ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ۔۔کرنل ضیاء شہزاد/تبصرہ:احمد اقبال

افواج ِ پاکستان کا ایک ناقابل فہم اور پُر اسرار سلسلہ اردو ادب میں مزاح کی روایت سے دریافت کرکے ہم کچھ پریشان ہوئے کہ زیادہ لکھنے اور کم پڑھنے والے اس کو بھی مزاح کے کھاتے میں ہی ڈالیں گے۔ ۔کہ لو بس اس کی کسر باقی تھی ،کہ بم بارود ٹینکوں اور توپوں کی گھن گرج میں بھی کوئی ہنسی کی جلترنگ اور نغمہ ساز کی ساحری دیکھ لے ۔۔ مگر کیا کریں اگر دل کی بات نہ کریں ۔ہوش تو شاید ہم نے اب تک نہیں سنبھالا، مگر ایک طفل مکتب تھے جب ایک کپتان کی “حماقتیں” دیکھیں اور ابا کوہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتا دیکھا،1951 میں ایک دن لالکڑتی میں۔۔یہ جگہ کانام ہے۔۔ اس کپتان کو بھی دیکھ لیا جو ہنساتا تھا مگر خودمسکرابھی نہیں سکتا تھا۔ شایدفوجی قواعدکی مجبوری، ہم نے سوچا ۔پھر ایک فوجی کپتان ملا جو شاعری بھی کرتا تھا تو سننے والے لوٹن کبوتر۔۔
لکڑی کے ایک ہٹ میں بسیرا ہے آج کل
گھر کا ہر ایک فرد بٹیرا ہے آج کل

بعد میں کرنلوں نے شاید آرمی ایکٹ میں ترمیم سے یہ اختیارات سنبھال لیے، چنانچہ کرنل محمد خان مزاح نگار مقرر ہوئے تو ان کو بھی ہنسی کا گول گپا بنتا دیکھا ،جن کو مسکرانے سے بھی پرہیز تھا۔متعدد سویلین خاصے مایوس نظر آئے جب ایک کرنل کی جا نشینی دوسرے کرنل اشفاق حسین نے سنبھا ل لی، اب تو خیر سے وہ ہماری پوتی کو ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں مگر ایک وقت تھا جب وہ کراچی میں ہمیں اپنے دفتر میں دیکھ کربھی کہہ دیتے تھے۔۔جنٹلمین بسم اللہ۔

اب مزاح نگار کی پوسٹ پر تیسرے کرنل شہزاد کی پوسٹنگ کا علم ہمیں وٹس ایپ پر اپنے نام موصول ہونے والی ایک پوسٹ سے ہوا۔۔ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ ۔وہ کہیں ہزاروں فٹ کی بلندی پر برف کے باسی تھے جہاں مسکراہٹ بھی منجمد ہوتی ہے لیکن اس تحریر نے ہمیں وہاں ہنسادیا جہاں سب شوقیہ رورہے تھےاور متفق تھے کہ بیوی سے ٹی وی تک سب کو بند کردینا چاہیے۔

دوسری قسط کے بعد یہ جانا مانا قسط کے جال کا شکاری خود کرنل صاحب کے مزاح میں یوں الجھا کہ آج تک اسیر تحریر دل پذیر ہے۔ ایک کے بعد ایک تحریرشگفتگی کی سفیر بن کر آئی ،مزاح کے بارے میں رائے ایک ہی ہے کہ یہ مشکل ترین صنف ادب ہے اور بالحاظ تشکیل پھکڑ پن کی کثافت سے یوسفی صاحب کے مزاح کی لطافت تک فرق کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو عظیم بیگ چغتائی سے پطرس،شوکت تھانوی ،ابنِ انشا اور یوسفی صاحب تک اگر سب اپنی تحریر میں مزاح کے منفرد اسلوب کی نمائندگی کرتے ہیں تو عسکری مزاح کو متعارف کرانے والے بھی میرے خیال میں اس صنف میں سب سے مشکل کام کرتے ہیں۔ایک پنجابی محاورے کے مطابق ” کٹا چوہتے ہیں” یعنی بزبان شاعر۔۔پہلے تو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکال۔۔جیساکام کرتے ہیں کہ پیراہن خاکی۔۔بھاری بوٹ کی دھمک،ٹینکوں کی گھن گرج اور بم کے دھماکوں سے بنی تصویر میں مزاح کا عنصر تلاش کرنے کا سوچتے ہیں۔۔اور کمال یہ کہ ایسا کر دکھاتے ہیں۔غالب نے کہا تھا۔۔لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں۔۔۔۔یہ سیدھی سیدھی نیوکلیئر فزکس تھی۔محمد خان اور اشفاق حسین کے بعد ضیا شہزاد نے بھی رگ سنگ سے جوئے شیر نکالنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔وہ برف کے صحرا میں بیٹھ کے سفاک دہشت گردی کے ماحول میں لبوں کو مسکراہٹ دینے کا فریضہ بھی نبھاتے رہے۔۔کیسے؟ یہ سمجھنے کی واحد صورت یہی رہ جاتی ہے کہ آپ کتابی صورت میں سمٹ کرشائع ہوجانے والے کرنل ضیا شہزاد کے مزاح “ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ” کی قرات ضرور کریں۔

اورمجھے یقین ہے کہ آپ اس مالی سال میں اداس تھے تو مسکرائیں گے۔۔مسکرائے تھے تو ہنسیں گے اورہنس چکے ہیں تو قہقہہ بار ہونگے۔
کتب خرید کر پڑھنے میں ثواب کا بونس شامل ہے۔ یہ کتاب علم و عرفان پبلشرز لاہور نے شائع کی ہے۔ کیش آن ڈیلیوری کے ذریعے منگوانے کے لیے وٹس ایپ نمبر0345-5605604پر رابطہ کیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply