• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط3/پروفیسر حکیم سید صابر علی

استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط3/پروفیسر حکیم سید صابر علی

EXIT کے کچھ دیر بعد ہوٹل تک جانے کے لیے متعلقہ ایجنسی کا کوئی آدمی نظر نہ آیا۔زبان کی ناواقفیت،ہوٹل تک رسائی کی لاعلمی،وقتی پریشانی ہوئی،ترکی کے شاندار اور وسیع ائیرپورٹ عملہ کی تیز رفتاری سامان کے حصول میں سہولت،اور صفائی ستھرائی دیکھ کر ترکی کی ترقی اورشاندار پیش رفت پر دل خوش ہوا،ابھی دونوں دوست ٹیکسی اور ہوٹل کی معلومات میں مصروف تھے کہ سیراب کمپنی کے افراد خود ہمارے متلاشی نظر آئے، معلوم ہوا کہ 53افراد جن میں خواتین،بچے اور دیگر شامل ہیں وہ سب کو ایک جگہ اکٹھا کررہے ہیں،جہاں ویگنوں کے ذریعے وہ مختلف ہوٹلوں میں لے جائیں گے،کسی زیادہ تردد اور پریشانی کے بغیر ہمیں ایک گاڑی میں بٹھایا گیا،آخر حافظ آباد سے خرم،غلام حیدر،اور خالد نامی نوجوان سے تعارف ہوا،جو بعد میں سفر کے اچھے ساتھی ثابت ہوئے۔
کوچ صاف ستھری سڑکوں سے گزرتی ساحل کے ساتھ ساتھ منزل کی طرف رواں دواں تھی،کہیں کہیں قدیم تعمیرات،پتھروں کی دیواریں،پرانی عمارات کے کھنڈرات پر نظر پڑتی،تنگ سڑکوں اور بازاروں میں انتہائی مہارت سے ڈرائیو کرتے یہ گاڑی ہوٹل پہنچی۔۔

یہ بھی پڑھیں :استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط2/پروفیسر حکیم سید صابر علی
یہ بہت اچھا اور پُرسکون ہوٹل تھا۔تینوں دوستوں کو ایک کمرہ دیا گیا،صاف ستھرا،ٹوائلٹ بھی صاف،اجلے بستر،ہم نے غسل کرکے ظہرین ادا کی۔
ہوٹل کے میس کی ابھی خبر نہ تھی،دونوں دوستوں نے اصرار کیا کہ ترکی کے کھانے مشہور ہیں،کچھ کھانے کی تلاش کے لیے نکلے۔۔۔۔
ہوٹل کے سامنے ایک سڑک جو خاصی چڑھائی پر بنی ہوئی تھی،اوپر گئے تو وہاں سڑک پر ہر طرح کی ٹریفک جاری تھی،ہر تین منٹ کے بعد ٹرام آتی،کاریں بھی دوڑرہی تھیں،مختلف کھوکھے نما دکانیں تھیں،لوگ مختلف غذائی اشیاء کھارہے تھے،مگر اپنے ذوق کی کوئی چیز نظر نہ آئی۔اس مٹر گشتی اور ہوٹل کی تلاش کے دوران sinaنامی قبرستان دیکھا،جس کے مین گیٹ پر 1119 درج تھا۔۔بعض قبروں پر ہمارے ملک کے برعکس بھاری بھاری پتھروں کی سِلوں پر مبنی کئی کئی فٹ بلند گول اور مستطیل پتھر نصب تھے۔1296کی تعمیر کردی قبریں،حیرت ہوئی کہ اتنی بھاری بھاری پتھر انسان کیسے اٹھاتے ہوں گے۔

بعض رہائشوں کے اندر اس طرح کی قبریں چار دیواری کے اندر سے نظر آئیں،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر خاندان نے اپنے بزرگوں کو اپنے ہی گھروں کی چار دیواری میں دفن کرکے کتنے لگائے ہوئے ہیں،ممکن ہے ترکی میں خاندانی قبرستانوں کا رواج صدیوں پہلے پایا جاتا ہو،قبروں کی حفاظت اور احترام ترک کلچر کا اہم حصہ نظر آتا ہے۔کچھ دیر گھومنے کے بعد ایک ریستوران ملا،جہاں گزارے لائق کھانے کومل گیا،بِل ادا کیا تو احساس ہوا کہ مہنگائی کے جراثیم یہاں بھی پروان چڑھ چکے ہیں، قریب ہی ایک مسجد میں نمازِ مغرب ادا کی۔تُرک مساجدقالینوں سے آراستہ ہیں،وضو کا عمدہ انتظام،جراب کے بغیر مسجد میں آنے کو پسند نہیں کیا جاتا۔

حُقہ شیشہ کا بازار:شیشہ پینے والے متوالے

معلوم ہوا کہ ہمارے ہوٹل کے راستے میں ایک بازار ہے،جہاں شیشے کا حُقہ پینے والوں کو ایک جگہ بیٹھ کر حُقہ پینے کی “سہولت”دی گئی ہے۔اگرچہ ان چیزوں سے نفرت ہے،تاہم “ہمہ یاراں بہشت”ساتھیوں کے ذوقِ زیادت نے مجبور کیا۔۔۔خاصی کشادہ جگہ میں خوبصورت فرشی گاؤ تکیے اور بعض جگہ آرام دہ صوفے اور کرسیاں رکھی گئی تھیں،حُقے سے لطف اندوز ہونے کے لیے خوبصورت شیشے کے حُقے جن پر قدرے بڑی ٹوپیاں تھیں،کچھ نوجوان حُقے کی ٹوپیوں میں نشہ آور پُرکیف،قدرے خوشبودار”مواد”تمباکو کی جگہ بھرتے اور ان پر مخصوص ورق چڑھا کر ان پر دہکتے کوئلے رکھ کر ان لوگوں کے سامنے رکھتے،سینکڑوں افراد حپقے کی نے منہ لگا کر گُرگُڑ کرتے اور ہوامیں د ھوئیں کے مرغولے چھوڑتے۔۔حقہ لانے والوں کی مٹھی گرم کرتے اور عالمِ وجد میں عالمِ بالا سے رابطہ جوڑتے نظر آتے،ساتھ ہی ساتھ کافی مختلف قہوے اور چائے کی چُسکیوں سے بھی لُطف اندوز ہوتے۔۔
محسوس ہوا کہ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی شیشہ پینے والے تیزی سے بڑھ رہے ہیں،اللہ تعالی اُمت پر رحم فرمائیں۔۔
کچھ دیر یہ نظارہ کیا،اپنی نئی نسل کی بربادی کے ساماں کو دیکھا کیے،اور سردی سے بچنے کے لیے ہوٹل کا رُخ کیا،ہوٹل انتظامیہ میں نوجوان بچیوں کو کام کرتے دیکھا تو یورپ کی جھلک محسوس کی،اگرچہ اب پاکستان کے تمام اداروں،ہوٹلوں،بینکوں،تعلیمی اداروں،ریلوے سٹیشن،اور دیگر اداروں میں بھی مشرف دور کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply