندہ دکھائی دیتا ہے۔

جج بننے کا عمل آسان نہیں ہے، صرف کتابیں پڑھ کے امتحان پاس کر کے، ریلیوں میں نعرے لگا کے، مسلسل کالے رنگ کا پینٹ کوٹ پہن کے، سفید رنگ کی شرٹ کا کالر بند کر کے کالی ٹائی لگا کے ، ضمیر کو جوتے کی جگہ پہن کے اپنے کالے فیصلوں کی پالش کی تہیں چڑھا کے، جبہ کے اوپر سفید رنگ کی وِگ لگا کے، صدیوں تک کیلنڈر گھما کے تاریخیں دینے کے فن، انصاف کی فراہمی روک کر، پانی کے بہاؤ پہ چارپائی ڈال کر بیٹھنے کا عمل نہیں ہے۔

جج بننے کے لئے آپ کو اپنے حواس خمسہ کو مکمل طور پر قابو میں رکھنا، چھٹی حِس کو بے قابو کرنا اور معاشرہ کا متواتر مشاہدہ کرتے رہنے کی عادت ڈالنا پڑتی ہے۔ آپ کو فراست کے اُس درجہ پہ فائز ہونا پڑتا ہے، جہاں آپ کو کوئی بھی طاقت ڈس نہ سکے، کوئی اندھا جو بہرا بھی ہو، گونگا ہونے کی وجہ سے بول بھی نہ سکے، ٹانگیں نہ ہونے کی وجہ سے رینگ رینگ کے آپ کے سامنے انصاف کے لئے آۓ، لیکن جب آپ کی عدالت سے باہر نکلے تو آپ کا انصاف اُسے مکمل کر دے، اور جب فرعون بھی آۓ تو وہ کانپتا نظر آۓ، کہ یہاں اُس کی خدائی بھی نہیں چل سکتی۔

فرینکی میں بچپن سے ہی جج بننے والی خوبیاں تھیں، سکول میں داخل ہوا، گھریلو حالات کی وجہ سے پڑھائی کے ساتھ محنت مزدوری بھی کرنی پڑی، ڈش واشر، شوز شائنر جیسی نوکریاں بھی کیں، کالج میں پہنچا، گریجوائشن مکمل کی، پرویڈنس کے ہوپ ہائی اسکول میں استاد بن کے اپنی ریاست کے بچوں کی خوبیوں کو چمکانے لگا، شوز شائنر سے سِکلز شائنر بن گیا۔
سارا دن اسکول میں آۓ کُند ذہن بچوں کے دماغوں سے زنگ واش کرتا، رات کو خود قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کلاسز اٹینڈ کرتا۔ قانون کی ڈگری لی اور مختلف ادوار زندگی سے گزرتا ہوا سنہ 1985میں میونسپل کورٹ کا جج بنا اور آج کل رقبہ کے لحاظ سے سب سے چھوٹی امریکی ریاست“ رہوڈ آئی لینڈ“ کے کیپیٹل پروویڈنس کے چیف میونسپل جج کے عہدہ پہ فائز ہے۔

جج صاحب کی پروسیڈنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں ، تو بہت سے انصاف کے متلاشی لوگوں کا اپنے اپنے مُلک کے انصاف کے نظام پر حسرت کے آنسو بہانے کو دِل کیا، آج سے دو سال پہلے جج فرینک کے ویورز کی تعداد پندرہ ملین تھی جو اب بڑھ کے تیس ملین تک پہنچ چکی ہے۔ جج صاحب کے سامنے تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ آ چکے ہیں، جس میں ایک چھیانوے سال کے بزرگ بھی تھے جن کو اسکول کے دائرے میں تیز رفتاری کی وجہ سے بلایا گیا تھا، چھیانوے سالہ بزرگ نے جب جج کو بتایا کے وہ بہت احتیاط کے ساتھ ڈرائیونگ کرتا ہے لیکن اس دن اس کو اپنے تریسٹھ سالہ بیٹے کو خون لگوانے ہسپتال جانا تھا کیونکہ وہ کینسر کا مریض ہے، جج نے اس عمر میں بھی اپنے بیٹے کے لئے انتہائی فکرمند ہوتا دیکھ کے بزرگ کی بہت حوصلہ افزائی کی اور بزرگ کے خلاف کیس خارج کر دیا۔

یہاں میں ایک پاکستانی طالبعلم سلمان کا بھی ذکر کروں گا جس نے جج کے سامنے پیش ہو کے بتایا کہ وہ تین سال سے امریکہ میں ہے اور پاکستان کے لوگوں کا جج کیپریو سے پیار کا بھی بتایا، جج نے ازراہ مذاق کہا کہ مجھے مکھن لگا رہے ہو۔ جج نے نہ صرف اس کا جرمانہ ادا کیا بلکہ اس کو ڈنر کی آفر کی۔ جج نے امید ظاہر کی کہ سب ممالک کی عدالتیں ایسا رویہ اپنائیں گی جس سے سائل کو اپنی عزت اور تحفظ کا احساس ہو۔

ہر امریکی ریاست کا اک“ موٹو“ ہوتا ہے، جیسے ریاست کولمبیا کا “ انصاف سب کے لئے “، نیو یارک کا “اعلی وارفع ”، ریاست آرکنساس کا “ لوگوں کی حکمرانی “ ہے اسی طرع جج فرینک کی ریاست کا موٹو “ ہوپ“ ہے یعنی کے” اُمید“۔ جج فرینک اپنی ریاستی موٹو پہ پورا اُترتے ہوۓ لوگوں کی ہوپ بن چکا ہے۔
ہمیں بھی اپنے صوبوں اور تحصیلوں کے موٹو بنانے چاہئے، تاکہ ہماری کوئی ڈائریکشن ہو، اور ہم اُس موٹو کا دفاع کر سکیں۔ ہمیں پتہ ہو کہ اُس موٹو کے زِیر سایہ رہ کر ہم کیسے زندگی آسان بنا سکتے اس علاقے کے بسنے والے لوگوں کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جج صاحب کو اب اپنی ریاست کے علاوہ باقی ریاستوں سے بھی باقاعدہ محبت بھرے خطوط ملتے ہیں، بہت سے لوگ جو کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی رقم جج کو پہنچاتے ہیں، لوگ جج کو وِش کارڈ بھیجتے جس میں سے امریکی ڈالر نکلتے ہیں، تاکہ جو لوگ اپنا جرمانہ ادا نہیں کر سکتے ان کی مدد کی جاۓ۔ یہ کسی بھی شخص پہ اعتماد کی حد ہوتی ہے۔ اس طرع لوگ جج سے اپنی چاہت کا اظہار بھی کرتے اور جج پہ اعتماد کرتے ہوۓ اس کے فیصلوں کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔ یہ دراصل لوگوں کا اپنے سسٹم پہ اعتماد کا اعلان ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ہم اپنے سسٹم پہ اعتماد نہیں کر پاتے، دراصل ہمیں کسی جج کے فیصلہ پہ یقین نہیں آتا، لیکن سسٹم پہ اعتماد کے لئے ہمیں پہلے فرینک جیسے جج پیدا کرنے ہوں گے، جو لوگوں کی احساس محرومی دور کر سکیں، جو لوگوں کو فوری اور سستا انصاف مہیا کر سکیں۔ پھر لوگ وِش کارڈ میں پیسے رکھ کر جج خریدنے کی کوشش نہ کریں، بلکے وِش کارڈ میں پیسے رکھ کر ان لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کریں جن کو انصاف ملنے میں تاخیر ہو رہی ہو گی۔ پھر صحیح معنی میں تبدیلی ہو گی، پھر حقیقی پاکستان دو نہیں ایک پاکستان ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply