میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہوں تو ہر روز یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے بچے بہت ضدی ہیں ۔ اسی موضوع پر ایک عوامی سروے کیا گیا جس میں پوچھا کہ آپ کے بچے ضدی ہیں ؟ جوابات کچھ اس طرح تھے کہ اس دور میں کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کا بچہ ضدی نہ ہو۔ میرے ہی تو بچے ضدی ہیں , بلا کے ضدی ہیں ، جی کوئی علاج ہے آپ کے پاس ؟ ہم نے تو تعویذ دھاگہ بھی کرا کے دیکھ لیا اور بچوں کی ضد ہے کہ وہ انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔
اس سے پہلے اپنی تحریروں میں ذکر کیا تھا کہ جب لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ چاہتے کہ آپ کے بچے اچھے بچے بن جائیں ؟ تو 100 فیصد ہی لوگوں کا جواب یہی تھا کہ جی ہماری یہی خواہش ہے کہ ہمارے بچے اچھے بچے بن جائیں، تصحیح کی کہ بچہ صرف بچہ ہوتا ہے بچہ اچھا یا بُرا نہیں ہوتا ،اس عوامی سروے کے اختتام پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا کہ بچے ضدی نہیں ہوتے ،اصل میں ان کے والدین ضدی ہوتے ہیں ۔۔اب آپ کہیں گے کہ یہ آپ نے ایک نئی بات کر دی ہے کہ جی بچے ضدی نہیں ہوتے والدین ضدی ہوتے ہیں ۔ اہل علم کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں وہ آپ کو اس بات کی تصدیق کریں گے کہ بچہ ہمارے رویے کا عکس ہوتا ہے، یہ بات نیوٹن کو بہت پہلے سمجھ آگئی تھی کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے جو اس کی مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ ہم اکثر مثال دیتے ہیں کہ دھول چہرے پہ ہو تو آئینے کو صاف کرنے کا فائدہ نہیں ہوتا ۔ اسی طرح اگر آپ کا بچہ ضدی ہے تو یہ ردِ عمل ہے، آپ عمل کی طرف توجہ کریں ،آپ اپنے رویے کو دیکھیں ،کیا آپ کا رویہ مناسب ہے ؟
اس کی وجہ آپ کو خود سمجھ آ جائے گی ۔ پہلے والد سے شروع کرتے ہیں کہ اکثر والد کا یہ شکوہ ہوتا ہے کہ میں اتنی دیر ان لوگوں کی خاطر کام کرکےآیا ہوں ،آگے سے ان کا رویہ اتنا بُرا ہے یہ مثبت طریقے سے بات ہی نہیں کرتے، یہاں ہمیں ایک لمحہ رکنے کی ضرورت ہے کہ اگر کام کر رہے ہیں آپ ،تو ایسا کوئی انوکھا کام تو کر نہیں رہے، تمام ہی والدین کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے اسی پر انعام بھی ملے گا نا ۔ علم کی کمی ہے، ہم نے اپنے اسلاف کے طریقے کو چھوڑ دیا ۔ ہمارے اسلاف اپنے بچوں کے لیے کما کر خوش ہوتے تھے ،اللہ کا شکر کرتے تھے کہ یا اللہ تو نے اس قابل بنایا ہوا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے محنت کر کے اپنے بچوں کو کھلاتا ہوں اور اسی طرح آپ کے والدین نے بھی آپ کو محنت کر کے کما کے کھلایا تو اگر آپ کام کر کے آئے ہیں ،ان کی خاطر کر کے آئے ہیں تو جب گھر میں داخل ہونے لگے ہیں تو بسم اللہ پڑھ کے السلام علیکم کر کے داخل ہوں اور مسکرائیں ،دیکھیں آپ کے بچے آپ سے کس طرح لپٹ جائیں گے ۔آپ کے ساتھ خوش ہوں گے آپ کی صحبت اختیار کرنے میں وہ مسرت محسوس کریں گے اور ہاں بچوں سے بھی پہلے آپ کی اہلیہ ہے ۔ آپ کی بیگم اس کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہے، یہ بہت معنی رکھتا ہے۔ اسی نے آپ کے بچوں کی ذہن سازی کرنی ہوتی ہے ۔ بچوں کی ماں بھی ہے اگر آپ کا رویہ اپنی بیگم کے ساتھ خوشگوار نہیں ہے تو اس کا سب سے پہلا اثر آپ کے بچوں پہ پڑے گا ،وہ ان کی والدہ ہے ،اس کا احترام ان کے لیے بہت معنی رکھتا ہے، اسی لیے والد کو اپنے رویہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اب بات کرتے ہیں والدہ کی ،جیسے ہی بچے سکول سے آتے ہیں اگر بچے نے صرف یہ کہہ دیا کہ میں نے یہ کھانا نہیں کھانا تو بس ماں نے ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی ،سارا دن میں کھپتی رہتی ہوں، تمہاری خاطر گرمی میں کھانا بناؤ ،پھر تم لوگوں کے نخرے دیکھو ۔۔یعنی بچے کو دوسرے بہن بھائیوں کے سامنے ، آئے گئے رشتہ داروں کے سامنے ، پڑوسیوں کے سامنے جو بھی موجود ہے اس بات سے قطع نظر کہ بچے کی بھی کوئی عزت نفس ہے ،باتیں سنانا شروع کر دیں، تمہارے تو نخرے ہی ختم نہیں ہوتے، تم تو نواب کے بچے ہو ۔اس رویے پر بچہ اتنی تذلیل محسوس کرتا ہے کہ پھر اس بات کو اپنے دل میں بٹھا لیتا ہے اور رد عمل ظاہر کرتا ہے ۔ اس میں بچے کا کیا قصور کہ وہ کھانا نہیں کھا رہا ،کیونکہ ہم نے کھانے کی قدر کرنا سکھایا ہی نہیں ۔ اکثر کھانوں پہ ماں بغیر سوچے سمجھے کہہ دیتے ہیں ، میں نہیں کھاتی یہ تو مجھے پسند ہی نہیں ہے، تو بچے کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس طرح انکار بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور کئی کھانوں پہ والد کہہ دیتے ہیں یہ کیا پکایا ہے میں نہیں کھاتا ،تو بچے کو سمجھ آجاتا ہے،کہ انکار کرنا بھی ممکن ہے۔
اپنے والد گرامی کی مثال پیش کروں ،آج والدہ اور ان کی بہو اسی موضوع پر تبادلہ خیال کر رہی تھیں ۔ اہلیہ نے پوچھا کہ آپ کے بچے کھانے کا انکار نہیں کرتے تو والدہ نے بڑے فخریہ انداز میں کہا کہ یہ ان کے والد کی برکت ہے کہ پچاس سال میں کبھی کھانے کا انکار کرتے نہیں دیکھا، یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے اندر جو منفی رویے پیدا ہوتے ہیں وہ ان کے والدین کی مہربانیاں ہیں والدین ہونا اللہ رب العزت کی عظیم نعمت کے ساتھ ساتھ بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ ہم بچوں کی ضروریات تو پوری کر دیتے ہیں لیکن ان کی تربیت کرنے میں کوتاہی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اس لیے مکرر گزارش یہ ہے کہ دھول چہرے پہ ہے تو آئینے کو مت صاف کریں۔ بچے ضدی نہیں ہوتے بچوں کے والدین ضدی ہوتے ہیں اپنے عمل کو بہتر کیجئے جب آپ گھر آئیں بڑے خوش اخلاقی سے پیش آئیں اچھے طریقے سے سلام دعا کریں اپنی ساری کار گزری بڑی خوشی سے اپنے بچوں کو بتائیں ان سے ان کی پوچھیں اسی طرح اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول رکھیں جس سے گھر میں ادب کا ماحول ہو، عربی کا ایک قول ہے کہ اپنے بچوں کو وقت دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ،اپنے بچوں کی تربیت کریں بچوں کے لیے اچھا مستقبل چھوڑ کے جانے سے بہتر ہے مستقبل میں اچھے انسان چھوڑ کے جائیں، تاکہ آپ کو آپ کی نسلوں میں بھی یاد رکھا جا سکے۔
ڈاکٹر قدیر، قائد اعظم اور علامہ اقبال بھی کبھی بچے تھے ۔ ان کے والدین نے ان پہ توجہ دی اس لیے آج ان کو گزرے ہوئے عرصہ گزر گیا لیکن لوگ ان کو آج بھی یاد رکھتے ہیں اس لیے کہ وہ خود عظیم تھے ،انسان عظیم تب ہوتا ہے جب کسی شخص کے والدین میں عظمت ہو اور انہوں نے اپنے بچوں میں وہ منتقل کی ہو، امید ہے ذرا نہیں مکمل سوچ کر عمل کریں گے۔
کم از کم آج کے بعد یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بچے ضدی نہیں ہوتے، بچوں کے والدین ضدی ہوتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ شفقت فرمائیں ان کے ساتھ محبت کا رویہ اپنائیں۔ انشاءاللہ آپکو دگنی نہیں چار گنا نہیں بے حساب محبت ملے گی اور آپ کے بچے بھی اچھے بچے ہوں گے اور وہ بالکل ضدی نہیں ہوں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں