امتحان کی تیاری کیسے کی جائے(پارٹ2) 2

4) اکثر لوگوں کو حافظے کی خرابی کی شکایت ہوتی ہے اور ان کو کوئی چیز بھی دیر تک یاد نہیں رہتی ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ سبق لکھ لکھ کر یاد کریں اور اسی بات کا ذکر ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی آیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حافظے کی خرابی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے خط (یعنی لکھنے )کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا اپنے دائیں ہاتھ سے مدد طلب کر۔
(کنز العمال ، کتاب العلم ، ج 10 ، ص 107 ، رقم الحدیث 29291 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
5) پڑھائی کے دوران سپیڈ بہت ضروری ہے کیونکہ سپیڈ سے ہی توجہ بنتی ہے بہت سے بچے کہتے ہیں کے ہم پڑھائی پر توجہ برقرار نہیں رکھ پاتے کیونکہ ہمارا دھیان بھٹکتا ہے تو اس کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے سپیڈ یعنی جو بھی پڑھو تیزی سے پڑھو ۔لیکن ہم کیا کرتے ہیں ہم آہستہ آ ہستہ پڑھتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے دھیرے دھیرے پڑھنے سے یاد ہوتا ہے، نہیں الٹا دھیرے دھیرے پڑھنے سے دھیان بھٹکتا ہے ہم ہر 5 منٹ بعد خیالوں میں کھو جاتے ہیں ۔سپیڈ نہ ہو تو من کمزور ہو جاتا ہے اور ڈولتا رہتا ہے ۔جیسے سائیکل چلاتے وقت ہوتا ہے سائیکل سپیڈ ہی کی وجہ سے بیلنس بنا پاتی ہے اگر تم سائیکل دھیرے چلاوگے تو کبھی دائیں گرے گی کبھی بائیں گرے گی ۔سائیکل چلانے کے بجاے تم صرف بیلنس بنانے کے چکّر میں ہی لگے رہوگے اس لئے ہمیں جو بھی پڑھنا چاہئے تیز پڑھنا چاہئے شروع شروع میں آپ کو لگے گا آپ صرف پڑھ رہے ہیں آپ کو سمجھ کچھ نہیں آ رہا لیکن آپ کو یہ اس لئے لگے گا کیونکہ آپ پہلی دفعہ آپ ایسا کر رہے ہونگے لیکن 2،3 دنوں میں آپ کا دماغ بھی سپیڈ پکڑنے لگےگا آپ محسوس کریں گے کہ آپ جتنی تیزی سے پڑھ رہے ہیں اتنی ہی اچھی طرح آپ کو یاد بھی ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ speed memory پر کام کرتا ہے اس حوالے سے ایک مثال سمجھیں اگر کوئی اپنا موبائل نمبر آپ کو دھیرے دھیرے بتائے تو آپ ایسے یاد نہیں کر پاو گے کیونکہ اکثر ہم موبائل نمبر کو یاد کرنے کے لئے انہیں تیزی سے من میں دوہراتے ہیں اور وہ یاد ہو جاتے ہیں۔ المختصر یہ کہ دماغ کو کام کرنے کے لئے 2 چیزیں چاہئے ہوتی ہیں اکیلا پن اور سپیڈ اور ان دونوں کی مدد سے ہی آپ اپنے سبق یاد کرنے کی رفتار کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں۔
6) امتحان میں ان بچوں کے نمبر سب سے زیادہ آتے ہیں جو پریکٹس فارمولے پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ اگر آپ سبق کبھی کبھی یاد کرتے ہیں تو سبق کبھی اچھا یاد نہیں ہو گا لیکن اگر آپ اس سبق کو یاد کرنے کی مسلسل پریکٹس کرتے رہتے ہیں تو نہ صرف وہ سبق آپکو یاد ہو جاےگا بلکہ دیر تک حافظہ میں محفوظ بھی رہیگا کیوں کہ جو بندہ روز پریکٹس کرتا ہے اپنے آپ کو آنے والے وقت کے لئے تیار کرتا ہے وہ بڑا چمپین بن جاتا ہے اس حوالے سے محمّد علی کلے کی مثال دیکھیں وہ ایک دفع ریسلنگ کے لئے اترا اور اپنے مقابل کو ایک پنچ مارا اور وہ ریسلنگ اسی وقت جیت گیا صحافی آیا اور اس نے سوال کیا محمّد علی کلے آج جو تمہیں انعام ملا وہ لاکھوں ڈالر ہے بتاو ایک پنچ سے لاکھوں مل جاتا ہے کیا ؟ اس نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ اس پنچ کو بنانے کے لئے میں نے 21 سال پریکٹس کی ہے اور آج یہ پنچ چھوتا ہے تو بندہ نیچے گر جاتا ہے اسی طرح نمبر حاصل کرنے کے لئے بھی مسلسل پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہیں کیوں کہ بڑی کامیابی ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا کر اور مسلسل پریکٹس کو اپنا کر ہی حاصل ہوتی ہیں
7) امتحان کی تیاری کے لئے اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے پڑھنے کے اوقات کا تعین کریں کیونکہ اگر آپ صرف یہ کہیں گئے کہ میں کل تیاری کے لیے بیٹھونگا تو کل بھی گزر جاےگی لیکن آپ پڑھ نا سکیں گے لیکن اگر آپ یہ فیصلہ کریں کہ میں کل اتوار کو کھانے کے بعد 2 گھنٹوں کے لئے اس مضمون کے اتنے صفحات کو یاد کرنے کے لیے فلاں جگہ پر بیٹھونگا تو اس کا بڑا امکان ہے کہ آپ پڑھنے کے لئے بیٹھ جائیں کیونکہ مخصوص جگہ اور وقت کا تعین کر لینے سے ہم اپنے آپ پر کنٹرول پا سکتے ہیں اور اپنے فیصلوں اور کاموں کو موثر اور آٹومیٹک بنا سکتے ہیں اور جب اسی طرح روزانہ آپ منصوبہ بندی سے کام کرنے کی عادت ڈالتے ہیں تو وہ کام ہماری روز مرہ زندگی کا حصّہ بن جاتا ہے جیسے صبح اٹھ کر روز نہانے کے لئے آپ کو روز منصوبہ نہیں بنانا پڑھتا کیونکہ وہ آپ کی روز کی عادات میں شامل ہو چکا ہوتا ہے اس لئے اگر کسی کام کی تمام تفصیلات دماغ کو فراہم کر دی جائے تو اس کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ وہ کام آپ انہیں مقرّرہ اوقات میں انجام۔دے دیں
8) پیپر جب چیک ہونے کے لئے ایگزیمینر کے سامنے آتا ہے آپ وہاں موجود نہیں ہوتے صرف آپ کی محنت پیپر کی صورت میں سامنے ہوتی ہے کہ آپ نے پیپر کو کس انداز میں کیا ہے تو ایگزیمینر کو متاثر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چیزوں پر ضرور توجہ دیں
1) ایگزیمینر اس کو نمبر دیتا ہے جس کا پیپر صاف ستھرا ہوتا ہے اگر آپ کو اپنا لکھا خود سمجھ نہیں آ رہا تو آپ ایگزیمینر سے اچھے نمبر کی توقع کیسے کر سکتے ہیں
2) کئی بچے صفحے بھرنے کے چکّر میں بڑا بڑا لکھتے ہیں کبھی لائن کے کناروں کو چھوڑ کر لکھتے ہیں تا کہ زیادہ صفحات پر ان کا کام آ ے وہ اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایگزیمینر زیادہ صفحات سے متاثر ہو کر نمبر دیتا ہے اس لیے اس حوالے سے یہ بات یاد رکھیے کہ پیپر چیک کرنے والا اندھا نہیں ہوتا اسے پتہ ہے کہ اس بچے نے جگہ چھوڑ چھوڑ کر زیادہ شیٹس استعمال کی ہے اس لیے ہر لائن میں آخر تک تحریر لکھا کریں
3) جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب لکھ دے تو پیپر چیک کرنے والا متاثر ہو جاتا ہے نا لائق بچے کو کیوں کہ سبق یاد نہیں ہوتا تو وہ غیر متعلقہ چیزیں لکھتا ہے اور اکثر بچے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ کم ٹائم کی وجہ سے پیپر اچھا نہیں ہوا یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو 2 نمبر کے سوال کے لئے 4 شیٹس لکھ آتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ نمبر دیکھیں جائے کہ کتنے نمبر کے لئے کیا چیز پوچھی گئ ہیں سوال کی اہمیت کتنی ہے اور میں نے جواب کتنا دینا ہے
4) جب بھی شارٹ یا لونگ سوال ختم کریں لائن ضرور لگائیں اختتامیہ کی کیونکہ یہ لائن اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا سوال ختم ہو چکا ہے بسا اوقات پیپر چیک کرنے والا دونوں سوالوں کو ایک سمجھ کر چیک کر دیتا ہے کیونکہ درمیان میں اختتامیہ کا نشان نہیں ہوتا
9) سب سے آخری اور اہم بات سمجھ لیں کہ ہمیں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو سوال سب سے اچھا آتا ہے پہلے وہ کرو اور جو سب سے کم اچھا آتا ہے وہ آخر میں کرو لیکن کبھی ایسا نہ کریں جو دوسرے نمبر پر سب سے اچھا آتا ہے وہ سب سے پہلے کریں کیونکہ ایگزیمینر کے ذہن میں بھی ہے کے پہلا سوال تو اس نے اچھا ہی کرنا ہے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو دوسرا سوال آپ نے پہلے نمبر پر کیا ہوگا اس کے نمبر پہلے کے برابر آئیں گے اور دوسرا سوال کیونکہ اس سے زیادہ اچھا ہوگا تو اس کا تاثر بن جاےگا کہ یہ لائق بچہ ہے اب جو سب سے کم اچھا آتا ہے وہ تیسرے نمبر پر کرے تا کہ وہ شروع کے 2 کو سامنے رکھتے ہوۓ تیسرے کو بھی اچھے نمبر دے دیں گا اور تیسرے نمبر پر اچھا آنے والا آخر میں کریں گئے تو چونکہ وہ تیسرے سے بہتر ہوگا اس میں بھی اچھے نمبر مل جائیں گئے

Facebook Comments

لیئق احمد
ریسرچ سکالر شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی ، ٹیچنگ اسسٹنٹ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply