اضطراب کے عالم سے احساس کے عالم تک۔۔اشفاق احمد

ہمیں محدود سا توشہ دے کر لامحدود امکانات سے آشنا کر دیا گیا ہے۔ یہ محدود سا توشہ ہماری عمر اور ہمارا طبعی جسم ہے جس میں زندگی کے مختلف مدارج کی محض ایک جھلک ہی دکھائی  جاتی ہے۔ مختصر سا بچپن، مختصر سی جوانی اور پھر تلافیوں کے لیے بڑھاپے کی مختصر سی مدت۔۔ بس اتنا کچھ؟؟

جبکہ لامحدود امکانات جہاں جنم لیتے ہیں وہ ہماری اصل شخصیت ہے۔ ہماری شخصیت کا اظہار ہمارے احساسات ، ہماری سوچ اور غور و فکر ہیں۔ اس لامحدود شخصیت کو ایک محدود عمر کے ناتواں جسم میں کچھ وقت کے لیے گویا قید کر دیا گیا ہے۔ اس لامحدود شخصیت اور طبعی جسم کے امتزاج سے جو انسان بنتا ہے وہ درحقیقت 3D یعنی تھرڈ ڈائیمنشن ( طبیعات میں معروف تھرڈ ڈائیمنشن سے قدرے مختلف) کے حصار میں ہے۔ تھرڈ ڈائیمنشن میں دراصل تین زمانے ہوتے ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل۔ اور تھرڈ ڈائیمنشن کو ہم سادہ لفظوں میں یوں سمجھ سکتے ہیں کہ۔۔ “ماضی کے تجربات کو لے کر اپنا مستقبل بنانے کی تگ و دو” ۔اور ہم یہی تو کر رہے ہیں ،ماضی کے تجربات کو لے کر اپنا مستقبل بنا رہے ہیں لیکن اس بیچ ہم سے ایک بھول ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ ماضی کے تجربات کو لے کر مستقبل (واہمہ ) بنانے کی تگ و دو میں ہمارا “حال” بُری طرح نظر انداز ہو جاتا ہے ۔ ہمارا اصل امتحان اپنی شخصیت کی تنوع کرکے اس کو کائنات کی اگلی منزلوں کے قابل بنانا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم خود کو تھرڈ ڈائیمنشن کے حصار سے آذاد کرنے کی سعی کریں۔

آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم طبعی جسم کی ضروریات فراموش کرکے کسی غار میں بیٹھ جائیں۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم ماضی اور مستقبل کو نظر انداز کرکے ہر سعی سے ہاتھ کھینچ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم 4D یعنی فورتھ ڈائیمنشن کی طرف بڑھیں۔ 4D میں صرف ایک زمانہ ہے ،وہ ہے “حال “،لمحہ موجود۔ یہی وہ کیفیت ہے جو شخصیت کے ارتقاء کے لیے لازم ہے۔ ماضی کی حسین یادیں دہرانے سے کون روکتا ہے؟ مستقبل کے خوابوں کو دیکھنے سے کون روکتا ہے؟ لیکن یہ سب “حال” میں کیجیے اور پورے شعوری احساس کے ساتھ کیجیے۔ 4D ہی درحقیقت وہ مقام ہے۔ جہاں ہماری شخصیت اپنی اصل لطافت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔

شخصیت اس قدر لطیف ہے کہ اسکی زبان صرف احساس ہے اور اسے رنگوں کے رقص، سبزہ زاروں میں گنگناتی بلبل کے نغمے، محبت بھرے میٹھے بول، رشتوں کی مٹھاس اور فطرت میں موجود چار سو محبتیں ہی بھاتی ہیں اور اسکی علم و آگہی کی جستجو بھی یہاں ہی ممکن ہے، یہ علم و آگہی ہی تو ہے جو رب کی معرفت سے آشنا کردیتی ہے جو اصل مقصود ہے۔ لیکن جب بھی ہم “کثافتوں” کو ہی حقیقت سمجھ کر اس کا غیر ضروری بوجھ اس شخصیت پر لاد دیتے ہیں تو یہ دب جاتی ہے ، اس کا اظہار دب جاتا ہے اور “تھکن” کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے یہ جسمانی تھکن نہیں۔ نہ  ہی یہ محض ذہنی تھکن ہے بلکہ یہ شخصیت کی تھکن ہے جس کا بیج مایوسی سے جنم لیتا ہے اور جب یہ تناور درخت بن جاتا ہے تو اسے انا کہتے ہیں۔ انا پرستی سے بڑھ کر تھکا دینے والا اور کوئی  موذی نہیں۔ جونہی آپ تھرڈ ڈائیمنشن کے حصار سے نکلیں گے تو زمان و مکان اپنی اہمیت کھو دیں گے اور آپ کا یہ احساس تروتازہ ہو جائے گا کہ موت شخصیت کو نہیں آنی بلکہ اس ناتواں جسم کو آنی ہے۔ شخصیت تو لامحدود ہے۔ جو ارتقاء کی منزلوں سے گزر کر ایک ایسے جہاں میں جب داخل ہوگی جہاں کچھ بھی محدود نہیں۔ موجودہ زندگی کا خاتمہ تو اگلی زندگی کے عین آغاز پر ہی ہے۔ جہاں سب کچھ ابدی ہے تو اس کیفیت کے تصور کے لیے بھی جس احساس کی ضرورت ہے وہ بھی فورتھ ڈائیمنشن ہی ہے۔ آپ تھرڈ ڈائیمنشن میں اس کیفیت کا ادراک کر ہی نہیں سکتے۔ فورتھ ڈائیمنشن ہی وہ دروازہ ہے جہاں سے لطیف احساسات کی دنیا شروع ہوتی ہے۔

دونوں کا فرق بتاؤں آپ کو؟؟ تھرڈ ڈائیمنشن میں موجود شخص کسی خوبصورت منظر کو دیکھ کراسکا لطف اٹھانے کی بجائے اسے خریدنے کی حسرت میں وقت گزارےگا جبکہ فورتھ ڈائیمنشن میں موجود شخص اس کو اپنے احساس کا حصہ بنا کر اسکا پورا لطف اٹھائے گا یہ سوچ کر کہ۔۔۔ خرید کر بھی تو بس لطف ہی تو اٹھانا ہے سو خریدنے کی کیا ضرورت؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply