ہم کس گلی جارہے ہیں۔۔عمران علی

ارض ِوطن پاکستان محض ایک ملک نہیں ہے بلکہ اس خطے میں جغرافیائی اور نظریاتی اساس  کی بنیاد پر بے پناہ اہمیت کا حامل ہے، امریکہ اور سویت یونین کے درمیان طویل عرصے تک رہنے والی جنگ میں پاکستان نے اپنا بہت مؤثر کردار ادا کیا، اور اس جنگ کے خاتمے کے بعد افغان مہاجرین کی آج تک میزبانی کر رہا ہے۔

پاکستان کی سرحدیں چین، ایران، افغانستان اور بھارت سے ملتی ہیں اور یہ تمام ممالک کسی نہ کسی وجہ سے پوری دنیا کی سیاست میں بہت اہم گردانے جاتے ہیں، یہ تو پاکستان کا سٹریٹجک پہلو ہے، لیکن اگر ہم اپنی اقدار، ادب اور ثقافت کا احاطہ کریں تو بجاء طور پر پاکستان نے ادب، ثقافت اور فن  میں اپنا لوہا منوایا ہے۔

فیض احمد فیض، ابن انشاء، جون ایلیا، انور مسعود، پروین شاکر، احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد جیسے شہرہ آفاق شعراء کرام نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا، فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، سر قدرت ا ﷲ شہاب، اشفاق احمد، قراۃ العین حیدر، ابن انشاء اور مشتاق یوسفی جیسے گوہر نایاب اسی دھرتی سے اُٹھے اور اپنی تحریروں اور کتب سے ادب کی دنیا میں ایسے ایسے بے نظیر خزانے چھوڑے کہ رہتی دنیا تک اپنا اور اپنے وطن کا نام سنہری حروف میں لکھوا دیا، چاہے کھیل کی دنیا ہو یا فن موسیقی ہو، پوری دنیا میں پاکستان کا ایک اہم مقام ہے، وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہر شعبے میں ترقی دیکھنے میں آئی ہے، ترقی  کی رفتار کم ضرور ہے مگر پھر بھی معاشی مشکلات، امن و امان کی صورتحال اور دیگر چیلنجز کے باوجود کسی نہ کسی حد تک ترقی کا سفر جاری ہے۔

سیاست کے بغیر ریاستوں کا نظام نہیں چل سکتا، کیونکہ سیاسی عمل سے عوامی رائے عامہ اقتدار کے ایوانوں تک ووٹ کے ذریعے  پہنچتی ہے، اور یہ بات طے ہے کہ عوام اپنے سیاسی قائدین کو اور ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتی ہے، پچھلی دو دہائیوں میں عوام میں سیاسی شعور بیدا کرنے کی غرض سے میڈیا نے بہت  اہم کردار ادا کیا ہے، ہر سیاسی جماعت کے نمائندے کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنی جماعت کے منشور کا دفاع کرے اور اپنے قائدین کے لیے رائے عامہ ہموار کرے، مگر ایسا کر نے میں اخلاقی اقدار کا تو جنازہ ہی نکل گیا ۔دوسری طرف ترقی اور آزادی رائے کے نام پر میڈیا چینلز ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں الٹے سیدھے ٹاک شوز کی آڑ میں جانے انجانے میں قوم میں ایک بے چینی اور انتشار پھیلانے کا سبب بننے لگے، سیاست اور سیاسی اختلافات جمہوریت کا حصہ ضرور ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کرنے والے جب ٹاک شوز  میں  آتے ہیں، تو وہ مکمل طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں، چاہے وہ حزب اختلاف سے ہوں یا وہ حزب اقتدار کی نمائندگی کر رہے ہوں۔

لیکن اب یہ شوز باقاعدہ طور پر نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ، جس سے عدم برداشت میں اضافہ ہورہا ہے، اخلاق سے گری ہوئی گفتگو، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا معمول بنا ہوا ہے اور سب سے بڑھ کر خواتین کے حوالے سے غیر محتاط زبان کا بے دریغ استعمال ہونے لگا ہے۔

ہمیں بحیثیت قوم اس کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی، کوئی بھی سیاسی جماعت ہو ،اس سے وابستہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ جب میڈیا سے بات کررہے ہوں تو بہت محتاط رویہ اختیار کریں، پچھلے چند ماہ میں تو ٹاک شوز میں طوفان بدتمیزی اپنے عروج پر رہا  ہے، یہ ہم کس ڈگر پر چل پڑے ہیں، پیمرا کو عوام کے بہترین مفاد اور نسل نوء کی مؤثر کردار سازی کے لیے اپنے قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے، یہ مذاق نہیں ہے کہ ایک ذمہ دار سیاسی قائد ایک دن ایک ٹاک شو میں پوری قوم کو جوتا دکھائے اور اگلے دن معصومیت سے کہے کہ میرا ذاتی فعل ہے۔

یہ حکومت وقت پر براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی وقار کو نا  صرف بحال کرے بلکہ، قومی مفاد کے معاملات پر میڈیا کو ایک حد تک سوال جواب کی اجازت ہو، پوری دنیا میں ہمارے سیاسی قائدین کے بیانات کی وڈیوز کو چلا چلا کر ہمارے دشمن ہمارے ملک کو بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اپنے وقار اور اپنی اعلیٰ اقدار کو تباہ ہونے سے بچائیں ،کیونکہ پاکستان کا وقار ہم سب کا وقار ہے، پاکستان کے ہر شہری کو مکمل ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا، کیونکہ پہلے ہم پاکستان ہیں بعد میں سیاستدان، وکیل، ڈاکٹر، اساتذہ یا سٹوڈنٹس ہیں، سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی ہمیں بے حد محتاط ہونا ہوگا، اور پاکستان کے دشمنوں کو ناکام بنانا ہوگا۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے.
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو!

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply