آئندہ حکمرانوں کے لیئے چند تجاویز۔ عمر خان

مملکتِ عزیز پاکستان میں ہر پانچ سال بعد انتخابات منعقد کئے جاتے ہیں جس میں عوام اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ۲۷۲ ارکان پر مشتمل ایوانِ بالا کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو جماعت اکثریت میں ہوتی ہے وہ متفقہ طور پر قائدِ ایوان کا انتخاب کرتی ہے نیز سپیکر و ڈپٹی سپیکر بھی عموماً اکثریتی جماعت کا ہوتا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتیں قائدِ حزب اختلاف کی نامزدگی کرتی ہیں۔
وطنِ عزیز کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی، حالانکہ گزشتہ پندرہ سال سے تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے لیکن وزیراعظم کا اپنی مدت پوری کرنا ابھی تک خواب ہی ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی روائیت رہی ہے کہ جیسے ایک حکومت ختم ہوتی ہے ، نئی آنے والی حکومت وطنِ عزیز کو ایک خطرناک دوراہے پر کھڑے ہونے کا اعلان کر دیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے ہر نئی حکومت کو خزانہ ہمیشہ خالی ملا ہے۔ کسی بھی نئی آنے والی حکومت نے کبھی بھی ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی جس سے یہ روائیت ٹوٹ سکے کہ ان کے بعد آنے والوں کو خزانہ خالی نہ ملے، بس کسی نہ کسی طرح پانچ سال پورے کئے جاتے ہیں اور احتساب کا نعرہ لگا کر الیکشن میں کود جاتے ہیں۔
کسی جمہوری یا آمریت کے دور میں ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی جس سے عام آدمی کو براہ راست فائدہ ہوتا یا اسکا معیارِ زندگی بلند ہوتا یا ایسے اقدامات  کیئے جاتے جس سے عوام کا استحصال کم ہوتا اور اداروں کو انکے پاوں پر کھڑا کیا جاتا۔ ہر حکومت سبسڈی کے شرمناک اقدامات میں ملوث رہتی ہے جس سے وقتی طور ہر واہ واہ ہوتی ہے لیکن جیسے مذکورہ حکومت جاتی ہے اس ترقیاتی کام کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔

۲۵ جولائی ۲۰۱۸ کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں تحریکِ انصاف حکومت بناتی نظر آ رہی ہے، فی الحال تو نمبر گیم کا سلسلہ جاری ہے، بادی انظر تحریکِ انصاف سادہ اکثریت ۱۷۲ ارکان کے ساتھ حکومت بناتی نظر آ رہی ہے لیکن اگر بالفرض سادہ اکثریت نہ بھی لے سکے تب بھی آرٹیکل ۹۱ ، کلاز ۴ کے تحت وزیراعظم تو بن جائیں گے لیکن اپوزیشن کی صورت دو دھاری تلوار سر پر لٹکتی رہے  گی۔

جب مشرف نے شوکت عزیز کو امپورٹ کر کے وزیراعظم بنایا تو میرے دل میں بھی وزیراعظم بننے کی عجیب خواہش نے جنم لیا، اور خود سے سوال کیا کہ اگر میں وزیراعظم بن سکا تو ایسے کونسے کام ہونگے جو میں کرنا چاہوں گا(واضح رہے جو کچھ میں بیان یا تجویز کرنے جا رہا ہوں اس میں عرصہ ۱۲-۱۳ سال میں تبدیلی اور پختگی آئی) سو یہاں چند تجاویز ہیں جو میرے خیال میں آنے والی حکومت کو اپنانی چاہئیے۔

۱- انتخابی اصلاحات
آج تک سوائے دھاندلی کا رونا رونے کے اور کوئی کام نہیں ہوا، ۲۰۱۳ کے انتخابات پونے پانچ ارب روپے کے اخراجات سے منعقد کروائے گے اور دھاندلی کا اتنا شور مچا کہ دھرنا تک دیا گیا دارلحکومت میں اور  نتیجہ وہی ایک ڈھاک کے تین پات۔
۲۰۱۸ کے انتخابات ۲۱ ارب روپے کے خطیر اخراجات سے منعقد کئے گئے شور پھر بھی دھاندلی کا۔ کیا مملکتِ عزیز میں ہر دفعہ تجربات ہونگے؟ دھاندلی کا شور شرابہ؟ مار پیٹ؟ جلاو گھیراؤ؟ دھرنا ، بائیکاٹ؟
آخر کیا وجہ  ہے کہ انتخابی اصلاحات نہ کی گئیں اور نہ نافذ کی گئیں ؟ اور کیا کبھی انتخابات کے ٹرن آوٹ بڑھانے پر غور کیا گیا؟

تجویز:
میرے خیال میں آنے والی حکومت کو سب سے پہلے اس پر کام کرنا چاہئیے۔ روائیتی انتخابی طریقہ کار کو ختم کر کے “بائیومیٹرک” طریقہ کار کی طرف قدم اٹھانا چاہئیے۔ کیا وجہ ہے کہ نادرا کی صورت میں آپکے پاس سب سے بڑا ڈیٹابیس موجود ہے اور آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے؟ کیا بائیومیڑک کے بعد دھاندلی کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ ہر دفعہ انتخابات پر چھپائی پر اور دوسرے لوازمات پر آپ اربوں روپے خرچ کرتے ہیں اور نتائج آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔ بائیومیٹرک کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہر شخص اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے بھلے اسکا ووٹ لاہور میں ہو اور وہ خود کراچی میں موجود ہو۔ بس ووٹر کا شناختی کارڈ سکین کریں اور سکرین پر ووٹر کے حلقے کے امیدوار سامنے آ جائیں گے۔ ووٹر اپنا امیدوار کا انتخاب کرے، انگوٹھا لگائے اور ووٹ کاسٹ  کر کے سکھ کا سانس لے ۔
نہ کوئی مسئلہ،  نہ کوئی جھک جھک آپکا ٹرن آوٹ ریکارڈ سطح تک جائے گا۔  آزادنہ انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کریں یا پھرآزاد امیدوار کو پابند کیا جائے کہ وہ جیتنے کی صورت میں کسی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا۔ ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کی جائے یا  سیٹ چھوڑنے کی صورت میں اس امیدوار سے ضمنی الیکشن کے اخراجات وصول کئے جائیں۔

۲- تعلیم

تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت کو چاہئیے  کہ میٹرک تک تعلیم لازمی و مفت کی جائے۔ جو والدین اس میں چوک کریں انکو قرار واقعی سزا دی جائے۔ نیز ٹیکنیکل ایجوکیشن کی حوصلہ افزائی کی جائے، تکنیکی تعلیم پوری کرنے والے طلباء کے لئے آسان قسطوں پر قرضے فراہم کئے جائیں یا ان سے کاروباری آئیڈیاز لے کر اس میں ۷۰ فیصد انویسٹمینٹ کی جائے اور حکومت نہایت معمولی ۲۰ فیصد منافع لے کر اپنی انویسٹمینٹ ریکور کر لے۔
تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کیا جائے۔ سرکاری اداروں کی حالت بہتر بنائی جائے اور بہترین اساتذہ کا انتخاب کیا جائے،  انہیں مراعات دی جائیں۔ سیلف فنانس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور  میرٹ پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ ہر وہ بندہ جو حکومت میں ہو یا پبلک آفس ہولڈ کرتا ہو اسکے لئے لازم ہو کہ اسکے بچے اور خاندان والے سرکاری سکول یا دیگر کالج میں تعلیم حاصل کریں گے۔

۳- صحت
بدقسمتی سے پاکستان میں کثیر عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ نئی حکومت کو نئے ہسپتال بنانے سے پہلے موجودہ ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنا چاہئیے۔ فی الفور نیشنل ہیلتھ انشورنس متعارف کروانی چاہئیے  اور اسکو نادرا ڈیٹا بیس سے لنک کرنا چاہئیے۔ ہر پاکستانی کے لئے حکومتی زیر انتظام ہسپتال میں سال میں ایک دفعہ مکمل جسمانی چیک اپ لازمی قرار دیا جائے۔ تمام تصدیق شدہ پرائیوٹ ہسپتال کلینک میڈیکل سینٹر کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ہر مریض کا ڈیٹا نیشنل ہیلتھ ڈیٹا بیس پر درج کرے۔ عطائی اور جعلی ڈکٹروں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے اور سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہئیے۔ میڈیکل سٹورز کو پابند کیا جانا چاہئیے کہ ممنوعہ ادویات والے نسخہ جات پر ادویات دینے کے بعد اصل نسخہ مریض سے لے لیں اور صرف اتنی مقدار میں دوا دیں جتنی ڈاکٹر نے لکھی ہے۔ میڈیکل سٹور وہ نسخہ ہیلتھ اتھارٹی کو جمع کروائے۔ اس سے ممنوعہ ادویات کی پروڈکشن سیل کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے  گی۔
تمام جعلی اور غیر تصدیق شدہ لیبارٹریز فی الفور بند کی جائیں، اور جن ڈاکٹروں نے اپنی ڈگریوں پر ان لیبارٹریز کو چلانے کی اجازت دی ہے انکے لائسنس کینسل کر لے پریکٹس کی اجازت واپس کی جائے۔

انصاف اور قانون۔
وطنِ عزیز میں قانون ہمیشہ سے صاحبِ اختیار کے گھر کی لونڈی رہی ہے۔ کوئی عام شہری اپنے پر ہوئے ظلم و زیادتی چپ کر کے سہہ لیتا ہے لیکن تھانے جاتے ڈرتا ہے۔ پولیس کو فوراً ڈی پولیٹیسائز کرنا چاہئیے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پابند بنایا جائے کہ ایف آئی آر فوراً درج کی جائے اور ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔ کیس تیار کر کے پراسیکیوشن کو بھیجوایا جائے اور تیز ترین سماعتوں سے انصاف فراہم کیا جائے بھلے اس کے لئے عدالت کو شام کو بھی لگانا پڑے۔

ٹیکس نیٹ ورک ۔
کرنسی نوٹ کی مالیت انتہائی کم کی جائے، میری رائے میں سب سے بڑا کرنسی نوٹ ۱۰۰ روپے کا ہونا چاہئیے یا ۲۰۰ روپے کا نوٹ بھی متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ اس سے کیش لین دین کی حوصلہ شکنی ہو گی اور  ہر ٹرانزیکشن کرسٹل کلئیر اور بینک سے ہو گی ۔ ہر شناختی کارڈ ہولڈر کے لئے اپنے اثاثے ایف بی آر کو ڈیکلئیر کرنے ضروری ہوں بھلے وہ ایک موٹر سائیکل ہی کیوں نہ ہو۔ ہر کاروبار کو ایف بی آر میں رجسٹریشن لازمی قرار دی جائے ۔

وزارتِ محنت
ہر ادارے کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے پاس موجود ہر ملازم کی تفصیلات جمع کروائے، انکی تنخوائیں ہر ماہ کی مخصوص تاریخ کو بینک میں جمع کروا کر تفصیلات محکمہ میں جمع کروائی جائیں۔ نیز ملازمت دیتے وقت کانٹریکٹ کی تفصیلات بائیومیٹرک ویریفیکیشن کے ذریعے محکمہ میں جمع کروائی جائیں تاکہ استحصالی نظام کی سرکوبی کی جا سکے

ٹرانسپورٹ۔
نجی ٹرانسپورٹ سسٹم کی رجسٹریشن لازمی قرار دی جائے۔ روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا نظام عمل میں لایا جائے۔ پرائیوٹ ٹیکسی اور  رکشہ ختم کیا جائے۔ ہر طرح کی ٹرانسپورٹ کو محکمہ کے زیرِ انتظام لایا جائے،۔ انکروجمینٹ کی حوصلہ شکنی کی جائے اور پارکنگ کا نظام متعارف کروایا جائے۔ روڈ سائیڈ پارکنگ اور پارکنگ پلازہ کو خودکار نظام سے لیس کیا جائے، پارکنگ انسپکٹر کی تعیناتی کی جائے، خلاف ورزیوں پر موقع پر جرمانے کئے جائیں بائیومیٹرک ڈیوائسزُ پر جس سے اس خلاف ورزی کا ریکارڈ اسکے لائسنس پر اندراج ہو سکے۔
انڈر ایج ڈرائیورز پر کریک ڈاون اور انکے والدین اور جسکی گاڑی موٹرسائیکل استعمال کی جا رہی ہے اسکو بھاری جرمانے اور قید کی سزا دی جائے۔ ہر گاڑی کی ہر سال چیکینگ اور فٹنس ٹیسٹ لازمیُ کیا جائے اور اسکا ڈیٹا نادرا سے لنک کیا جائے۔

میونسپیلٹی
شہر کی صفائی اور گندگی پھیلانے سے روک تھام کے لئے قانون سازی اور بھاری جرمانے عائد کیئے جائیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وہ چند تجاویز ہیں جن سے عام آدمی تک براہ راست فائدہ پہنچے گا باقی آپ کے جو بھی معاملات ہیں وہ آپ ساتھ ساتھ چلا سکتے ہیں۔
ان  تجاویز کو نافذ کرنے کے لئے آپکے پاس تمام ادارے موجود ہیں بس آپکو ایمان داری اور فرض شناسی سے  چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply