ابجد/کبیر خان

ا ، ب ، ج ، د ۔۔۔ ، قِسم کی چیزوں کو حروفِ ابجد ، ہِجّا یا تہجّی کہتے ہیں ۔ انہی حروف کے ملاپ سے زبان بنتی ہے۔  چاہے وہ غالبؔ کے مونہہ والی ہو ، خواہ داغؔ کی موہنے والی۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سُن لیں کہ اُردو میں حروف کی اَن گِنت قِسمیں ہیں لیکن مشہور دو ہی ہیں
(۱) بانقط
(۲) بے نقط
حرف کی پہلی قسم کو فارسی میں منقوط ، اور دوسری کو غیر منقوط کہتے ہیں۔ لیکن جو بات اُردو میں ہے، فارسی میں کہاں ۔ اُردو میں بانقط پڑھنے سُننے میں اچھا لگتا ہے ، تو بے نقط سنانے میں زیادہ سلیس و با معنی ہوتا ہے۔ (ترجمہ ، تشریح اور تصریح کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بات موقع پر ہی تہہ تک سمجھ میں آ جاتی ہے)

ایک اہم بات یہ بھی پلّے باندھ لیں کہ اُردوئے محلّہ میں دو حرف اور بھی ہوتے ہیں ۔  ۔ایک وہ حرف جو آتا ہے، دوسرا وہ جو آتا ہی نہیں ۔ اوّل الذکر کی خاصیت یہ ہے کہ ایک بار جس پر حرف آ جائے، وہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ اور دوسرے کی خوبی یہ ہے کہ جسے حرف نہیں آتا، وہ کھاٹ کا رہتا ہے نہ گھراٹ کا۔ لیکن بڑے لوگ حرف آنے سے ڈرتے ہیں ، اور نہ آنے سے بھی۔ یہ لسانی قوائد و ضوابط بھی صرف عام آدمی کے لئے ہوتے ہیں ۔ لہذا۔۔  مِستری ہشیار باش ۔

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ حروف تہجّی  کیا بلا ہیں اور انہیں کھاتے کیسے ہیں؟ تو پہلی بات یہ ہے کہ تہجّی اور سجّی کو مِکس نہ کریں ۔ ہر دو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سجّی بلوچستان میں کھانے کے کام آتی ہے۔ تہجّی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ بہت ثقیل ہوتی ہے۔ اگر اونٹ بھی غلطی سے کھا جائے تو پتلے کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

حروفِ تہجّی صرف عروضیے اور روایتی شاعر ہضم کر سکتے ہیں ۔ لہذا اگر آپ کو کہیں کوئی گرا پڑا حرف مل جائے تو اُس سے کھیلنے کی بجائے چمٹے سے پکڑ کر کسی شاعر کی خدمت میں پیش کردیں ۔ اور بس
نہیں کھیل اے داغّ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے

اب کچھ بات ہو جائے حروف کی بڑی قسموں کی۔ تو پیارے بچّو!
حروف منقوطہ وہ ہوتے ہیں ، جن پر ایک یا ایک سے زیادہ نقظے ہوتے ہیں ۔ جیسے پاؤنڈ، یورو، ین وغیرہ ۔ حروف غیر منقوطہ وہ ہوتے ہیں جن پر کوئی نقطہ نہیں ہوتا۔ جیسے ڈالر ، درہم ، مارک وغیرہ ۔ لیکن یاد رہے کہ ہاٹ کرنسی ہی بے نقط نہیں ہوتی، پاکستانی روپیہ، سڑی ہوئی گالی اور امریکی شاباشی بھی بے نقط ہوتی ہے۔ اور بہت ہاٹ ہوتی ہے۔ جس جگہ لگتی ہے ، لگی ہی رہتی ہے ۔ چنانچہ جب کبھی مقابلہ دشنام طرازی درپیش ہو تو ’’ نان اسٹک‘‘ ذرہ بکتر پہن کر میدانِ خوارزار میں اُترنا چاہیے۔ اگر ایسے آلاتِ حرب و ضرب میّسر نہ ہوں تو کسی سابق یا حالیہ صدر، وزیر اعظم یا وزیر مشیر سے مجرّب ’’معجون دافع مغلظّات ‘‘ کا ایک آدھ پیپا ادھار لے کر خود کو سرتا پا لیپ کر لیں ۔ بے لقطہ گالیاں آپ سے ٹکرا کر ضائع ہو جائیں گی ۔ ورنہ شرمندہ ہو کر اپنے مصدر کو لوٹ جائیں گی۔ سُلگتی گالیوں کو بے وقار ، بے وقعت اور شرمسار کرنے کا ایسا شاندار طریقہ صرف ملکِ عزیز میں دریافت کیا جا سکا ہے۔ پھر بھی کچھ ناہنجار کہتے ہیں کہ ملک سائنس کے میدان میں ترقی نہیں کر رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چند مشقی سوالات
۱۔ مدّعا سے غالب کا مدّعا کیا تھا؟
۲۔ کیا آپ یار کے منہ میں اپنی زبان رکھ سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو رکھ کر دکھائیں ۔ ورنہ’’ہاہریاں مت ماریں‘‘۔
۳۔ کلاس کی طرف منہ کر کے دس عدد بے نقط وطبعزاد (گالیاں) صحیح مخرج سے با آواز بلند نکال کر دکھائیں
۴۔ داغّ نے اُردوزبان کو جو جہاں عطا کیا، وہ کہاں سے کہاں تک پھیلا ہوا تھاِ؟جریب ڈال کر واضح کریں ۔
۵۔ امریکی ڈالر کو اُردو کی ٹکسال میں ڈھالنے کا آسان طریقہ کیا ہے؟۔
( درسی قاعدہ جدید سے ایک اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply