• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہد کی مکھیاں بمقابلہ گندگی کی مکھیاں اور پاکستان۔۔ بلال شوکت آزاد

شہد کی مکھیاں بمقابلہ گندگی کی مکھیاں اور پاکستان۔۔ بلال شوکت آزاد

(ایک سچویشن ہے, ذرا اس کو غور سے پڑھ کر سمجھیں۔)

سچویشن یہ ہے کہ ایک بہت بڑا میدان ہے مربع شکل میں,وہاں دنیا کی ہر خوبصورتی جگہ جگہ بکھری پڑی ہے مطلب ایک طرف پھول ہیں رنگا رنگ اور خوشبودار,ایک طرف دنیا کے ہر لذیز اور رس بھرے پھل کے درخت قطار اندر قطار لگے ہیں,چھوٹی سی ایک نہر ہے جو پورے میدان میں زگ زیگ گھوم رہی ہے جس کے کنارے سبز گھاس اور پھولوں کے پودے کیاریوں میں لگے ہیں جبکہ نہر کا پانی صاف شفاف ٹھنڈا اور میٹھا ہے,خوبصورت پرندے درختوں کی ڈالوں پر بیٹھ کر سریلی چہچہاہٹ سے میدان کا ماحول مسحور کن کررہے ہیں,کسی اہل ذوق انسان نے میدان کے بیچوں   بیچ ایک پہاڑی نما ٹیلا بنادیا ہے جس پر سایہ دار اشجار ہیں اور ان اشجار کے نیچے بیٹھ کر سستانے کو آرام دہ بینچ نصب ہے,خشک میوہ جات کے درخت اور پودے ایک طرف ترتیب سے لگے ہیں جن کے آس پاس تیار پھل گرا ہوا ہے,میدان میں سبزے کا مکمل راج ہے جس پر سورج کی روشنی پڑنے سے ایک ماورائی خوشنما ماحول بن رہا ہے جو آنکھوں اور دل دونوں کو مسرور کررہا ہے,غرض ہر ہر نعمت اور رحمت خداوندی اس میدان میں موجود ہے حتی کہ حوائج ضروریہ سے فراغت کے لیے میدان کے بلکل ایک طرف چھوٹے سے محدود حصے میں بیت الخلاء کا بندوبست بھی ہے۔

(اب ذرا غور فرمائیے گا کہ سچویشن میں کلائمکس ادھر سے ہی شروع ہورہا ہے۔)

تو اب آپ ایسا کریں کہ اس میدان میں مکھیوں کی دو الگ الگ نسلوں کو کھلا چھوڑیں اور تماشہادیکھیں کہ وہ اس میدان میں کیا گل کھلاتی ہیں؟

ایک شہد کی مکھیوں کا جتھہ لیں اور ایک گندگی کی مکھیوں کا جتھہ لیں اور انہیں چھوڑ کر میدان میں ان کے تعاقب میں نظر دوڑائیں۔ ۔ ۔آپ دیکھیں گے کہ اسی میدان میں موجود ہر خوبصورت اور مسحور کن شہ شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچے گی اور وہ بھی سیدھا رنگا رنگ پھولوں, پھل دار درختوں اور نہر کی طرف لپکیں گی اور نہایت نفاست سے اور نزاکت سے وہ ان نعمتوں کو دیکھیں گی اور ان سے استفادہ کریں گی۔

جبکہ دوسری طرف گندگی کی مکھیوں کو پورے میدان اور اس کی مسحور کن نعمتوں میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی میدان کی نعمتیں اور خوبصورتی ان کو اپنی طرف بلاتی ہے بلکہ یہ پورا میدان چھان مارتی ہیں اور جب ان کا جسم نڈھال ہونے کی کگار پر ہوتا ہے تب ان کو میدان کا واحد گندا حصہ مطلب بیت الخلاء ملتا ہے جس کی نالیوں, فضلے اور بدبو کی بدولت ان کی توانائی بحال ہوتی ہے اور یہ سب وہاں جاکر بیٹھ حاتی ہیں اور ہاتھ مل مل کر اس گندگی سے لطف اندوز ہوتیں ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ جتنی گندگی وہ ہاتھ اور منہ میں سمیٹ سکیں سمیٹ لیں تاکہ اس سے میدان کو اپنے رہنے لائق گندہ کیا جاسکے, بیماری پھیلانے کا موقع مل سکے۔

(صاحبان غور فرمائیے گا کہ بہت غور طلب بات کرنے جارہا ہوں۔)

کیا آپ کو لگا کہ ہمیں ایک میدان دیا گیا اوپر مذکور حدود اربع اور تفصیلات سمیت؟

اب ذرا اپنے ارد گرد, حلقہ احباب میں, سوشل میڈیا پر, محلے اور شہر میں غرض ملک کے طول و عرض پر نظر دوڑائیں۔

آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کے ارد گرد کتنی شہد کی مکھیاں اور کتنی گندگی کی مکھیاں ہیں؟

پہلے آپ یہ طے کریں کہ آپ کونسی مکھی ہیں؟

شہد کی یا گندگی کی؟

اگر آپ شہد کی مکھی ہیں تو آپ کے ارد گرد آپ کو اکثریت شہد کی مکھیوں کی نظر آئے گی جو اس بڑے میدان پاکستان کی مسحور کن خوبصورتی اور اس میں موجود نعمتوں اور رحمتوں بالخصوص آزادی جیسی نعمت اور رحمت سے لطف اندوز ہوتی اور اللہ کا شکر ادا کرتی نظر آئیں گی اور ہر کونے کونے میں موجود نعمتوں کا فائدہ اٹھاکر دوسروں کو بھی ترغیب دیں گی بشمول آپ کے۔

لیکن اگر گندگی کی مکھی ہیں تو آپ کے ارد گرد آپ کو اکثریت گندگی کی مکھیوں کی نظر آئے گی جو اس بڑے میدان پاکستان کی مسحور کن خوبصورتی اور اس میں موجود نعمتوں اور رحمتوں بالخصوص آزادی جیسی نعمت اور رحمت سے بیزار ہوتی اور کفران نعمت ادا کرتی نظر آئیں گی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاکستان کی محدود اور مخصوص گندگی مطلب برائی یا منفی پہلو کو اجاگر کریں گی, دوسروں کو اس کی جانب راغب کرنے کو ہاتھ اور منہ کا غلط استعمال کریں گی اور کسی حال میں خوش اور مطمئن نہیں ہونگی بشمول آپ کے۔

پاکستان مندرجہ بالا مذکورہ میدان ہے جس کو ہمیں اہمیت دینی چاہیے اور اس میدان میں موجود چھوٹا سا بیت الخلاء اور اسکی گندگی کو ہمیں اگنور کرنا چاہیئے کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم میں بنایا ہے اور اسی احسن تقویم کا ایک کڑوا سچ ناپاکی اور غلاضت کا اخراج بھی ہے مطلب ایسا ممکن ہی نہیں بلکہ اللہ کی ڈیزائن کردہ کائنات میں یہ ناممکنات میں سے ہے کہ انسان کسی پرفیکٹ مخلوق, چیز یا جگہ کی کھوج لگا سکے جہاں برا, گندا, غلیظ اور مکروہ کچھ بھی نہ ہو بس صرف اچھا ہی اچھا ہو۔

اسی فارمولے کے تحت پاکستان اور اس کی عوام کو اسکی اچھائی, نیکی اور مثبت پہلو سے دیکھیں, سمجھیں اور لوگوں کو بتائیں کیونکہ نظر پرفیکٹ ہو تو آپ کو جہنم جیسی جگہ, ماحول اور عوام بھی بھلی لگے گی لیکن اگر آپ کی نظر میں خلل ہے اور اوپر سے دماغ بھی ہلا ہوا ہے تو آپ کو جنت جیسی جگہ, ماحول اور عوام بھی بری اور گندی لگے گی۔

ہاں پاکستان ایک بری اور منفی ترین جگہ ہے اگر آپ اور آپ کا حلقہ احباب بذات خود برا اور منفی ہے تو ورنہ اگر آپ اچھے اور مثبت ہیں تو پاکستان دنیا ہی نہیں کائنات کی اچھی اور مثبت ترین جگہ ہے۔

فرق حقیقتوں کا ہو بھی تو انسان چل جاتا ہے اگر فرق سوچ اور نظر کا ہو تو انسان کا چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔

یکساں سوچ مت رکھیں لیکن کوشش کریں کہ اچھی اور مثبت سوچ رکھیں۔

اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کو اللہ کی تخلیق خوشبودار رنگے برنگے پھول اپسند ہیں یا انسانوں اور جانوروں کا تخلیق بدبو دار بد رنگ فضلہ؟

Advertisements
julia rana solicitors

شہد کی مکھی بننا اور گندگی کی مکھی بننا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply