لکھیں ۔۔مگر کیسے؟۔۔۔۔محمد راشد ندیم

میں سمجھتا ہوں  میرا کچھ کہنا ذرّہ بے نشاں کے مترادف ہوگا مگر پھر بھی لب پر آئی بات دوسروں تک پہنچادینے میں مضائقہ نہیں سمجھتا۔ جواحباب کچھ لکھنا چاہتے ہیں مگرلکھنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، اس سوچ میں بیٹھے ہیں کہ لکھیں تو کیا لکھیں اورکیسے لکھیں۔۔جو لوگ اخبارات میں لکھ رہے ہیں وہ تو نامور،تجربہ کار لکھاری ہیں، ہم نے کچھ لکھ کر بھیجا تو کہیں مذاق نہ اُڑایاجائے وغیرہ۔ ان لوگوں کے لیے اپنی ناقص رائے کے مطابق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

ہم اکثر بازار جاکر کسی چیز کے لیے سیلزمین سے اچھی خاصی بحث کرلیتے ہیں، کھڑے کھڑے کسی بھی چیز کی کوالٹی پر اپنی رائے دے لیتے ہیں، خبروں پر تبصرہ کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں؟ وجہ صرف اور صرف وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ لکھنے میں جھجک محسوس ہوتی ہے۔

ہم سکول پڑھتے تھے تو امتحانات کے دوران کچھ کہانیاں اور مضامین لکھاکرتے تھے جن میں پیاسا کوا، گائے، میری کتاب، کرسی“ وغیرہ چند ایسے مضامین ہوتے تھے جو کتاب کے مطابق ہوبہو لکھنے ہوتے تھے اگر کر سی کی چار ٹانگوں کی بجائے تین لکھ دیتے تو نمبر کٹ جاتے تھے مگر ”ایک میچ کا آنکھوں دیکھا حال“ ایسا مضمون تھاجو ہم اپنے الفاط میں لکھتے، جو ذہن میں آتا لکھتے، کوئی میچ کے دوران تالیاں بجانے کا ذکر کرتا اور کوئی سیٹیاں بجانے کا، کسی نے میچ دیکھنے کے دوران سموسے کھائے ہوتے اورکوئی ٹھنڈی بوتلیں پیتا،ہر کسی نے الگ ہی واقعہ لکھا ہوتا مگر نمبر سب کے پورے آتے۔ وہیں سے ہم پر ادراک ہوا تھا کہ اگر ہم کچھ لکھنا چاہیں اورسمجھ نہ آئے کیا لکھیں تو شروعات ایسے واقعات سے ہوسکتی ہے، کسی میچ کا،سفر کا، تقریب کا احوال لکھیں، شہر میں رہائش پذیر ہیں تو مارکیٹ جاکر خریداری کا احوال، پکنک،سیروتفریح کا احوال۔ گاؤں میں رہتے ہیں تو کسی چوپال یا پنچائیت میں ہونے والے بحث و مباحثے کا حال، فصل کی بوائی کا،کٹائی کا احوال جو آپ دوسروں کو بتانا چاہیں تو بولنے کی بجائے لکھ کر بتا سکتے ہیں۔اس لیے اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کریں،ایسا کچھ بھی ہوتو ارادہ کریں،قلم اٹھائیں اور لکھنا شروع کردیں۔

بالکل نہ سوچیں کہ یہ سب لکھنے کا مقصد کیا ہے، یہ کہیں شائع نہیں ہوگا،کسی کو پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہوگی وغیرہ۔۔ضروری نہیں کہ جوبھی لکھا جائے ،کسی جگہ شائع کروانے کے لیے ہی لکھا جائے،ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں لکھنا آجائے،کچھ لکھیں تو وہ بامقصد ہو اور ہمارالکھا کسی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوجائے۔ بس لکھیں اور لکھتے جائیں،لکھنے کے دوران پیچھے نظر نہ دوڑائیں، لکھ چکیں تو پھر خوب غور سے جائزہ لیں کہ کتنے الفاظ ہیں جو دوسروں کو دکھائے جاسکتے ہیں، کتنے الفاظ ہیں جو حذف کر دیئے جائیں تو مضائقہ نہیں اورکتنے الفاظ ہیں جو حذف کرنے ضروری ہیں، اس کے بعد دوبارہ بقیہ تحریر پرنظر دوڑائیں اورجب آپ کو اطمینان ہوجائے ،تو پھر کسی کو پڑھنے اورنظر ثانی کے لیے دیں۔

اس سے کم از کم اتنا ضرور ہوگا کہ آپ ارد گر د کے ماحول پر گہری نظر ڈالنے لگیں گے، کچھ نیا تلاش کرنے کی جستجو میں لگ جائیں گے،آپ کو مطالعے کی عادت پڑجائے گی،لکھنے کا شوق پیدا ہوجائے گا اورآپ کی جھجک ختم ہوجائے گی اورایک دن آئے گاجب آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہوگا، تحریر میں خود بخود روانی آجائے گی، اس فورم پر جناب مدثر سبحانی صاحب نے بہت بڑی بڑی علمی وادبی شخصیات کو آپ سب کی رہنمائی کے لیے اکٹھا کیا ہے ورآپ کو ان سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ملے گا۔اگر ہم صرف اس سوچ کے ساتھ لکھیں گے کہ کسی اخبار میں ہماری تصویر کے ساتھ چھپ جائے اورلوگ ہمیں جاننے لگ جائیں تو کبھی ہمارے لکھنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ابھی ہمیں ضرورت ہی نہیں کچھ چھپوانے کی، ہم تو سیکھنے کے لیے آئے ہیں،جس دن ہم نے کچھ بامقصد لکھ لیا خود ہی کہیں نہ کہیں چھپا ہوا نظر آجائے گا۔

میں سمجھتا ہوں ابھی خود بھی اس میدان میں اترنے کے قابل نہیں ہوا،ابھی خود سیکھنے کے مراحل میں ہوں،جو باتیں آپ لوگوں سے شیئر کیں خود بھی انہی  پر عمل کرتا ہوں، بہت عرصہ غیر متحرک اور خاموش رہا اورلکھ کر ردی میں ڈالتا رہا مگر اب تھوڑی بہت آپ بیتیاں، مکالمے اورایسی اصلاحی تحریریں جو کسی کی زندگی میں بہتری لانے کا سبب بن سکیں کبھی کبھار لکھ لیتا ہوں۔میرا مزاج صحافتی نہیں مگرقصور کی معصوم بچی زینب کے دل دہلا دینے والے واقعے نے مجھ جیسے کم گو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اورمیں نے پہلی بار اخبار میں لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اوراس سانحے نے جتنا غبار میرے اندر بھر دیا تھا وہ سب کاغذ پر نکال دیا جو شائع بھی ہوا،اس وقت میرا مقصد صرف اورصرف یہ تھا کہ کوئی انسان ان محرکات پر غور کرلے جو ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں تو میرا لکھنے کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ اس کے بعد بھی چند ایک کالم شائع ہوئے مگر بوجہ مصروفیات یہ سلسلہ زیادہ وقت تک چل نہیں سکا مگر مجھے تھوڑا بہت حوصلہ حاصل ہوگیا۔

یاد رکھیں!اگر کوئی ہمارے لکھے پر خوش آئند تبصرہ کرے تو سیروں خون بڑھتا ہے لیکن اگر کوئی تنقید کر ے تو ہم بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں،دلبرداشتہ نہ ہوں،تحمل سے کام لیں،دوسروں کی تنقید کواپنی اصلاح کاذریعہ سمجھیں اورخود میں بہتری پیدا کریں۔ میں سمجھتا ہوں زندگی کے کسی بھی شعبے،کسی بھی کام میں تنقید کے بغیر ہمارے اندر کبھی نکھار پیدا نہیں ہوسکتا۔ نئے لکھنے والوں کے لیے یاد رکھنے کی بات ہے کہ شروع میں ہی کالم نگاری کے میدان میں طبع آزمائی کی بجائے چھوٹی موٹی تحاریر لکھنے سے آغاز کریں، چاہے ایک پیراہی ہو مگر اس میں دوسروں کے لیے کوئی سبق ہویا پیغام ہو۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹا ساخاکہ پیش خدمت ہے۔
بیٹا: باباجانی! آپ گھر کے پا س والی مسجد چھوڑ کر اتنی دور کیوں نماز پڑھنے جاتے ہیں؟
باپ: بیٹا ہماری قریبی مسجد دوسریمسلک کی ہے اس لیے میں اتنی دور نماز پڑھنے جاتا ہوں۔
بیٹا: باباجانی! بیت اللہ میں تو سبھی لوگ ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں پھر ہمارے ہاں مسجدیں الگ کیوں ہیں؟
باپ:۔۔۔۔۔۔بیٹا سوجاؤ صبح سکول بھی جانا ہے۔

یہ چھوٹا ساخاکہ اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے ہے، اگر چند الفاظ ہی آپ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا سبب بن جائیں تو میں سمجھتا ہوں بہت لمبی چوڑی تحریر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔میرا یہ سب باتیں کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر آپ بھی میری طرح اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ لکھیں مگر کیسے تو  میری یہ تحریر آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگی۔اس لیے اس  سے  فائدہ اٹھائیں، عزم کریں اور قلم اٹھالیں۔ اللہ کریم ہم سب کو ہمارے نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply